ذہنی دباؤ اور اس کا علاج
(Dr. Ch Tanveer Sarwar, Lahore)
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ ہسنے مسکرانے سے
ذہنی دباؤ میں کمی ہوتی ہے بلکہ اس سے چٹھکارا بھی ممکن ہے۔ماہرین اسے جسم
اور روح دونوں کے لئے فائدہ مند قرار دیتے ہیں۔ذہنی اور نفسیاتی مسائل یا
کوئی بھی ناگوار بات جسم پر برے اثرات چھوڑتی ہے۔جرمنی کے ماہرین کا کہنا
ہے کہ اگر آپ بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو پھر شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر
خوب ہنسیں۔ذہنی سکون فوراً حاصل ہو گا۔ایک مقولہ ہے کہ ہنسی غم کا علاج ہے
اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہسنے سے خون بڑھ جاتا ہے۔یعنی کہ غم انسان کو چاٹ
جاتا ہے اور آخر کار انسان مٹی میں مٹی ہو جاتا ہے اس کے برعکس خوشی ،ہنسی
اور مسکرانا نہ صرف انسانی صحت کے لئے اچھا ہے بلکہ روح بھی تازہ رہتی ہے۔
قارئین! آج کے دور میں انسان اتنا مصروف ہے کہ اس کے پاس اپنے لئے وقت نہیں
ہے کہ وہ ورزش کر سکے۔کیونکہ ورزش ذہنی سکون پہنچاتی ہے اور ہمارے جسم کو
چاک وچوبند رکھتی ہے۔ذہنی دباؤ میں مبتلا لوگوں کو ورزش اپنا رروز کا معمول
بنانا چاہیئے۔ذہنی دباؤ کے افراد کے لئے پیدل چلنا،سائیکل چلانا اور تیراکی
موزوں ورزشیں ہیں۔آج کے دور میں ہر کوئی ذہنی دباؤ میں ہے کسی کو مہنگائی
،کسی کو روزگار،کسی کو کاروبار میں نقصان،کسی کو ملازمت کے دوران دباؤ،کسی
کو بچوں کے مستقبل کی فکر،کوئی رشتہ داروں سے پریشان سو انسان ہے تو یہ سب
مسائل بھی ہیں۔اور ان سے دوری ہر انسان حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن انسان کے
ارد گرد کے حالات ہی انسان کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتے ہیں اور کئی تواس
دباؤ میں ذہنی مریض بن جاتے ہیں اور پھر جب تک ان کی زندگی ہے وہ پاگلوں
جیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔رشتہ دار بھی ایسے مریضوں کو
گھروں میں رکھنے کی بجائے گھر سے نکال دیتے ہیں ان جیسے ہی ذہنی مریض اکثر
ہمیں سٹرکوں کی دھول اڑاتے نظر آتے ہیں اور جو خوش قسمت ہوتے ہیں انہیں گھر
والے ذہنی مراکز میں داخل کروا دیتے ہیں تاکہ ان کا بہتر علاج ہو سکے۔
قارئین! اس سے پہلے کہ آپ میں سے بھی کوئی ذہنی دباؤ کا شکار ہو اسے وقت سے
پہلے اپنے رویہ پر غور کرنا ہو گا اور اپنے آپ کو دباؤ سے نکالنا ہو
گا۔روپے پیسے کی دوڑ میں ہی ہم ہر وہ کام کر جاتے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا
چایئیے کیونکہ بعد میں پچھتاوا ہی ہمارا مقدر بن جاتا ہے۔ایسے دوست بنائیں
جو خوش و خرم رہتے ہوں اور زندگی میں کامیاب ہوں۔اپنے آپ کو کسی نہ کسی
مشغلے میں مصروف رکھیں۔کام کاج کے بعد تھوڑا بہت وقت گھومنے پھرنے کے لئے
ضرور نکالیں۔تا کہ تازہ ہوا کو لینے کا موقع مل سکے اور تھوڑی دیر کے لئے
ذہنی سکوں مل سکے۔تازہ ہوا سے ذہن پر خوشگوار اثرات ہوتے ہیں اور انھی
اثرات کی وجہ سے باقی ماندہ دن بھی اچھا گزرے گا۔
گھروں میں رہنے والی خواتین کی نسبت کام کرنے والی خواتین زیادہ دباؤ کا
شکار ہیں۔اور اسی دباؤ کی وجہ سے ان کے گھر پر بھی اس کے گہرے اثرات ہوتے
ہیں خاص طور پر اس کا اثر بچوں کی پرورش پر پڑتا ہے۔جس کے برے نتائج نکل
سکتے ہیں۔عورتیں دفاتر میں کام کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی پریشانی
کا شکار رہتی ہیں۔ماہرین کے مطابق عورتوں کی نسبت مر د وں کودفاتر میں کام
کرنے سے کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو صرف
کمانے سے غرض ہے وہ بڑے سکون سے اس کام کو کرتا ہے اگر اس کے بر عکس مرد کو
بھی گھر کی ذمہ داریاں ہوں تو اس کے لئے بھی مشکلات ہو سکتی ہیں۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ اسٹریلیا کی ایک ریسرچ کے مطابق 25%ایسی خواتین جو
دفاتر میں کام کرتی ہیں اور وہ چھوٹی عمر کے بچوں کی مائیں بھی ہیں وہ اپنی
اس کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔اور وہ عام عورتوں اور مردوں کی نسبت زیادہ
ذہنی دباؤ اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔اور اس کا اثر براہ راست ان کی گھریلو
زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ذہنی دباؤ کی وجہ سے وہ اپنے چھوٹے بچوں کو وقت نہیں
دے پاتیں جس سے ان کی پرورش پر برے اثرات ہوتے ہیں ۔ماہرین کا ایسی ماؤ ں
کو مشورہ ہے کہ یا تو وہ کچھ عرصے کے لئے نوکری نہ کریں اور اپنی پوری توجہ
بچوں پر دیں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھی دفاتر کے اوقات کار میں کمی کر
لیں تاکہ بچوں کی صحیح پرورش کر سکیں۔
اب ذرا دیکھتے ہیں ان خواتین و حضرات کو جو ہر وقت انٹر نیٹ پر رہتے ہیں
اور جن کو آن لائن رہنے کا نشہ سا ہو جاتا ہے۔ایسے لوگوں کو نہ کھانے کی
پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی گھر کے دوسرے افراد کی۔یہ تو بس اپنے ارد گرد کے
ماحول سے بے خبرانٹرنیٹ کی دنیا میں گم ہوتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ انٹر نیٹ
کا زیادہ استعمال کرنے والے بھی ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔چین کے ایک
سروے کے مطابق پندرہ سال کے لڑکے اور لڑکیاں جو نیٹ استعمال کرتی ہیں وہ
عام لڑکے لڑکیوں کی نسبت زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں۔ایسے مرد و
خواتین کو سماجی اور خاندانی رشتہ داری کے حوالے سے مشکلات کا سامنا رہتا
ہے۔انٹر نیٹ کے استعمال سے نہ صرف صحت خراب ہوتی ہے بلکہ دیگر نفسیاتی
عوارض ہونے کا خدشہ بہر حال رہتا ہے۔زیادہ دیر تک انٹر نیٹ استعمال کرنے
والوں کے مزاج میں چڑچڑاپن آ جاتا ہے۔اور ایسے نوجوان بالعموم بے چین رہتے
ہیں۔
میرے خیال میں ڈپریشن آج کے جدید دور کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔یہ کوئی
بیماری نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور مشکلات کا پیش
خیمہ ہے۔لیکن اگر ہم ان مسائل پر توجہ نہ دیں تو پھر خدانخواستہ یہ معمولی
ذہنی دباؤ کسی نفسیاتی بیماری میں بدل سکتا ہے۔اب ذرا ہم ایک بار ڈپریشن کو
کم کرنے کے لئے چند تجاویز پر غور کرتے ہیں۔جن سے یقیناً ذہنی دباؤ کم کرنے
یا ختم کرنے میں ہمیں ضرور مدد ملے گی۔
1۔رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا اپنا معمول بنا لیں۔
2۔نماز اور قران کی تلاوت باقاعدگی سے کریں۔
3۔صبح کی سیر ضرور کریں اس سے آپ کا سارا دن خوش و خرم گزرے گا۔اور ہلکی
چہل قدمی کے ساتھ ورزش کو اپنا معمول بنائیں۔
4۔گھر کے چھوٹے موٹے کام خود کرنے کی عادت بنائیں۔
5۔ تفریح ،کھیل کود کے لئے روزانہ ضرور وقت نکالیں۔اس سے ڈپریشن کم ہوتا
ہے۔کیونکہ فارغ اوقات میں ڈپریشن کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
6۔آپ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ڈپریشن کو کم کر سکتے ہیں
۔جیسے ڈرائینگ ،پینٹنگ اور تحریر لکھنا شامل ہیں۔ان سرگرمیوں کے کرنے سے آپ
کو ذہنی سکون ملنا شروع ہو گا جو آہستہ آہستہ کم ہوتا چلا جائے گا۔ایسی
مصروفیات سے دوسرے نفسیاتی بیماریوں اور مسائل سے بھی چھٹکارا مل جاتا ہے۔
7۔اکیلے مت رہیں بلکہ خاندان کے ساتھ رہیں کیونکہ ایک تحقیق کے مطابق ایسے
لوگوں میں ڈپریشن زیادہ پایا جاتا ہے جو اکیلے رہتے ہیں۔
8۔اگر آپ کو معلوم ہے کہ ڈپریشن کی وجہ کیا ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش
کی جائے۔اور اگر ہو سکے تو کسی کے ساتھ شیئر کریں۔اس سے دباؤ میں کمی ہوتی
ہے۔
9۔ڈپریشن کے شکار لوگوں کا علاج بات چیت یا پھر ادویات سے کیا جاتا ہے ۔یہ
ڈپریشن کی نوعیت پر ہے۔
10۔کھانے کے اوقات مقرر کریں اور متوازن کھانا کھائیں۔
11۔ذہنی دباؤ کی صورت میں ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیئے۔لیکن اگر شدید
دباؤ ہے تو پھر ڈاکٹر کو دکھانا ضروری ہے۔تاکہ مرض کو ادویات کی مدد سے کم
کیا جا سکے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.