ازدواجی زندگی کی الجھنیں، ایک سنگین مسئلہ)
(Professor Masood Akhter, luton)
بحیثیت مسلمان زندگی کے تمام
شعبوں میں اسلام ہمارے لیے راہنما اصول متعین کرتا ہے۔ اعتقادات، عبادات،
اخلاقیات اور معاملات سے لیکر تہذیبی اور ثقافتی روایات تک ہم کسی کے محتاج
نہیں۔ اپنی حدود میں رہ کر پروقار اور مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ چند عبادات کو دین سمجھ لیا ہے اور باقی معاملات میں
ہم دین سے کچھ لینے کی بجائے دوسروں کی نقل کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں یا
اپنی
خواہشوں کے غلام ہیں۔ اس سے کئی ایک مسائل اور مشکلات جنم لیتے ہیں اور پس
پردہ مورد الزام”اسلام“ کو ٹھہرایا جا تا ہے جو کہ خلاف حقیقت اور سراسر
غلط ہے۔
شادی کا بندھن انسانی سماج کا نقطہ آغاز ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
نکاح کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن پاک نے اس کے احکامات اور اصو ل بیان
کیے اور نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ اور ازواج مطہراتؓ کی سیرت پاک اس مناسبت
سے ہم سب مرد و زن کیلئے بہترین نمونہ عمل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
نکاح کے اچھے برے اثرات پورے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔ بعض اوقات اس میں
بیجا تاخیر، بے اعتنائی اور عدم احتیاط اخلاقی اقدار کے زوال کو جنم دینے
کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نکاح انسان کی ایک فطری ضرورت ہے
لھذا اس سے انحراف یا صرف ِنظر، جبلی اور پیدایشی جنسی تقاضوں کو کالعد م
قرارنہیں دے سکتا۔ ایسے مسلمان معاشرے جہاں بلوغت کے دس تا پندرہ سال بغیر
شرعی اور مسنون نکاح کے گزارنا ایک عام روایت بن جائے، وہاں فحاشی، بدکاری
اور بے راہروی کا پھیلنا کوئی زیادہ حیرت انگیز امر نہیں۔ حقیقت حال یہ ہے
کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے آج ہر جگہ جذبات کو برانگیختہ
کرنے والے کئی عوامل بھی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔نام نہاد مسلمان معاشروں
میں فیشن کے نام پر بے پردگی اور فلموں و ڈراموں کے ذریعے بے حیائی پر مبنی
عشق و محبت کی تلقین عام ہے۔ حالانکہ ان تمام خرافات کا اسلامی طرز زندگی
سے تعلق نہ کوئی واسطہ بلکہ محرمات اور ممنوعات کے زمرے میں آتی ہیں۔ان
حالات میں شادی کی ضرورت و اہمیت اور بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ اسلام نے شادی
کو جتنا آسان بنایا آج ہمارے معاشرے کے ڈھانچے میں اس کو اتنا ہی مشکل بنا
دیا گیا ہے۔ہمیں اس بات کو یاد رکھنا ہے کہ شادی انسانی زندگی کا وہ بنیادی
پتھر ہے جس پر تہذیب و تمدن کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں خاندانی
نظام توڑ پھوڑ، افراتفری اور اضطراب کا شکار ہو تو پھر سونا اگلتی زمینیں،
ِ لہلہاتے کھیت، دولت کی ریل پیل، پر تعیش گھر، لگژری گاڑیاں اور جدید
ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل شدہ سہولیات کے باوجود بھی زندگی سکون سے محروم
رہتی ہے۔
اگر ہم اپنے ارد گرد پر غور و حوض کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ نکاح کے بابرکت
اور مسنون معاہدے کو بے جارسم و رواج، غیر اخلاقی شرطوں اور بے تحاشا
اخراجات کی وجہ سے ہم نے خود ہی برکتوں سے محروم اور مشکل ترین بنا دیا ہے۔
اسلام معتدل تعلیمات پر مبنی مکمل ضابطہ حیات ہے جو صرف مشرقی ہے نہ مغربی
بلکہ اس کا منبع تو وحی الہی ہے۔ اور ایک ایسی ذات باری تعالیٰ کا وضع کردہ
ہے جو ہر دور کے تقاضوں سے ہر لمحہ واقفِ حال ہے۔ لھذا ہمارا کام جدید و
قدیم یا مشرقی و مغربی روایات میں الجھنا نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور فقہ
اسلامی کی روشنی میں یہ پرکھنا ہے کہ کیا یہ اسلامی مزاج اور تعلیمات کے
مطابق ہیں یا نہیں۔ جب تک یہ جرائت اور بصیرت ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتی
اُس وقت تک ہم ہندوستانی، مغربی اور خود ساختہ ثقافتی یلغار کے شکار رہیں
گے۔ اس طرح ہماری اجتماعی زندگی کی رہی سہی اقدار بھی خطرے کا شکار رہیں
گی۔
معاشرے میں جہیز کی ایسی لعنت رواج پکڑ گئی ہے کہ تمام تر کوششوں کے با
وجود بھی ختم نہیں ہو پا رہی۔ یقینا یہ متوسط اور غریب طبقے کیلئے ایک عذاب
سے کم نہیں۔ بیشمار ایسی غریب لڑکیاں ہیں جو اس لعنت کا شکار ہو کر اس لیے
شادی سے محروم ہیں کہ ان کے والدین جہیز ادا نہیں کر سکتے۔ اس حوالے سے
ہمارے لیے بہترین راہنمائی کیلئے دو واقعات انتہائی سبق آموز ہیں۔ ایک
حضورﷺ کا اپنی پیاری لخت جگر حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا نکاح کرنا اور مختصر سا
سامان عنائت فرمانا۔ اور دوسرا حضرت ابو بکر صدیقؓ کا اپنی پیاری بیٹی حضرت
عائشہ صدیقہؓ کا نکاح حضورﷺ سے کرنا اور اسلام کی سادگی سے متعلقہ تعلیمات
کا عمدہ نمونہ پیش کرنا۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کس قدر مختصر سا سامان ضرورت
عنائت کر کے رخصتی کے انتظامات کیے گئے۔ اگر اس پر ہم عمل کرلیں تو کئی ایک
فقط غربت کی وجہ سے شادی کے خواب و انتظار میں بیٹھی مسلمان بیٹیاں رشتہ
ازدواج میں منسلک ھو جائیں گی۔
شادی ایک ایسا بندھن ہے جو انسان کو ذہنی پختگی اورپاکیزہ زندگی گزارنے میں
مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کی تکمیل اپنے جیون ساتھی سے مل کر ہی
ہوتی ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ برکتوں والا ہوتا ہے۔ ان کا آپس میں خوش اسلوبی
کا تعلق بھی رضائے الہی کا سبب ہوتا ہے۔ دین اسلام انسان کے فطری جذبات کی
قدر کرتا ہے اور انہیں صحیح ڈگر پر رکھنے کیلئے مکمل راہنمائی عطا کرتا ہے۔
اسی لئے شادی کو اسلام میں بہت اہمیت دی گئی۔اگرچہ اسلام نے شادی میں کفو
کی رعائت رکھی ہے جس کا مقصد فقط یہ ہے کہ زندگی بھر کا ساتھ نبہاہنے کیلئے
میاں بیوی کے درمیان خاصی ہم آہنگی پیدا ہو۔ ان کے رہن سہن اور بود و باش
میں اتنا فرق اور دوری نہ ہو کہ بقیہ زندگی گزارنے میں مشکلات کا سامنا
کرنا پڑے۔ لیکن ہمارے ہاں بے جا شرائط اور خرافات کی وجہ سے نکاح کو شطرنج
کا کھیل بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر قرض لیکر اایسے فضول
اور شیطانی کام کیے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔
دعا ہے کہ ہمارے گھروں میں سادگی اورپرہیزگاری عام ہو جائے۔ دولت کے نشے
میں مست ہو کر ہم اپنے بچوں کو الٹے کاموں سے باز رکھنے کی طرف متوجہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ سلو ک و اتفاق عطا کریں اور گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں سے
میاں بیوی کے درمیان جو نفاق اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اس سے محفوظ رکھیں۔
آمین
الہی دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم ِکبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر
|
|