موجودہ حالات کا خوف ۔۔۔۔

کسی نہ کسی بات کا خوف ہر انسان کے مزاج میں شامل رہتا ہے ،ذہن پر خوف کی حالت اس وقت طاری ہوتی ہے جب وہ بے کار ہوگیا ہو اور ذہن بیکار اسی حالت میں ہوا کرتا ہے جب اعصاب خوف زدہ کرنے والی چیز یا مرعوب نہ ہونے کی قوت کھو چکے ہوں ، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا کے موجودہ حالات نے کامیاب زندگی کی تمام راہیں بند کر دی ہیں اس لئے اب کامیاب زندگی گزارنے کا تصور صرف ایک خواب ہے جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا مگراس بات کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا، ہمارے نزدیک یہ کہنا غلط ہے کہ اب کوئی انسان خواہ وہ کتنی ہی جدوجہد کرے، کامیاب زندگی کی منزل پر نہیں پہنچ سکتا ہر روز غریب امید کی چنگاری سلگاتا ہے اور ہر شام بھوک کی اندھی اُسے بجھا دیتی ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے تو بچے غذائی قلت کا شکار ہیں یہ بد قسمتی نہیں تو اور کیا ہے اس طرح کے حالات میں لوگ خوف کا شکار ہوتے جارہے ہیں ایسا خوف جو انسان کو جکڑ رہا ہے-

آج کل لوگ مختلف طرح کے خوف میں مبتلا ہیں موجودہ انسان کی اندرونی قوت اپنی کارکردگی سے محروم ہوگئی ہے اس لئے اس کے اعصاب خوف کا دباؤ قبول کر رہے ہیں پرانے وقتوں میں انسانوں کا مقولہ تھا ’’چیزیں ضائع نہ کرو ضرورتیں نہیں بڑھیں گی ‘‘ مگر موجودہ انسان اپنے عمل سے یہ کہہ رہا ہے کہ’’ ضرورتیں بڑھاتے چلے جاؤ چاہے چیزیں ضائع کیوں نہ کرنا پڑیں‘‘ ادھر لوگوں کایہ رویہ ہے اور ادھر عالم گیر پیمانے پر اشیاء کی قلت اور گرانی میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس سے ہر فرد کو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ وہ ناگزیر اشیائے استعمال میں سے کون سی چیزیں خریدے اور کون سی نہیں خریدے اس معاشرتی دھکا پیل کی وجہ سے ہر شخص جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ روپے کمانے اور آنا فاناً دولتمند بننے کی دوڑ میں مبتلا ہے اشیاء کی قلت اور ان کے حصول میں دقتوں کی وجہ سے روز بروز حرص ، بد دیانت ، خود غرض استحصال پسند ، غصیل، جھگڑالو اور تنگ دل ہوتا جا رہا ہے اُس کو دوسروں کی حق تلفی کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی وہ لوگ جن کے پاس دولت ہے اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ مقدار میں اشیاء خرید کر ذخیرہ کر لیتے ہیں اس سے چیزیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں اور انسان روز بروز زیادہ لالچی بنتا جا رہا ہے اس رویے نے بلیک مارکیٹ کو جنم دیا جس سے تاجر چوری، چوری چیزیں مہنگی فروخت کرکے راتوں رات مالدار بن رہے ہیں جب کہ ایسے لوگ جو دولت کے معاملے میں امیر اور بلیک مارکیٹ کے تاجروں کی برابری نہیں کر سکتے اپنے حصے کی اشیاء سے بھی محروم ہیں یہ بات غلط نہ ہو گی کہ عام طور پر ہم اس بات پر قطعی دھیان نہیں دیتے کہ جو کام ہم کررہے ہیں اس سے ان لوگوں پر کیا اثر ات مرتب ہوں گے معاشرہ یاملک اِس سے کس انداز میں متا ثر ہو گا اِس کے اثرات منفی ہوں گے یا مثبت ، یہی وجہ ہے کہ ہم خوفزدہ ہوتے جارہے ہیں اور یہ سب حالات کے خوف سے ہورہاہے اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب اُسے ایسی اشیاء کے بغیر زندگی گزارنا پڑے گی جنہیں اُس نے جزوِ زندگی بنا رکھا ہے ذہن پر خوف کی حالت اس وقت طاری ہوتی ہے ذہن اس حالت میں بیکار ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے ان حالات میں کامیابی کے حصول کی جدوجہد کس طرح بار آور ہوسکتی ہے موجودہ انسان کا قلت اور گرانی سے خوف اس کی ذہنی مشکل ہے، آج کل کے دور میں معاشرتی مسائل ذہنی پریشانی کا سبب بن رہے ہیں انسان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچے اور جو لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ معاشرے کی بے حسی برداشت نہیں کر پاتے اور مایوس ہوتے ،ہوتے نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ زندگی کی کشش ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی،سب کہتے ہیں اور مانتے ہیں کہ آج کا دور خود غرضی کا دور ہے معاف کیجئے گا عام حالات میں ہم خود بھی ویسے ہی ہیں جیسے لوگوں کو ہم ناپسند کرتے ہیں اصل میں یہ دور میرے خیال میں خودغرضی کا نہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اب تک قیامت برپا ہو چکی ہوتی بلکہ یہ دوربے حسی کا دور ہے ،ہر انسان بے حس ہوتا جارہا ہے اُس کو صرف اپنا آپ نظر آتا ہے بالکل ایسے جیسے ہمارے حکمران بالکل بے حس ہیں ہر احساس سے عاری کسی ڈمی کی طرح،ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کو فرصت نہیں کہ وہ غربت کی چکی میں پستے عوام کی سانس سانس پر لگی بھوک کی گرہیں کھولنے کے لئے سنجیدگی سے سوچنے کی زحمت ہی گوارہ کر لیں۔

کون ہے جو ملک اور قوم کو ترقی کرتا دیکھ کر خوش نہیں ہو گا ہماری بھی خواہش ہے کہ وطن عزیز ترقی کی دوڑ میں ہمیشہ گامزن رہے لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو رہابلکہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑ تی جارہی ہے نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ایک زرعی ملک کے عوام کے لئے آٹے جیسی بنیادی شے سے لیکر دیگر اجناس تک ہر چیز انتہائی مہنگی ہو چکی ہے ، ہر خاص وعام مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے غریب کے لئے ایک وقت کی روٹی کھانا مشکل ہے،کبھی آٹا مہنگا تو، کبھی ٹماٹر مہنگا تو کبھی دودھ پہنچ سے باہر، ایسے میں عوام میں بے چینی ،خوف و انتشار فطری امر ہے ، موجودہ دور یقینا ایک پریشان کن دور ہے مگر آپ کو اسی دور میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو کر کامیاب زندگی کی منزل تک پہنچنا ہے آپ معاشرتی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ انسان ہمیشہ سے اس قسم کے حالات سے کسی نہ کسی شکل میں دوچار رہاہے مگر انھوں نے ایسے حالات میں ہمیشہ فتح پا ئی موجودہ دور کی گرانی اور قلت اشیاء راستہ روکنے والے حالات ہی کی ایک شکل ہے ان سے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں بگڑتی صورتحال پر قابو پانا تو عوامی اختیار کی بات نہیں ، لیکن اپنے مسائل سے نجات کے حصول کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ،تاکہ ان پر قابو پایا جاسکے، اس کی ایک آسان سی مثال ہے ۔

ایک شخص دریا میں گر پڑا ، دریا کافی گہرا تھا ، اور وہ شخص تیرنا نہیں جانتا تھا ان دونوں باتوں کا خیال آتے ہی وہ شخص خوف زدہ ہوگیا ، چنانچہ اس نے بے ڈھنگے پن سے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیئے ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اور بھی جلد ڈوب گیا ۔۔۔۔۔!

اس صورتحال کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنے ذہن کو کام کرنے سے روک کر خود کو خوف کے حوالے کردیا تھا ، اگر وہ اپنے ذہن سے کام لیتا تو وہ اُسے سمجھاتا کہ اُسے پانی پر چت لیٹ کر ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دینے چاہیں اگر وہ اس خوف میں مبتلا نہیں ہوتا تو پانی اُس کے بے حرکت جسم کو بہا لے جاتا چنانچہ وہ ڈوب کر مر نے سے بچ جاتا ، مگر اس شخص نے خود کو خوف اور اضطراب (اعصابی کشیدگی) کے رحم پر چھوڑ دیا آج کل حالات جتنے دشوار نظر آرہے ہیں ان سے کہیں زیادہ دشوار حالات میں لوگ اپنے عزم اور درست منصوبہ بندی کے بل بوتے پر بڑی، بڑی کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ آپ موجودہ دور میں کامیابی کیوں نہیں حاصل کرسکتے، آپ حالات کو صرف اپنے تک محدود سمجھ کر ان سے خائف نہ ہوں بلکہ انہیں سب انسانوں کو در پیش حالات سمجھ کر ان سے مقابلہ کریں یقین ، امید اور عزم کے چراغ اپنے سینے میں ہمہ وقت روشن رکھیئے حصولِ ترقی کی ہر راہ پر چل کر دیکھیئے، ہر چیلنج کو قبول کریں ۔خود غرضی سے کا م نہ لیں صرف اپنے لوگوں کی ہی فکر نہیں کریں اپنے اردگرد بھی نظر ڈالیں دوسروں کی قابلِ رحم حالت پر بھی کم از کم سوچ بچار ضرور کریں اس طرح آپ کو پتہ چلے گا کہ اوروں پر کیا گزر رہی ہے اوروں کے حالات کے مشاہدے کی مدد سے اپنے حالات کی نوعیت کو سمجھنے کا موقعہ ملے گا چیزوں سے محروم ہونے کا خوف اپنیذہن سے نکال دیں خوف زدہ ہو جانے سے اس قسم کے حالات کو بدلنے میں کوئی مدد نہیں ملتی اس طرح کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اپنے اندرونی قوت سے کام لیں ۔

کوئی انسان ایسا نہیں جسے پریشانیوں اور الجھنوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، ہم اگر اپنی دماغ سے اور اپنی طاقت سے کام لیں تو اس خوف سے باہر آسکتے ہیں اس طرح ہم ہر موقعے پر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں زندگی میں سخت اور پیچیدہ حالات آتے رہتے ہیں اگر حوصلہ مندی سے انکا مقابلہ نہ کیا جائے تو یہ آپ کو پسپا کردیں گے اگر ہم حکمرانوں پر اورمخصوص چیزوں پر انحصار کرنا ختم کر دیں تو شاید ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجائیں ، بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابوپانا تو ہمارے اختیار میں نہیں ، لیکن اپنے مسائل سے نجات کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ، آٹا ہماری خوراک کا ایک لازمی حصہ ہے جب کہ اگر ہم چاہیں تو اس کے متبادل کے طور پر جو ، جوار، باجرہ یا اور مختلف چیزیں استعمال کر سکتے ہیں اس کے استعمال سے ہم مختلف بیماریوں سے بھی بچ سکتے ہیں ، اس طرح ہم آٹے کی قلت پر بھی قابو پا سکتے ہیں جب طلب میں کمی آ گئی تو رسد میں بھی کمی ہوجائے گی اپنے مسائل کے حل کے لئے خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنا ضروری ہے اس طرح انسان حالات کا نقشہ بدل سکتا ہے اس طرح منزل کی کامیابی کا راستہ آسان ہوجائے گا انگلستان میں ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں ایک کہاوت مشہور تھی ( جسکا اردو ترجمہ ہے ) ’’ اگر تمہیں مایوسی کی موت مرنا پڑے تب بھی امید کی زندگی بسر کرو ‘‘ انسان جب پُر امید رہتا ہے اس میں سختیاں برداشت کا جذبہ زندہ رہتا ہے ۔

farheen riaz
About the Author: farheen riaz Read More Articles by farheen riaz: 33 Articles with 47105 views rukht e safar (رختِ سفر )the name of under which numerous column and Articals has been written by Columnist Farheen riaz
starting 2012
.. View More