مسیحی جوڑے کا بیہمانہ قتل۔۔۔

 ایک اور دل اندوز واقعہ ۔انسان ایک بار بھی سوچے تو کانپ اٹھتا ہے۔ماچس کی ڈبیا ، لائیٹر یا استری کی معمولی سی جلن دنوں نہیں مہینوں تک تکلیف دیتی ہے۔لیکن وہ کیا بدنصیب جوڑا ہو گا جسے اینٹوں کی بھٹی میں زندہ جلا دیا گیا۔ کوئی جانور بھی ایسی بھٹی میں گر کر ہلاک ہوجائے تو دل دُکھتا ہے ۔ وہ تو انسان تھے ۔ جیتے جاگتے انسان ۔تین بچوں کے والدین ۔ اُن کے تین بچوں پر کیا بیتی ہوگی ؟جن کی عمریں تو چھ سال سے کم ہیں ، لیکن اُن کے سروں پر والدین کا سایہ نہیں رہا۔ان معصوموں کی ذہینی کیفیت کیسی ہوگی جب انہوں نے سنا ہوگا کہ اُن کے والدین کو بھٹی میں زندہ جلا دیا گیا ۔ اُن بدنصیبوں کو تو اپنے والدین کا آخری دیدار بھی نصیب نہیں ہوا ۔دیدار کرتے بھی تو کیسے کرتے ۔لاشیں موجود تھیں لیکن جلی ہوئی ہڈیوں کی صورت میں۔ڈی این اے ٹیسٹ کے قابل بھی نہیں تھیں ۔ایسے مناظر دیکھ کر تو بڑے بڑوں کی آنکھیں پتھرا جاتی ہیں ۔وہ تو پھر بھی بچے ہیں ۔ معصوم بچے ۔اُن کو دُکھ اور تکلیف دینے والے ہر کردار کا تعلق اسی معاشرے سے ہے ۔اُن کے سر کے اوپر سے آسمان اور پاؤں کے نیچے سے زمین کھینچنے میں امام مسجد ، ضلعی انتظامیہ ، پولیس ، بھٹہ مالک،عوام سب کا کر دار افسوس ناک ہے۔

اس واقعے میں پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا کردار ان گنت سوالات چھوڑ گیا ہے ۔پہلے تمام تر اطاعات کے باوجود پولیس موقع پر دیر سے پہنچی ۔اور پہنچی بھی تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ۔ایک ہزار کے لگ بھگ کے مجمے کو کنٹرول کرنے کے لئے پانچ پولیس اہلکا ر ہی پہنچے ۔اور وہ بھی تمام تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔مشتعل ہجوم جب دروازہ توڑ کر کمرے میں داخل ہوا ہوگا تو شہزاد اور شمع نے ضرور سوچا ہو گا کہ شاہدابھی کوئی ایس ایچ او، کوئی اے ایس پی ، کوئی ڈی ایس پی ، کوئی ڈی سی او ، کوئی تحصیلدار ان کی مدد کو آپہنچے گا اور اُن کی جان بخشی کرا لے گا۔ وہ اسی انتظار میں دہکتی ہوئی بھٹی کے حوالے کر دیے گئے لیکن کوئی مسیحا نہ آیا۔صبح فجر کی نماز کے بعد مسجدوں میں اعلانات کیے گئے ۔اور اعلانات بھی ایک گاؤں کی مسجد سے نہیں بلکہ تین گاؤں کی مساجد سے کیے گئے ۔لوگوں کو بھٹے پر پہنچنے کے لئے کہا گیا ۔بلکہ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ ایک مذہبی رہنما دیر تک لوگوں کو اُکساتا رہا ۔لوگ جلوسوں کی صورت میں بھٹے پر پہنچے ۔بھٹے پر پنچایت منعقد ہوئی ۔لیکن اس تمام عمل کے دوران پولیس اور ضلعی انتظامیہ سوئی رہی ۔اور کہا یہ گیا کہ ضلعی انتظامیہ اور پولیس محرم کے انتظامات میں مصروف تھی تو پولیس کی وافر نفری دستیا ب نہیں تھی ۔یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جس ضلع میں محرم کے جلوس ، یا کسی اور جلوس نے گزرنا ہو ۔ وہاں کی پویس اورمقامی انتظامیہ باقی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہوجاتی ہے ؟ قصہ یہاں پر تما م نہیں ہوجاتا ۔واقعہ ظہور پزیر ہوجانے کے بعد پولیس اور ضلعی بھٹہ مالک اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر مسیحی جوڑے پر کچھ لے دے کر کے معاملہ دبانے کے لئے دباؤ ڈالتی رہی ۔پھر جب معاملہ میڈیا میں اٹھا ۔ اخباری نمائندگان وہاں پر پہنچے ۔ وزیر اعلی نے نوٹس لیا تو پویس حرکت میں آگئی ۔ اور سننے میں آیا ہے کہ پو لیس اب اس قدر reactive ہے کہ ان تین گاؤں میں جو بھی مرد انہیں نظر آرہا ہے وہ اسے اٹھا کر جیل منتقل کررہے ہیں ۔چاہے وہ اس واقعے میں ملوث تھا بھی یا نہیں ۔

بھٹے پر کام کرنے والے مزدور ایک عرصے سے مالکان کے غضب کا شکا ر ہیں۔یہ مزدور سولہ سولہ گھنٹے شدید ترین موسم میں اینٹیں بنانے کا سخت ترین کا سرانجام دیتے ہیں ۔قلیل اجرت کی وجہ سے یہ مزدور قرض کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے ۔ اور یوں مالکان پورے کے پورے خاندان کو خرید لیتے ہیں۔ان مزدوروں کو اجرت سے لے کر اوقات کا ر تک ہر قدم پر دشواری کا سامنہ ہوتا ہے۔نہ ہی ہفتہ وار تعطیل ہے ، نہ کسی خواہش کا احترام کیا جاتا ہے ۔نہ رہائش کا خاطر خواہ انتظام ہے ۔نہ صحت کی سہولیات دستیاب ہیں۔بھٹہ مالکان ان کا سوشل سیکورٹی کا رڈ تک بننے نہیں دیتے ۔حتی کہ ان کے بچوں کو تعلیم کی سہولت بھی دستیاب نہیں ۔یہاں پر کام کرنے والی عورتوں کے لئے زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہے ۔دن بھر کڑی دھوپ میں سخت محنت کے باوجود مالکان کا رویہ افسوناک ہوتا ہے ۔یہاں پر کام کرنے والی بہت ساری خواتین مالکان کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں اوربے شمار اس ناروا سلوک کے باعث خود کشی کر لیتی ہیں۔اب سوال یہی پیدا ہوتا ہے بھٹہ مالکان پر قوائد و ضوابط کا موثر اطلاق کب ہوگا۔جبری مشقت کے خلاف قانون 1992 میں آیا تھا اورپنجاب حکومت 2012 میں اس قانون کو ترامیم کے ساتھ پاس کر چکی ۔ لیکن اس پر عمل در آمد کب سے شروع ہوگا ؟عمل درآمد شروع ہوگا بھی یا اسی طرح بھٹہ مزدوروں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوتے رہیں گے ۔

لاؤڈ سپیکر کا استعما ل جس انداز سے ہوا ہے وہ سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے ۔لاؤڈ سپیکر کے غلط استعمال نے پاکستان کو مذہبی فرقہ واریت کی حدوں پر پہنچا دیا ہے اور ابھی تک اس کے غلط استعمال روکنا تو دور کی بات اس کے غلط استعمال پر چیک بھی نہیں رکھا جاسکا ۔لاؤڈ سپیکر ترمیمی آرڈیننس 2011 کے تحت لاؤڈ سپیکر کا استعمال صرف آذان اور جمعے کے خطبے کے لئے ہوگا ۔ اور لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال کرنے والے کو ایک سال قید ، پچاس ہزار جرمانہ یابیک وقت دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔یہاں پر بھی قانون موجود ہے لیکن مسئلہ عمل درآمد کا ہے ۔جانے کتنی زندگیوں کے چراغ بجھیں گے پھر جاکر اہل اقتدار کو خیال آئے گا ۔

اس واقعے میں سب سے زیادہ تکلیف دے اور افسوس نا ک رویہ عوام کا ہے ۔نہ دیکھتے ہیں ، نہ سوچتے ہیں ، نہ سمجھتے ہیں کہ کسی کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ ہم کسی کے ہاتھ میں کھلونا تو نہیں بن رہے ۔دین کے معاملے پر طیش میں آجاتے ہیں ۔ اور ایک کے پیچھے ایک اور اس طرح پورا ہجوم نکل پڑتا ہے ۔بغیر تحقیق کسی بھی معاملے پر فتوح دینا ۔بغیر تصدیق کسی بھی بات کو آگے پھیلا دینا ہماری قوم کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ عوام مدعی بھی خود ،گواہ بھی خود اورجج بھی خود بنتی جارہی ہے ۔ دین ، فرقے ، برادری اور قوم کے نام پر جذبات میں آنا یہاں پر روایت بنتی جارہی ہے ۔افسوس کہ ہماری پڑھی لکھی عوام بھی اس مرض کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ جب فرقے، لسانی تشخص ،علاقیت اور مذہب کا نام آئے تو آئین و قانون پر بات کرنے والے،حقوق اور فرائض پرلیکچرز دینے والے ڈنڈا برداروں کی صف میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔کوٹ کشن رادھا میں مسیحی جوڑے کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرنے والوں میں ایسے ہی نجانے کتنے ڈنڈا بردار ہوئے ہونگے۔
Engr Asghar Hayat
About the Author: Engr Asghar Hayat Read More Articles by Engr Asghar Hayat: 13 Articles with 21514 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.