’’ تعلیم یافتہ عورت کی وجہ سے
ایک خاندان تعلیم یافتہ ہوجاتا ہے‘‘
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں اُسی علم کو
اربابِ نظر موت
تعلیم ایک ایسا زیور ہے جو جس کسی کو ملتا ہے وہ دولتمند ہوجاتا ہے اور
دولت بھی ایسی جس کو خرچ کرنے سے اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے ،ا ٓج کے دور
میں تعلیم مرد اور عورت دونوں کے لئے ضروری ہے کیونکہ تعلیم سے انسان میں
شعور، سمجھ اور اچھے برُے کی تمیز پیدا ہوتی ہے ، جہالت ایک ایسی بُرائی ہے
جو گھروں کو تباہ اور برباد کر دیتی ہے کیونکہ گھر کا نظام عورت کے ہاتھ
میں ہوتا ہے ایک پڑھی لکھی عورت تو ایک کنبے کو سنبھال سکتی ہے مگر ایک
جاہل عورت یہ کام نہیں کر سکتی ،خاندان ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے
،خاندان کا نظام یا مشینری چلانے کے سلسلے میں ماں کا کردار بنیادی اہمیت
رکھتا ہے، ماں کی گود بچہ کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے بچہ جب شکم مادر میں
ہوتا ہے تو اس دوران خون کے ذریعے والدین کی ذہنی صلاحیتیں اور بہت سی
عادات بچہ میں منتقل ہو جاتی ہیں بچے کو اپنے ماں باپ سے وراثت میں بھی اُن
کی بہت سی خصوصیات ملتی ہیں، اسی گود سے بچہ ابتدائی تعلیم حاصل کرتا ہے،
ایک پڑھی لکھی ماں اپنے گھر میں جتنی بلند سطح پر مثبت ماحول پیدا کرے گی۔
بچے اس ماحول کے اثرات کو اسی قدر شدت اور موثر طریقے سے قبول کریں گے اور
ان میں ذہنی اور فکری صلاحیتیں پیدا ہوگی۔یہ ہی حقیقت ہے کہ بچہ اپنے گھر
کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ وہ گھر میں ماں باپ اور بہن بھائیوں کی
سرگرمیوں اور مصروفیات کو دیکھتا اور ان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ انہیں جو کچھ
کرتے ہوئے دیکھتا ہے خود بھی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بچہ جس ماحول اور حالات
میں پرورش پائے گا اسی ماحول اور حالات کے اثرات اس کے دل و دماغ اور ذہن
پر مرتب ہوتے ہیں اور یہ سار ی باتیں بچے کے کورے ذہن پرنقش ہوتی ہیں ۔اس
کے مطابق اُس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے گھر کے مثبت ماحول کے اثراتنیز
تعلیم کا حصول بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشتے ہیں اور اُس کی صلاحیتیں
نکھر کر سامنے آتی ہیں․
کہا جاتا ہے کہ ایک مرد کی تعلیم سے ایک مرد اور ایک عورت کی تعلیم سے پورا
خاندان تعلیم یافتہ ہوجاتا ہے،اسلام نے ہر مرد و عورت پر تعلیم کا حصول فرض
قرار دیا ہے ،اس فرض کی ادائیگی مرد و عورت دونوں پر عائد کی ہے اور اس پر
واضح طور پر وضاحت کردی گئی ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں مرد
وعورت پر کوئی نرمی یا رعایت نہیں برتی جاسکتی اسلام نے مرد و عورت
کوامتیازیحقوق دئیے ہیں تعلیم دونوں پر فرض ہے اسلام عورت کی تعلیم کے خلاف
بالکل نہیں ہے اسلام مرد و عورت کے حقوق میں کوئی فرق نہیں کرتا اتنی عزت و
حقوق کسی بھی مذہب میں عورت کو نہیں دئیے گئے جتنا اسلام میں دئیے گئے ہیں
بچوں کو اور خاص طور پر لڑکیوں کو دینی تعلیم دو کیونکہ عورت اگر دین دار
ہو گی تو دین نسلوں تک پھیلے گا مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے
کہ آج علم و دولتکے جس کیحصول کی تاکید ہمارے اﷲ اور اسکے رسول اکرم صلی اﷲ
و علیہ وسلم نے کی آج ہمارا وطن تنزلی کا شکار ہے ہم یہ بھول چکے ہیں کہ
علم ہی ہے جو جہالتکی ضد ہے جو ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے
علم ہمارے نفس کو پاکیزگی عطا کرتا ہے فہم و فراست دیتا ہے اور ہماری
تنہائی کا ساتھی ہے علم ہمیں ادراک و آگہی دیتا ہے اخلاق سنوارتا ہے اور سب
سے بڑھ کر یہ کہ علم حاصل کرنا مومنین کی صفا ت میں سے ہیں ، اگر ہم اپنے
ملک کو دیکھیں تو یہاں ایک حد تک تعلیم عام ہوگئی ہے ، ہر چھوٹے ،بڑے علاقے
میں چھوٹے ،بڑے پرائیوٹ اسکول بنتے چلے جارہے ہیں، اور گورنمنٹ اسکولز بھی
پہلے کی طرح اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے
میں عورت کی تعلیم پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی اور ان کی تعلیم صرف اتنی
ہوتی ہے کہ وہ صرف پڑھ لکھ سکیں یا بہت ہوا تو میٹرک کروادیا، بس اس سے
زیادہ اس کو تعلیم نہیں دلائی جاتی اس کے بعد لڑکیوں کی بڑی تعداد گھروں
میں شادی کے انتظار میں بیٹھا دی جاتی ہیں اور جو باقی لڑکیاں کالج جاتی
ہیں ان کے والدین یا تو معاشرے کے ساتھ چلتے ہیں یا وہ لڑکیاں ہیں جنھیں
پڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے یا پھر وہ لوگ جو زرا ، اپر کلاس کے ہوتے ہیں
․ہمارے کم تعلیم یافتہ طبقہ میں صرف لڑکوں کو تعلیم دلائی جاتی ہے تا کہ وہ
اچھی نوکری کر سکیں ، لڑکیاں جب آکے پڑھنے کو کہتی ہیں تو ان کو ڈانٹ دیا
جا تا ہے ، وہ اپنی بیٹیوں سے کہتے ہیں کہ ان سے ہمیں نوکری نہیں کروانی ،
اور زیادہ پڑھائی کر نے سے لڑکیاں بگڑ جاتی ہیں ،’’رسول اکرم صلی اﷲ و علیہ
وسلم کا فر مان ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے
‘‘ چین․ ․ ․ ․ ․! لڑکیوں کا اپنیشہر اپنے علاقے میں پڑھنا مشکل ہے تو وہ
بھلا دور کہاں بھیجیں گے، دنیا کے ایک عظیم استاد سقراط کے بقو ل علم نیکی
ہے اور جہالت برائیوں کی جڑ ہے علم انسان کو اچھے بُرے میں فرق کرنا سکھاتا
ہے مگر کوئی اس بات کو سمسمجھتا نہیں ہے ، لڑکیاں یا خواتین اپنے آغوش میں
پلنے والے بچہ کو ایک صحت مند ماحول اور اچھا مستقبل دے سکتی ہیں وہ اپنے
اثرات بچوں میں منتقل کرسکتی ہے اور بچے آگے چل کر ملک و قوم کی تعمیر و
ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے -
موجودہ تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار شخص واحد نہیں بلکہ اجتمائی اور انفرادی
طور پر کہیں نہ کہیں ہم سب ہیں اور قابلِ ذکر ذمہ دار حکومت اساتذہ ہیں
ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ علم کی قدر و قیمت ہی نہیں جانتے حکومت کو ہوس ہے
تو زر و زمین کی جس کے بل بوتے پر وہ کاغذی قابلیت تو خرید سکتے ہیں مگر
فہم و ادراک نہیں اس لئے ان کا یہ حال ہے کہ دنیاوی علم تو دور کی بات وہ
دینی علم سے بھیبے بہراہیں آج ہمارے ملک میں بہت سے مسائل سر اٹھا ئے ہوئے
کھڑے ہیں جس میں سے ایک مسئلہ لڑکیوں کی تعلیم کا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں
کہ پچھلے کئی سالوں کے مقابلے ،میں کچھ سالوں سے لڑکیوں کی تعلیم کی شرح
بہت حد تک بڑھی ہے ایک ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کو وہ ماحول
فراہم نہیں کرسکتی جس کے وہ حق دار ہیں نہ ہی وہ تعلیم کے حصول کے لئے کوئی
کردار ادا کرتے ہیں، نتیجے کے طور پر اس قوم کے معمار آٓگے چل کر اپنی قوم
کے لئے کوئی موثر اقدام نہیں کرسکتے اور نہ ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی
کے لئے کوئی حصہ ڈال سکتے ہیں ۔ ایک پڑھی لکھی عورت صرف تعلیم و تربیت کے
ضمن میں ہی اپنا کردار ادا نہیں کرتی بلکہ جو ماحول گھر میں ہوتا ہے اُسی
کے نتیجے میں بچوں کی فکر ی و نفسیاتی رحجان کی آبیاری ہوتی رہتی ہے بچوں
کو اچھا اور تعمیری ماحول میسر آنے کے باعث ان میں شعور پیدا ہوتا ہے اپنے
نظریہ حیات کی اہمیت کو سمجھنے اور اُس کی حفاظت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی
ہے پڑھے لکھے اور باشعور بچے مستقبل میں اپنے ملک کی نظریاتی سرحدوں کا
بخوبی دفاع کرسکتے ہیں، ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے بچے کی اخلاقی تربیت بھی
کرتی ہے وہ اُسے معاشرے کا کار آمد فرد بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے
تعلیم عورت کو آزاد خیال نہیں بناتیں بلکہ انہیں سمجھدار بناتی ہیں اور
انہیں اتنی عقل دیتی ہیں کہ وہ اپنے بارے میں خود بہتر فیصلہ کر سکیں-
ہمارے معاشرے میں ماں ایک ایسی ہستی ہے جو بیٹیوں کے زیادہ قریب ہے اُس کی
اچھی تربیت کرتی ہے اُسے اُٹھنے بیٹھنے کی تمیز سکھاتی ہے اُسے تمام چیزیں
مثلاًسلائی کڑھائی ، کھانا پکانا ، اور گھر بنانے کے سارے گُر سکھاتی ہے
لیکن اچھی تعلیم نہیں دلواتی ، جبکہ شادی کے لئے تعلیم ضروری ہے کیونکہ اگر
لڑکی کے پاس تعلیم کا زیور ہوگا تو چاہے اس کے ہاتھ میں کوئی ہنر نہ ہو
لیکن وہ اپنے گھر کو کمزور نہیں ہونے دے کی ، کیونکہ اس کے پاس سمجھ ہوگی
اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ برے حالات میں بھی گزارہ کرلے گی اور تعلیم سے وہ
خود بھی محفوظ رہے گی او اپنے گھر کو بھی محفوظ رکھے گی مختصر یہ کہ جس طرح
جینے کے لئے کھانا پینا ضروری ہے اسی طرح تعلیم بھی ضروری ہے عورت کو اپنی
پہچان اور شناخت کے لئے تعلیم ضروری ہے -
ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ تعلیم کسی ملک کی آبادی کے لئے سب سے قیمتی
اثاثہ ہوتی ہے اور ترقی کی ضمانت بھی ، ہر تروی یافتہ ملک کا راز ملک کی
تعلیم یافتہ آبادی ہے خاص طور پر بنیادی تعلیم کو ترقی کی کنجی سمجھا جاتا
ہے ، بد قسمتی سے پاکستان میں بنیادی تعلیم کی صورتحال زیادہ خوش آئند نہیں
ہے جس کی وجہ سے آبادی کا بڑا حصہ نا خواندہ ہے حالانکہ پچھلے کچھ سالوں سے
کافی بہتری آئی ہے مگر پھر بھی تعلیم کے لئے عملی طور پر مخلصانہ کوششیں
نہیں کی گئیں کئی اسکولوں کا وجود صرف کاغذی ہے ،اس وقت ہمارے ملک کی
خواندگی کی شرح 2007کے مطابق اسلام آباد میں سب سے زیادہ 87% ،اس کے بعد
راولپنڈی میں80% ،اس کے بعد جہلم میں79%،پھر کراچی میں77%، اس کے بعد
لاہور74% اس ہی طرح ملک میں خواتین کی بڑی تعداد غیر تعلیم یافتہ ہیں جو
ایک تشویش ناک بات ہے آج ہماری سسکتی بلکتی زندگی کے ذمہ دار یہ علم سے
نابینا حکمران ہیں پچھلے 67 سال سے بد قسمتی سے ہمیں کوئی ایک حکمران بھی
ایسا نہیں ملا جو تعلیم پر توجہ دیتا خواتین کے لئے تعلیم ضروری قرار دیتا
، ان ہی حکمرانوں کی وجہ سے ہم تعلیم کے میدان میں باقی ممالک سے بہت پیچھے
ہیں۔ جب ہم اپنی قوم کا موازنہ دوسری قوموں سے کرتے ہیں تو خود کو کافی
نچلی سطح پر پاتے ہیں اس کے ذمہ دار بہت سے اساتزہ بھی ہیں جو اپنی ذمہ
داریوں سے غافل ہیں اساتذہ جنھیں روحانی والدین کہا جا تا ہے ، ااستاد کا
کام طلباء کے اندر علم کی شمع روشن کرنا ہے ان میں ذہنی صلاحیت اور قابلیت
بڑھانا ہے اسے استاد نہ ہونے کے برابر ہیں، اور طلباء طالبات ان کا تو تمام
نظام ہی بگڑ گیا ہے ان کے اندر سے استاد کا احترام ہی ختم ہوتا جارہا ہے
رسول اکرم صلی اﷲ و علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’ علم حاصل کرو علم کے لئے وقار
و متانت پیدا کرو اور جس سے علم حاصل کرو اُس کے سامنے عاجزی وتواضع اختیار
کرو‘‘ اور ہمارے طلباء و طالبات کو یہ سب گورا نہیں ہے -
معیاری علم سے قومیں عروج حاصل کرتی ہیں اور تعلیم حاصل نہ کرنے سے انسان
ذہنی طور پر غلامی کی زندگی گزارتا ہے اور لاعلمی سے ماضی ہی نہیں کھو جاتا
بلکہ مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے آج بلکہ اسی لمحے کو لمحہ فکریہ بنائیں
کیونکہ تعلیم ہی وہ روح ہے جس کا عکس قوموں کی زندگی پر ظاہر ہوتا ہے اگر
خواندگی کی شرح میں اضافے کے نتیجہ خیز اقدامات کیے جائیں تو وطنِ عزیز میں
خواتین کی شرح کا گراف بلند ہوگا اور ہر آنے والے بچے کو ایک پڑھی لکھی ماں
کی آغوش میسر آسکے گی ،ہمیں اپنی خواتین کو صرف لکھنا پڑھنا ہی نہیں بلکہ
اانھیں اچھی اور اعلیٰ تعلیم دینی چاہئے تاکہ ہمارا مستقبل روشن ہوجائے
ہمارے بچے ایک اچھے انسان بنیں، ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم
تعلیم کو پھیلائیں اپنے وسائل کو بڑ ھائیں ابھی ہمیں اور آگے جانا ہے لڑ
کیوں کو تعلیم یافتہ بننا نا ہے تاکہ ہم آنے والی نسل کو سنوار سکیں اس قوت
ملک و قوم کی توقی اور استحکام کا اول تقاضا یہ ہے کہ خواندگی کی شرح میں
اور اضافے کیلئے ہر سطح پر معقول اور مناسب انتظامات لئے جائیں تاکہ خواتین
میں خواندگی کی شرح کا گراف بلند ہو سکے ۔ تعلیمی اور تعمیری ماحول پیدا
ہوگا اور ایک صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا اور ملک کو ہر سطح پر
مستحکم اور موثر افرادی قوت حاصلہو سکیگ تاکہ ہمارا سمار بھی ترقی یافتہ
قوموں کی صف میں ہو سکے- |