تھر پارکر کے لوگوں کی امداد
(Mahar Mubashar Riaz, Sahiwal)
زلزلہ؛سیلاب یا طوفان
آنجہانی آفات ہیں جن کے بارے رونما ہونے اس کے جدید دنیا میں بھی قبل از
وقت کچھ کہا نہیں جا سکتا/ لیکن اس کے برعکس قحط انسانیت کے لیے کوئی ایسی
آفت نہیں کہ جس کے بارے یہ جدید دنیا اور اس کا الیکٹرانک میڈیا خبردار نہ
کرسکتے۔ مگر پھر بھی دنیا کی پانچویں ایٹمی طاقت میں بہت قحط کا ہونا بڑا
المیہ ہے۔
خیر قحط آگیا؛ اب سوال پیدا ہوا کنٹرول کرنے کا۔ پاکستان کے٪80 لوگ اس کے
لیے خیرات کر رہے ہیں۔ بہت سے ارب پتی لوگ اور ترقی یافتہ ممالک بڑھ چڑھ کر
امداد کر رہے ہیں۔ حکومت وقت نے ایک بڑی رقم تھر پارکر کے متاثرین کے نام
کر دی۔ مگر پھر بھی ابھی تک واضح طور پر کوئی کنٹرول ہوتا نظر نہیں آرہا۔
کہاں گئی وہ امداد جو لاکھوں کروڑوں لوگ اپنےبھائیوں کے لیے خیرات کر رہے
ہیں۔ حکومت نے اپنی بڑی رقم کا اعلان کیا کہ جس رقم کواگرصحیح معنوں خرچ
کرلیا جائے تو کسی اور کی مدد کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
مگرکہاں سے لائیں وہ ضمیر وہ دل اور وہ اخلاقیات جو ہمیں سب اچھا کرنے پر
مجبور کر دیں۔ امداد کے نام پر آیے والی رقوم میتاثریں تک پہیچنے پہیچنے
اتنی چھوٹی رہ جاتی ہے۔ جتنی رقم ایک ریلوے ٹریک یا سڑک پر بیٹھے فقیر کو
ایک عام سا طالب علم اپنی جیب خرچ میں سے دیتا ہے۔
تو پھرکیسے! کیسےقابو پایا جائے گا۔ اس قحط پر ہم نے خود کو اخلاقیات سے
گرالیا ہےکہ ہم اپنی اپنی شناخت تک بھول چکے ہیں۔
کم ظرفی نے ہمارے اندر ہر طرف ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ تو پھر کیوں نہ ہم زلزلہ،
سیلاب اورقحط جیسی آفات نازل ہوں۔
اس لیے کہ ہم اس قابل ہیں۔ ہم وہ اصول قوانین اور برے اخلاقیات اپنانے پر
تلے ہوئے ہیں جو صدیوں پہلے مغربی ممالک کے زوال کا سبب نہیں۔۔۔۔۔۔
ہم کب تک اپنے بھائیوں کا حق کھاتے رہیں گے؛ کب تک!!!
ہم کب تک یوں ہی بے راہ روی کا شکار رہیں گے!!!
کب تک!!! |
|