صادق اور امین کون؟

ان دنوں وطن عزیزپاکستان کے معروضی حالات انتہائی تشویشناک ہیں۔بلکہ ہماری تو شومیء قسمت کہ جب سے آنکھ کھولی ہے مارشل لاء اور جمہوریت کی آنکھ مچولی میں اسی طرح کی صورت حال دیکھنے کو ملی۔ آجکل ایک طرف اپریشن ضرب عضب جاری ہے۔سات لاکھ سے زیادہ آئی ڈی پیز پوری قوم کی مدد کے منتظر ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس گردی کے نتیجے میں بیگناہ شہریوں کے المناک اور بہیمانہ قتل و غارت پر پوری قوم ابھی تک حالت سوگ میں ہے۔ ہر روز پاک سرزمیں کے کونے کونے پر بیگناہوں کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔رمضان شریف کے بابرکت مہینے میں بھی شدید گرمی کے موسم میں بجلی و پانی جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی عدم فراہمی نے عوام کاناک میں دم کیا ہوا ہے۔ ضرورت تواس امر کی ہے اورتھی کہ ان تمام مسائل پر قابو پانے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ وقتی طور پر ہی سہی مگرصبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت کی نزاکت کو پہچانیں۔ ایک دو سرے کی کردار کشی سے پرہیز کریں۔انقلاب یا سونامی کو اگر ہر حال میں آنا ہی ہے توپھر بھی صبر کا گھونٹ پی کر فی الوقت موخر کردیں۔ لیکن ہمیں تو ایک سیاسی بھونچال سا آتا نظر آرہا ہے۔ سر عام کردار کشی کی مہم میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ جاری ہے۔ماضی کے دریچوں سے عیوب اور اخلاقی وعملی کمزوریوں کو تلاش کرکر کے ایک دوسرے کوسیاسی نا اہلیت کے سر ٹیفیکیٹ دلوانے کی بھرپور مہم زوروں پر ہے۔ کردار کشی کے حوالے سے ایک اہم نکتہ جو زیر بحث ہے وہ ہے ”صادق اور امین“ کی اصطلاح۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں منتخب نمائندوں کیلئے آرٹیکل 62 میں یہ الفاظ درج ہیں۔
62. Qualifications for membership of Majlis-e-Shoora (Parliament) (d) he is of good character and is not commonly known as one who violates Islamic Injunctions;(e) he has adequate knowledge of Islamic teachings and practises obligatory duties prescribed by Islam as well as abstains from major sins ;(f) he is sagacious, righteous and non-profligate, honest and ameen, there being no declaration to the contrary by a court of law;(g) he has not, after the establishment of Pakistan, worked against the integrity of the country or opposed the ideology of Pakistan.
”کوئی شخص مجلس شوری (پارلیمنٹ)کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو سکتا جب تک کہ (د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکامات اسلامی کے انحراف میں مشہور ہو (ذ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز گناہ کبیرہ سے مجتنب نہ ہو۔ (ر) وہ سمجھدار اور پارسا نہ ہواور فاسق ہو اور امین اور دیانتدار نہ ہو۔ (ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو۔ (س) اس نے قیام پاکستان کے بعدملک کی سا لمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ (یہ ترجمہ حکومت پاکستان کی طرف سے آئین پاکستان کے اردو میں شائع شدہ ایڈیشن سے لیا گیا ہے)“

ہر علم و فن کی طرح اسلام میں بھی الفاظ کا استعمال دو معانی میں ہوتا ہے۔ ایک لغوی اور ایک اصطلاحی۔ مثلا نبی، رسول، صحابی، شہید، قرآن، قیامت وغیرہ الفاظ ایک مخصوص معنی و مفہوم رکھتے ہیں۔ اسی طرح اسلامی تاریخ میں جب ”صادق اور امین“ کا لفظ بولاجاتا ہے تو یہ بھی ایک مخصوص معنی پر دلالت کرتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم سے یہ سوال کیا جائے کہ‘”صادق اور امین“ کا کیا مطلب ہے؟ تو فورا وہ بتائے گا کہ نبی کریمﷺ جب مکہ و مکرمہ میں زندگی کے شب و روز گزار رہے تھے تو ارد گرد کی ساری آبادی اعلان نبوت سے پہلے اوربعد بھی آپ کی ذات اقدس میں کوئی عیب تلاش نہ کر سکی۔قبل از اعلان نبوت جب حجر اسود کی تنصیب کا جھگڑا آپ نے رفع دفع کروایا تو اس وقت بھی اہل مکہ نے یک زبان ہو کر آپکے ”صادق اور امین“ ہونے کی گواہی دی اور آپ کے ہی دست مبارک سے حجر اسود کی تنصیب پر اظہار اطمینان کیا۔ اعلان نبوت کے بعد اہل مکہ نے مخالفت کی، رستے میں کانٹے بچھائے اوراذیتیں دیں لیکن اس سب کے باوجود آقائے نامدارﷺ کی ذات قدس میں کوئی عیب تلاش نہ کر سکے اور نہ ہی آپ کے کردار پر انگلی اٹھا سکے بلکہ اپنے تو تھے ہی اپنے دشمن بھی سر عام آ پکے”صادق اور امین“ ہونے کا قولا و عملا اعتراف کرتے رہے۔ ہجرت مدینہ کے وقت حضرت علیؓ کو بستر مبارک پہ لٹانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگوں کی امانتیں ان کے سپرد کر دیں۔

یہ ہے اسلامی تاریخ میں ”صادق اور امین“ کی اصطلاح کا ایک عمومی خاکہ۔ علاوہ ازیں اسلام اپنے پیرو کاروں کو سیرت نبویﷺ کو اپنانے کی تلقین ضرور کرتا ہے لیکن کچھ چیزیں خاصہ مصطفیﷺ ہیں جن میں امت کا شریک ہونا مشروع نہیں ہے۔ مثلا آپ کا سونے کی حالت میں بھی وضوء نہ ٹوٹنا، امہات المؤمنین کا بعد از وصال نبویﷺ نکاح ثانی نہ کرنا، بحیثیت نبی گناہوں سے پاک صاف اور معصوم ہو نا وغیرہ۔ امت کو اخلاقی اور روحانی حوالے سے پاکیزگی کی تعلیم دی گئی۔ ہر طرح کی برائیوں سے بچنے کی تلقین کی گئی۔ اگرگناہ کا ارتکاب ہو جائے تو اللہ تعالی سے معافی مانگنے اور توبہ کرنے کی تعلیم دی گئی۔ اگر ایک دفعہ توبہ کرکے کوئی سیدھے رستے پر آجائے تو اس کے سابقہ گناہ کو یاد دلا کر طعن و تشنیع سے بھی منع کیا گیا۔ موجودہ حالات میں ”صادق اور امین“ کی اصطلاح کو اگر اس طرح استعمال کیا جا رہا ہے جس طرح کہ سیرت نبوی میں اس کا تذکرہ بار بار ملتا ہے تو پھر قیامت تک ڈھونڈتے پھرو تمہیں ایسا فرشتہ صفت کوئی ”صادق اور امین“ اس دھرتی پر نہ ملے گا جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، کبھی غلطی یا بد دیانتی نہ کی ہو۔کیوں کہ نبی کریم ﷺ تو فرشتوں سے بھی برتر معصوم عن الخطا ہیں۔ ہم فرشتوں نہیں انسانوں کے معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ عام مسلمانوں کیلئے زندگی کے کسی مرحملے میں غلطی یا گناہ کا ہوجانا فطری بات ہے۔ اگر وہ گناہ سے تائب ہوجائے اور نیکی کا رستہ استقامت کے ساتھ اختیار کر لے تو اس کی عیب جوئی، طعن و تشنیع اور ملامت کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ بلکہ فرمایا گیا کہ دنیا میں جو لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کریگا، کل بروز قیامت اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ حضورﷺ نے خالد بن ولیدؓ (جو غزوہ احد میں کفار کے کمانڈر انچیف تھے)، ابوسفیان ؓ (عظیم دشمن اسلام رہے)، ہندہ ؓ (جس نے غزوہ احد میں حضرت امیر حمزہؓ کا جگر چبایا تھا) جیسے لوگوں کو بھی معاف کردیا اور اسلام میں ایک نمایاں مقام دیا۔ لیکن ہمارے ہاں اِن تمام فطری اور خوبصورت اسلامی روایات کی خلاف ورزی کر کے اسلام کے چیمپین بننے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ خاندان مغلیہ کے آخری بادشاہ، بہادر شاہ ظفر کے الفاظ میں اصل صور ت حا ل یوں ہے کہ
نہ تھی حال کے جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر ، تو جہان کوئی برا نہ رہا
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240909 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More