چائلڈ لیبر ۔ایک ناسور
(Shahzad Hussain Bhatti, )
بچے اپنے والدین کے ساتھ
ساتھ اپنے ملک کا مستقبل اور سرمایہ حیات ہوتے ہیں ۔گھریلو حالات سے تنگ
آکر یہ بچے سکول جانے کی عمر میں بعض اوقات خود یا والدین کے کہنے پر گھر
کا چولہا جلانے کی خاطر سکو ل جانے کے بجائے دکانوں ،ریڑھیوں ،کوڑاچننے اور
دیگر مقامات پر کام کرنے لگ جاتے ہیں یہ ایک المیہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ معاشرتی ناسور کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر یہ ناسور سماج کی شکل
پر داغ دار اور بدنما دھبا بن جاتا ہے گو ساری دنیا اس لعنت کا سامنا کر
رہی ہے خصوصاًتیسری دنیاکے غریب ممالک اسکا زیادہ شکار ہیں پاکستان جیسا
ملک جہاں اشرافیہ امیر سے امیر تر اور غریب غریب تر ہو تا جا رہا ہے وہاں
غریبوں کے بچے سکول جانے کی بجائے دکانوں ،ہوٹلوں ،بس اڈوں ، ورکشاپوں
اوردیگر متعدد جگہوں پر مزدوری پر لگا دیئے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے اس ملک میں نہ تو تعلیم فر ی ہے ۔اور نہ علاج ۔اگر تعلیم کے لیے
سکول ہیں تو کتابو ں اور فیسوں کے لیے غریبوں کے پاس پیسے نہیں ہیں ہمارے
ملک کو وجود میں آئے 67 سال ہو چکے ہیں مگر حکمرانوں کو اس ملک کی ہڈیوں کا
گودا چوسنے سے ہی فرصت نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے نونہالوں کی مستقبل کے لیے
ٹھوس بنیادوں پر کو ئی حکمت عملی مرتب کر سکیں جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جا
سکے ۔
ہمارے ملک میں عوامی حقوق کی بات کو سب ہی سیاسی جماعتیں کرتیں ہیں لیکن
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے کسی بھی جماعت نے اسے اپنے منشور کا حصہ
نہیں بنایا پاکستان میں چائلڈ لیبر کو روکنے کے لیے مندرجہ ذیل قوانین موجو
د ہیں جن میں امپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 ء ، فیکٹر یریز ایکٹ 1934 ء ،ویسٹ
پاکستان شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹ آرڈنیس 1969 ء ، دی باونڈڈ لیبر سسٹم ابالشن
ایکٹ 1992 ء اور پنجاب کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 1994ء وغیرہ لیکن ان قوانین
پر عمل درآمد آج تک نہیں ہو سکاہے۔چار سے چووہ سال کے گیارہ ملین بچے آج
بھی فیکٹریوں اور دیگر مقامات پر انتہائی نا مساعد حالات میں کا م کر رہے
ہیں۔
مزدور بچوں پر آخر ی سروے 1996 ء میں ہو ا تھا ۔جس میں بتایا گیا ہے کہ
ملک میں 33 لاکھ بچے مزدور ہیں جبکہ یہ صر ف باقاعدہ کام کاج کی جگہوں
پرکام کر نے والو ں کی تعداد ہے مزدور بچوں کا اسی فیصد تو غیر رسمی شعبہ
میں ہے جیسے گھروں اور کھیتوں میں کا م کرنے والے جنکا کوئی سروے نہیں کیا
جاتا ۔سماجی بہبود پر کا م کرنے والی ایک تنظیم کے مطابق باقاعدہ شعبوں میں
کا م کرنے والے مزدور بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جس میں
سے صر ف بیس لاکھ بچے پنجاب سے ہیں پاکستان میں بچوں کی مزدور ی سے متعلق
قوانین میں بچوں سے مراد ایسے نو عمر لوگ ہیں جنکی عمر چودہ سال سے کم ہے۔
جبکہ عالمی کنونش میں یہ عمر پندرہ سال ہے یہ ایک المیہ ہے کہ ملک میں پانچ
سے پندرہ سال کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور یہ
بچے کسی وقت بھی وقت نو عمر مزدور بن سکتے ہیں یہ بچے اکثر گاڑیوں کی
ورکشاپوں ،فرنیچر کارخانوں،ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرتے دیکھائی دیتے ہیں
اس کے علاوہ ملک بھر کے بھٹہ خشت یہ بھی ان بچوں سے نہ صر ف مزدور ی بلکہ
جبری مشقت بھی لی جاتی ہے۔
اس طرح سیالکوٹ اور دیگر علاقوں میں آلات جراحی کی تیاری میں یہ بچے نمایا
ں کردار اد ا کررہے ہیں اور انکی انتھک اور شبانہ روز محنت کی وجہ سے ملک
میں اربوں روپے کا سالانہ زرمبادلہ کمایا جاتاہے مگر دھاتوں کے گھسنے سے
اٹھنے والی دھول نہ صرف ان معصوم بچوں کے پھیپھڑو ں میں جاتی ہے بلکہ ان کے
لیے موزی امراض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ دیتا ہے ،اس طرح فرنیچر اور
گاڑیوں کی ڈینٹنگ پینٹنگ کے کا م میں رنگ اور پالش میں موجود خطر ناک
کیمیکل بھی ان بچوں کا مقدر بنتے ہیں اور یہ بچے ٹی بی جیسی امراض میں
مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ٓآلات جراحی بنانے والے کام میں بچوں کی مزدوری ان سات شعبوں میں شامل ہے
جنھیں حکومت نے بچوں کے لیے خطر ناک قرار دیا ہوا ہے ۔جبکہ دوسرے کاموں میں
کان کنی ،چوڑی سازی ،ماہی گیری ،قالین بافی ،چمڑابنانے کی صنعت اور کوڑا
اٹھانے کا کام شامل ہیں۔
بچوں کے لیے سب سے زیادہ خطر ناک کا م چمڑے کی صنعت ہے جہاں بڑی تعداد میں
کیمیکل استعمال ہو تے ہیں جو ان ننھی جانوں کے پھیپھڑوں پر بری طرح اثر
انداز ہوتے ہیں جبکہ قالین بافی میں پنجوں پر بیٹھنے کی وجہ سے اکثر اوقات
ان بچوں کے پاؤں مڑ جا تے ہیں اسی طرح ہسپتالو ں سے کوڑا کرکٹ ،ٹیکے ،گندی
پیٹیاں بھی اٹھاتے ہیں جن کے بارے میں وہ نہیں جانتے کہ وہ کتنی خطر ناک
بیماریوں میں مبتلاہو سکتے ہیں بد قسمتی سے ہمارے ہسپتالوں میں کوڑا کرکٹ
کو ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ماحول متاثر
ہونے کا اندیشہ رہتا ہے ۔
بچوں کی مزدور ی کرنے کی بڑی وجہ غربت ہے اکثر والدین پیسوں کی بجائے صرف
اس غرض سے بچوں کو کام پر بھیجتے ہیں کہ وہ کوئی ہنر ہی سیکھ لیں گے ۔آئی
ایل او کے منصوبے پر کام کرنے والے ایک اہلکار کے مطابق قالین بافی میں صرف
بایئس فیصد بچے خاندان کی غربت کی وجہ سے تھے جبکہ تعلیم کی طرف راغب کرنے
پر پینتالیس فیصد بچوں نے قالین بافی کو چھوڑ کر سکولوں کی رہ لی ۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں بچوں سے
مزدوری لینے کے کام میں نمایا ں کمی واقع ہوئی ہے ۔آئی ایل او کے مطابق
پاکستان میں مزدور بچوں کی تعداد میں نمایا ں کمی ہوئی ہے تاہم اس کے
باوجود اب بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد چوڑی سازی ،چمڑے سازی ،سرجیکل آلات کی
صنعت ،کوئلے کی کانوں ۔گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے کاروبار میں ہیں اس
طرح پورے ملک میں ایک لاکھ دس ہزار بچے صرف کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور
ہسپتالوں کا فضلہ جمع کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ بڑھتی ہو ئی مہنگائی ،بے روزگاری ،تعلیمی
اخراجات میں اضافہ اور حکمرانوں کی چائلڈ لیبر پالیسی سے پردہ پوشی کی وجہ
سے چائلڈ لیبر کم ہو نے کی بجائے بڑھے گی چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے حکومت
کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی فعال کردار ادا کرنا ہو گا اور غربت کے ہاتھوں
مجبور مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم ،علاج معالجہ اور کفالت فراہم
کرنے کے ذرائع مہیا کرنے ہونگے ۔اس کے علاوہ کروڑوں روپے خرچ کرنے والی این
جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر اور اسکے اسباب کے خاتمے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر
اقدامات کرنا ہوں گے ۔این جی اوز کو چاہیے کہ محض دکھاوے کی روش کو ترک
کریں اور سنجیدگی سے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے عملی اقدامات کریں۔ |
|