نسل در نسل گناہوں کے اثرات
(Jaleel Ahmed, Hyderabad)
کل ملاقات کیلئے ایک عمر رسیدہ
خاتون اپنے دو جوان بچوں کو ساتھ لیکر آئیں‘ زارو قطار رو رہی تھیں‘ کچھ
دیر بعد ان کے آنسو تھمے اور آنسوؤں کے تھمنے تک میں مسلسل ان کو ٹشودیتا
رہا۔ موصوفہ بولیں کہ دراصل بات یہ ہے… میرا بیٹا اس وقت پچیس سال کا جوان
ہے اس نے آج تک تنکا بھی توڑ کر نہیں دیکھا‘ پتہ نہیں کیسے بری عادتوں میں
مبتلا ہوگیا ہے‘ شراب پیتا ہے‘ نشہ کرتا ہے‘ راتوں کو گھر سے باہر رہتا ہے‘
بات کریں تو غصہ‘ لڑائی جھگڑا کرتا ہے‘ ہروقت موبائل‘ نیٹ… میں اس کا حال
کیا بتاؤں۔گھر کے اس ماحول کی وجہ سے بیٹی کو طلاق ہوگئی ہے‘ اس کا ایک بچہ
ہے اور اس کا سارا دن رونا مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ آپ کے پاس آئے ہیں کیا
آپ کے پاس اس کا کوئی حل ہے…؟ میں نے سب سے پہلے سوال کیا: اس کا باپ کیسا
آدمی ہے؟ کہنے لگی یہ سوال آپ نہ ہی کرتے تو اچھا تھا‘ میں نےساری زندگی اس
کے باپ کی انہی حرکات کی وجہ سے روتے روتے گزاری پھر اس امید کے ساتھ جیتی
رہی کہ شاید اولاد میرا سہارا بن جائےگی۔ دو بیٹے ہیں‘ ایک اس سے بڑا ہے اس
کے بھی سارا دن یہی معاملات ہیں اور چھوٹے کےبھی یہی حالات ہیں۔ پھرمیں نے
اگلا سوال کیا اس کا دادا کیسا آدمی تھا؟کہنے لگیں: میں نے ان کو دیکھا
تونہیں لیکن سبھی کہتےہیں وہ بھی ایسے ہی تھے۔ میں نےا گلا سوال کیا… اس کا
پردادا کیسا آدمی تھا؟وہ خاتون کہنے لگیں ان کی مجھے خبر نہیں… تو فوراً
میری نظر ایک دوسرے خاندان کی طرف چلی گئی وہ نوجوان بھی اکیس سال کا ہے اس
کا باپ‘ اس کا دادا اور اس کاپردادا… ان چار نسلوں کو تو میں جانتا ہوں اس
کے بعد کی مجھے خبر نہیں۔ ان کی صورت حال بھی بالکل یہی ہے۔ نشہ‘ شراب‘
مستی‘ موجیں‘ راتیں اور آوارگی… پہلے دور میں ایسا ہوتا تھا بلکہ اب بھی
گائے لینے سے پہلے کہتے ہیں اس کی ماں دکھاؤ۔ اس کی عادات کیسی ہیں؟ وہ
دودھ کتنا دیتی ہے؟ اس نے کتنے بچے جنے ؟جو بہت عقلمند لوگ ہوتےہیں وہ کہتے
ہیں اس کی ماں کی ماں دکھاؤ۔ سوچیں تو سہی…!گائے کی ماں کی عادات گائے میں
منتقل ہوسکتی ہیں کیا انسانوں کی عادات انسانوںمیں منتقل نہیںہوتیں؟ ہاں!
ایک چیز اس مکافاتی عمل کو روک سکتی ہے وہ توبہ اور استغفار ہے اور ندامت
ہے اس کے علاوہ مجھے تو کہیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا… یہ عادات دراصل ایک
لعنت ہے جو نسل درنسل منتقل ہوتی ہے اور یہ لعنت ایک قسم کی پھٹکار ہے اور
اس پھٹکار کو صرف اللہ کی رضا ہی ختم کرسکتی ہے… ورنہ تجربات شاہد ہیں کہ
یہ نہ ختم ہونے والا ایک انوکھا سلسلہ ہے ۔
تحریر حکیم محمد طارق محمود چغتائی دامت برکاتہم |
|