اسلام کی مذہبی زبان عربی

یہ ایک سامی الاصل زبان ہے، عرب لیگ میں شامل قریباً 24-23ممالک کے عوام اور دنیا بھر کے کروڑوں انسان بالخصوص اہل اسلام اسے بولتے اور سمجھتے ہیں، اقوامِ متحدہ نے اس کی اسی اہمیت کے خاطر 18دسمبرکو عربک لینگویج ڈے قرار دیا ہے، خدا کی آخری کتاب قرآن اسی زبان میں ہے،بلکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ تمام انبیاء ؑکے پاس وحی عربی زبان میں آتی تھی، بعد میں حضرات انبیاء ؑاپنی اپنی اقوام کی زبانوں میں ترجمہ کرکے پیش کرتے تھے، جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان ، آپ ﷺکی سنتوں کے ذخائر،سیرت طیبہ،اسلامی وعربی علوم وفنون اوراہل جنت کی زبان بھی عربی ہے،مراکزِاسلام حرمین شریفین اورقبلۂ اول (مسجدِ اقصیٰ) کے باشندگان بھی عرب ہیں،پاکستانیوں کی اہل عرب سے بہت واضح دو نسبتیں ہیں،مسلمان ہونا اور جغرافیائی لحاظ سے بحرِ عرب پر واقع ہونا، اسی لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں کہیں شامل ہے کہ ملک کی مذہبی زبان عربی ہوگی، دفتری انگریزی اور بولی کی اردو، بہرکیف یہ مسلمانوں کی مقدس زبان ہے۔

حضرت مولانا محمدیوسف بنوری نوراﷲ مرقدہ اس حوالے سے بڑے آب و تاب کے ساتھ رقمطرازہیں:
’’عربی زبا ن کی دینی اہمیت تو ظاہر ہے کہ اسلام کا بنیادی پیغام (قرآن حکیم)تمام عالم کے لئے حق تعالی کا آخری پیغام ہے، وہ عربی زبان میں ہے ،دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں توحید و نبوت کے بعد (نماز)جوعِماد دین ہے، اس کے تمام ارکان قراء تِ قرآن ،اذکار و ادعیہ یعنی پوری نماز اول سے آخر تک عربی زبان میں ہے ،عیدین و جمعہ کے خطبے عربی زبان میں ہیں حضرت رسالت پناہ فداہ ابی و امی صلی اﷲ علیہ و سلم کی تمام تعلیمات و ارشادات کا عظیم الشان ذخیرہ ،یعنی احادیث عربی میں ہیں ،حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی نسباً وطناًعربی قریشی ہاشمی مکی مدنی حجازی ہے ، بعض روایات میں عربوں سے محبت کرنے کے لئے یہ ارشاد فرمایا گیا ہے :(میں بھی عربی اللسان ہوں ،قرآن بھی عربی زبان میں ہے اور اہل جنت کی زبان بھی عربی ہے )، حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ و سلم نے جو اذکار اور دعائیں تلقین فرمائی ہیں، جو بجائے خود عجیب وغریب دعائیں ہیں، جن میں دین و دنیا کی کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے، جس کے متعلق دعا ارشاد نہ فرمائی گئی ہو ،بلکہ دعاؤں کی جامعیت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ، کوئی بڑے سے بڑاعاقل انسان بھی اس جامعیت کا تصور تک نہیں کر سکتا ، جس سے ان کا الہامی ہونا ظاہر ہے اور نبوت کے اعجاز کی مستقل دلیل ہے ،یہ سب کچھ عربی زبان میں ہے،بزرگان دین صحابہ کرام و تابعین عظام سے لے کر جنید و شبلی تک پھر شیخ عبدالقادر جیلانی اور صاحب حزب البحر و صاحب دلائل الخیرات وغیرہ بقیہ بزرگان دین کی دعائیں اذکار اور درود شریف سب عربی زبان میں ہیں ،اﷲ تعالی کے پیارے ننانوے مبارک نام بھی عربی زبان میں ہیں ، رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے مبارک نام بھی عربی میں ہیں ، غرض کیا کیا چیزیں گنوائی جائیں ، خلاصہ یہ کہ پورا دین اور دین کے ہر ایک جزء کا عربی زبان سے تعلق ہے‘‘۔ (بصائر وعبرج/۱،ص:۲۹۱)۔

آ ج کل ہمارے یہاں یکساں نصابِ تعلیم کی باتیں بہت ہورہی ہیں،قادری اورکپتان نے دھرنوں میں اس مسئلے کو اپنی تقریروں میں زیادہ اچھالا ہے،اس کی ضرورت بھی ہے،نصاب تعلیم،نظام تدریس اور امتحانی طریقوں میں اصلاحات بڑا اہم معاملہ ہے،قومیں اچھی تعلیم سے بنتی ہیں،اور ناقص تعلیم سے بگڑتی بھی ہیں، ہمارے یہاں مرعوب ذہنیت کی وجہ سے دانشگاہوں میں عربی زبان وادب کو نظر انداز کیا گیا،جس کا خمیازہ پوری قوم ناقص اسلامی معلومات کی صورت میں بھگت رہی ہے،نام کے علّامے شلّامے تو بہت ہیں،جدید قد کاٹھ کے از خود خواندہ مجددین و مجتہدین بھی ٹی وی سکرینوں کی زینت بننے کے لئے بے شمار ہیں،لیکن عربیت میں کمزوری کی وجہ سے انہیں جا بجا اور وقتاًفوقتاً شرمندگی سے دو چارہونا پڑتاہے،یہاں تذکرہ کرنے سے حیا مانع ہے،ورنہ ایسے بہت سے درازگوشوں کوجانتاہوں جنہوں نے گھوڑوں کی کھالیں اوڑھ رکھی ہیں، مسجد کمیٹیاں بھی ایسے ارزاں ملّاؤں کو تلاش کرتی ہیں،جو علم میں قابل رشک نہ قرائت میں،پھر کہتے ہیں فرقہ واریت ہے،جب وہ قرآن وحدیث کے بحرمیں غوطہ زن نہیں ہوسکیں گے اور اردو زبان میں کنارے پر کھڑے فرقوں ہی کی فکر ونظر سے استفادہ کرتے رہیں گے،تو فرقہ واریت نہیں ہوگی اور کیا ہوگی؟

پاکستان میں متعدد حوالوں سے عربی زبان وادب پر کام کی ضرورت ہے،تُجار،حکمراں، صحافی برادری،سفراء،وزراء،ماہرینِ تعلیم و اقتصاد،دانشوراور سب سے پہلے علمائے دین، یہ سب بساط بھر کوششیں کرکے اس قرآنی زبان کودینی وعصری اداروں میں بلکہ ہر فورم پر اس کا جائز مقام ومرتبہ دلانے میں اپنا اپناکردار ادا کریں،کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت شفیع الامم ﷺ کی شفاعت ہی سے روزِ محشر ہم محروم جائیں،جب وہ بارگاہِ ایزدی میں عرض کریں گے:﴿یا ربِّ ،انَّ قَومِی اتَّخَذُوا ھٰذٰا القُرآنَ مَہجُوراً﴾یعنی اے میرے پروردگار،بے شک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھاتھا۔(سورۂ فرقان، آیت:30)۔
’’أللّٰہم ہل بلَّغتُ،أللّٰہم فَاشہَد‘‘
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816170 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More