غربت کیسے دور ہو؟
(Professor Masood Akhter, luton)
ہر دور میں فقر وافلاس انسانی
زندگی کا المیہ رہا ہے۔ اس کے خاتمے کیلئے کئی ایک تحریکیں معرض وجود میں
آئیں۔ غربت و افلاس کو مٹانے کے ”نعرہ مستانہ“ کی بدولت مختلف ادوار میں
کئی لوگوں کی لیڈرشپ کی دھاکھ قائم رہی۔ بڑے بڑے شعرا، علماء، فلاسفرز اور
حکماء کے اعصاب پر ”روٹی“ سوار نظر آتی ہے۔ اسی کوحضرت فریدالدین گنج شکر ا
دین کا چھٹا رکن قرار دیتے ہیں تو بقول کسے چناں قحط سالے شود در دمشق۔۔۔
کہ یاراں فراموشش کردند عشق (جب دمشق میں قحط سالی پڑ گئی تو دوستوں کو
بھوک کی وجہ سے عشق و محبت کو بھی بھلانا پڑ گیا)۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ کہ
آج دنیا کے مختلف نظام ہائے معیشت میں اس غربت کو ختم کرنے کی جس قدر
کوششیں کی جاتی ہیں اس قدر یہ بڑھ رہی ہے۔اسلام روزاول سے غربت او اس کے
علاج، غریبوں کے حقوق کی پاسداری اور روحانی کے ساتھ ساتھ ان کی مادی
ضروریات کی کفالت پر بھی زور دیتا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات دولت کی پیداوار
اور حصول سے لیکر معاشرے میں موزوں تقسیم اور خرچ تک کی ہدایات ارشاد
فرماتا ہے۔ اس حوالے سے اسلام کا نظام اقتصاد کس وسعت اور گہرائی کا حامل
ہے؟ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب قرون اولیٰ کے حقیقی معنوں میں اسلامی
معاشی تعلیمات پر مبنی معاشروں کے احوال و واقعات سے آگاہی نصیب ہوتی ہے۔
اسلامی نکتہ نظر سے دولت اللہ تعالی کی ایک امانت ہے لھذاضرورت اس امر کی
ہے کہ مالک حقیقی کی ہدایات کے مطابق اس کو خرچ کیا جائے۔ محنت، کاوش اور
جد و جہد کرنا بندے کا کام ہے لیکن اس پر ثمرات فقط اللہ تعالی کی مرضی اور
منشا سے مترتب ہوتے ہیں۔ دولت کو فقط اپنے علم و ہنر کا نتیجہ سمجھنا
تعلیمات اسلامی کے منافی ہے۔ قارون اس موقف کا ایک عظیم نمائندہ تھا۔ تعلق
تو اس کا بنی اسرائیل سے تھا لیکن قوم سے بغاوت کر کے حکومت وقت کا وفادار
بن گیا تھا۔ اس کے پاس دولت کے انبار اور خزانے اس قدر کہ طاقت ور مردوں کی
ایک جماعت اسکے خزانوں کی چابیاں اٹھا سکے لیکن اپنی قوم کی غربت و افلاس
اور زبوں حالی کے احساس سے اس کا دل خالی تھا۔ اس کی قوم نے اس کو سمجھایا
کہ ” اس خدا داد دولت سے آخرت کمانے کی فکر کر۔ غور و حوض کر کہ دنیا میں
تیرا کس قدر حصہ ہے؟ اللہ تعالی نے تجھ پر بیحد احسانات کیے ہیں تو بھی
لوگوں کے ساتھ بھلائی کر۔ فتنہ و فساد سے گریز کر کیوں کہ اللہ تعالی فساد
بپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے“ (سورہ القصص آیت نمبر 77) لیکن اسکا
جواب یہ تھا کہ ”یہ ساری دولت میرے علم و ہنر کا نتیجہ ہے“ (سورہ القصص آیت
نمبر 77)
بالآخر عذاب الہی کے نتیجے میں وہ اپنے خزانوں اور محلات سمیت زمیں میں
دھنسا دیا گیا۔ آج تک کسی جیالوجسٹ یا اسٹرانو مست کو خبر نہ ہو سکی کہ اسے
زمیں نگل گئی یا آسماں اچک کر لے گیا۔
اسلام کی نگاہ میں غربت ایک پیچیدہ مسئلہ ہی نہیں بلکہ ایک مصیبت ہے جس سے
پناہ مانگنی چاہیے۔
اسکے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی انفرادی اور سماج کی اجتماعی زمہ داریوں کے
حوالے سے ایسے اصول و ضوابط عطا کیے کہ جن سے غربت کا خاتمہ ہواور خوشحالی
رواج پائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ غربت اور لاچارگی ایمان کی بقاء کیلئے بھی سخت خطرناک
ہیں۔ بالخصوص اس جگہ جہاں معاشرے میں دولت کی غلط اور غیر منصفانہ تقسیم کے
نتیجے میں امیر اور غریب کا فرق انتہا کو پہنچ جائے۔ حضورﷺ نے فرمایا ”کاد
الفقر ان یکون کفرا“ (عن ابو نعیم بیقہی، طبرانی) کہ قریب ہے کہ غریبی کفر
تک پہنچا دے۔ ایک اور مقام پر آپ ﷺنے فرمایا ”اللھم انی اعوذ بک من الکفر
والفقر“ (ابوداؤد) کہ اے اللہ تعالی میں کفر اور افلاس سے پناہ مانگتا ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت ایک انعام الہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک
بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ جس دولت کو
دنیوی زندگی میں لوگ سامان راحت سمجھ رہے ہیں کہیں وہ آخرت میں وبال جان نہ
بن ئے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں چیرٹی ورک ہو رہا ہے۔ کچھ نرم دل اورانسانیت
کے غم گسار اپنی مرضی سے غریبوں کی مدد ضرور کرتے ہین لیکن اسلام نے زکوۃ
کی صورت میں ایک مخصوص حصہ ہر صاحب ثروت مسلمان کے مال میں مقرر کردیا ہے۔
یہ اختیاری نہیں بلکہ لازمی طور پر ادا کرنا ہے۔ حکومت اسلامیہ کا بنیادی
فریضہ ہے کہ نظام زکوۃ قائم کر کے معاشرے سے غریبی کا کاتمہ کرے۔ صدقہ فطر
کے وجوب کی بھی ایک حکمت یہی ہے کہ جو لوگ نادار اور غریب ہیں اور عید کی
خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکتے۔ ان کی مدد کرکے انہیں اس قابل بنا دیا جائے
کہ وہ بھی عید کی خوشیاں انجوائے کر سکیں۔ علاوہ ازیں کئی ایک جرائم کے
کفارہ کے طور پر غرباء اور مساکین کے دستگیری کا اہتمام کیا گیا۔ اپنے اعزہ
و اقربا کے ساتھ حسن سلوک اور مالی معاونت کی تلقین کر کے خوشحال معاشرے کی
بنیاد رکھی گئی۔ پڑوسیوں، راہگیروں اور سفید پوشوں کے ساتھ ھمدردی اور
تعاون کی تعلیم دی گئی تاکہ افلاس اور تنگدستی سے چھٹکارہ پایا جا سکے۔ آج
ہمارے مسلمان ن معاشرے اگر صرف صحیح معنوں میں زکوۃ کی ادائگی کا ہی فریضہ
انجام دیں تو غربت و افلاس دیکھنے کو نہ ملے۔ قرون اولی کے بیشمار ایسے
واقعات ہماری تاریخی دستاویزات کی زینت ہیں کہ حقیقی اسلامی نظام معیشت کے
نفاذ سے معاشرے خوشحال ہوئے۔ لوگ زکوۃ لے کر پھرتے تھے مگر لینے والا کوئی
نہ ہو تا۔ دولت اور مادیت پرستی کی کی محبت ایک حد سے تجاوز کر جائے تو کئی
ایک فسادات کو جنم دیتی ہے۔ خاندانوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ محبتیں ماند
پڑ جاتی ہیں اور دلوں میں حسد و بغض جگہ پا کے کئی ایک معاشرتی فسادات کا
سبب بنتے ہیں۔ آج ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ مذہب ہو یا سیاست ہر جگہ مادیت
پرستی اخلاقی و روحانی اقدار کو دھندلا کر رہی ہے۔ معاشی نا ہمواری کئی ایک
معاشرتی مسائل پیدا کرتی ہے۔ آج مسلم امہ کے پاس بے پناہ دولت کے ذخائر
موجود ہیں۔ لیکن تقسیم اس حد تک غلط کہ ایک ایک حکمران اور سرمایہ دار
اربوں ڈالر کا مالک تو دوسری طرف بیشمار بیکس، لاچار اور تنگدست نان شبینہ
کو ترس رہے ہیں۔ خدا خوفی اور اللہ کی بارگاہ میں پیشگی کے عقیدہ کی کمزوری
بظاہر اس کا سبب نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ذات کے حصار
سے نکل کر دوسروں کے غم بانٹنے کی طرف بھی رخ کریں۔ دنیابھر میں طاغوتی
جنگوں اور نا انصافیوں کے نتیجے میں بیشماریتیموں، بیواؤں، بیکسوں اور
کمزوروں کو ہماری مدد کی جتنی ضرورت آج ہے شاید کبھی نہ ہو ئی ہو۔ تھرپارکر
کے قحط ذدہ لوگ، شمالی وزیرستان کے لٹے پٹے آئی ڈی پیز،شام کے مصیبت زدہ
مہاجرین اور فلسطین و کشمیر کے مظلوم بہن بھائی اس نیلگوں آسمان کے نیچے
ہمارے مدد کے منتظر ہیں۔ آؤ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ان کو دنیوی آسائش
دے کر اپنی آخرت سنوارنے کا سامان کر لیں۔ |
|