لفظ اظہار ظاہر سے ہے جس کے معنی
نظر آنا، سامنے آنا، دکھائی دینا، واضح ہونا وغیرہ کے ہیں اور ذات کے معنی
اپنا آپ، خود یعنی ہستی بذات خود اپنی ذات کا، اپنی ہستی کا، اپنے مقام کا
اظہار یا انکشاف، خود کو منوانا اظہار ذات کہلاتا ہے دوسروں پر خود کو ظاہر
کرنا یا اپنی ذات کا، اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا اظہار ذات ہے ہر انسان
میں اظہار ذات کی خواہش فطری طور پر کسی میں کم اور کسی میں زیادہ موجود
ہوتی ہے اظہار ذات کی خواہش انسان میں رب کی طرف سے ودیعت کردہ وہ صفت یا
جذبہ ہے جو بذات خود ذات باری تعالیٰ کی اپنی صفت بھی ہے بلکہ اظہار ذات کی
خواہش ہی وہ جذبہ اور محرک ہے جو انسان اور کائنات کے وجود میں آنے کے
پیچھے کارفرما ہے
اس پوری کائنات میں رب تعالیٰ کی ذات واحد ازل سے پہلے جب اس دنیا میں کچھ
بھی نہ تھا زمین میں کوئی مخلوق بھی آباد نہ تھی، تھی تو بس ایک ہستی ایک
ذات تھی اور وہ ذات ہے رب تعالیٰ کی ذات جو پردے میں نہاں تھی جب رب تعالیٰ
نے پردے سے باہر آنا چاہا اپنی ذات کا اظہار چاہا اپنے مقام کو اپنی ہستی
کو ظاہر کرنے کا اہتمام چاہا تو پھر رب نے انسان اور انسان کے لئے کائنات
اور کائنات میں انسان اور دیگر مخلوقات کو آباد کر دیا
اظہار ذات کی خواہش انسان میں بچپن سے ہی پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ بچہ
اپنی ضروریات اور احساسات کا اپنی بھوک پیاس کا اپنی خوشی و مسرت کا اظہار
رو کر چلا کر ہنس کر قہقہے لگا کر کرتا ہے دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے
کے لئے اور اپنے ہونے کا احساس دلانے کے لئے مختلف حرکتیں اور شرارتیں کرتا
ہے یا پھر منہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکالتا ہے تاکہ دوسرے اسے دیکھیں
دوسروں کو اس کے ہونے کا احساس ہو
انسان میں اپنی ذات کے اظہار کی مختلف صورتیں اور ذرائع ہیں انسان اپنے
احساسات و جذبات اور خیالات کے ذریعے بھی اپنی ذات کا اظہار کرتا ہے اور
یہی خواہش اظہار ہے کہ جس کے باعث انسان دوسروں کو اپنی صلاحیتوں سے آگاہ
کرتا اور اپنی ذات کا لوہا منواتا ہے ہر انسان کی قوت اظہار یا ذریعہ اظہار
کی صلاحیت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے جس کا انحصار انسان کے فطری رجحان اور
کسی حد تک انسان کی ذاتی پسند و ناپسند پر بھی ہوتا ہے چونکہ ہر انسان میں
اپنی ذات کے اظہار کے مختلف ذرائع ہیں جن کے ذریعے انسان اپنی ذہانت و
لیاقت اور صلاحیتوں کے مطابق کام لے کر ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیتا ہے
جو اسے دوسروں میں منفرد و ممتاز مقام بناتا ہے بلکہ اس کی پہچان بناتا ہے
فنون لطیفہ، ادب و آرٹ، شاعری و موسیقی، ناول ڈرامہ، سنگیت، مصوری، لیڈر شپ،
صنعت و حرفت کھیل اور تعلیم میں نمایاں کارکردگی دکھانے کا عمل یہ سب اظہار
ذات کی خواہش و ضرورت کے پیش نظر منظر عام پر آنے والے رجحانات ہیں جو
انسان کو مسلسل متحرک رکھتے ہیں اگر انسانی زندگی میں محض خوراک لباس اور
رہائش کا انتظام کرنا ہی مقصد زندگی ہوتا تو ایک انسان کے لئے اپنی ان
بنیادی ضروریات پر اکتفا ہی کافی تھا صرف کھانے پینے اور چھت کا حصول انسان
سے اتنے بڑے بڑے کارنامے نہ کرواتا جو دنیا میں آج سیکنڑوں سال گزر جانے کے
باوجود بھی ان عظیم انسانوں کا نام زندہ رکھے ہوئے ہے جنہوں نے اپنے علم و
ہنر، جہد مسلسل اور محنت و لگن سے عظیم کارنامے سرانجام دئے ہیں
ایسے ایسے اعلیٰ شاہکار تخلیق کئے ہیں کہ جو تخلیق کار کا نام اس کے جہان
فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بھی زندہ اور روشن رکھے ہوئے ہے اور تخلیق کار
کی پہچان قائم کئے ہوئے ہے رب تعالیٰ نےاپنی ذات کے اظہار کے لئے آدم کو
تخلیق کیا اور اسے علم سیکھایا آدم کے لئے جنت بنائی اور اسے زمیں میں آباد
کرنے کے لئے اسی کے وجود سے اس کا جوڑ پیدا کر کے اسے زمین پر بھیج دیا
تاکہ وہ جا کر رب کی زمین کو آباد کرے رب کی بندگی کرے رب کے حکم کی تعمیل
کرے اپنے عطا کردہ علم عقل صفات اور صلاحیتوں سے کام لے اور ان تمام نعمتوں
کے طفیل جو رب نے اپنے بندوں کو عطا کی ہیں ان پر شان کریمی کا شکر گزار
بنے رب کا پیغام عام کرے
رب تعالیٰ نے اپنی تمام صفات اپنے بندوں کو اپنی صفات سے معرا کیا اور
انسان کو اپنے نائب کی حیثیت سے دنیا میں بھیج دیا ہر انسان میں صفات ربی
موجود ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ آیا انسان خود بھی ان سے آگاہ ہے یا
نہیں اپنے مقام سے اپنے رتبے سے اپنی صلاحیتوں سے اپنے جواہر سے جو بندے کو
اپنے پروردگار کی طرف سے نوازے گئے ہیں خود کو تلاش کرنا اپنے خالق و مالک
اور پروردگار کی جستجو اور پہچان خود میں اپنے رب کو تلاش کرنا اور رب
تعالیٰ کی صفات کو خود میں جانچنا دوسرے لفظوں میں اسی کا نام خودی بھی ہے
اور معرفت بھی یعنی اپنی اور اپنے خالق کی جستجو کہ جس نے خود کو پا لیا اس
نے اپنے رب کو پالیا اور جس نے رب کو پا لیا اس نے پوری کائنات کو پالیا
اور یہی وہ عمل ہے جو کائنات کو انسان کے لئے مسخر کر سکتا ہے
تسخیر کائنات کا عمل ہی اظہار ذات کا عمل ہے رب تعالیٰ نے اپنی ذات کے
اظہار کے لئے انسان کو تخلیق کیا اور انسان اپنی ذات کے اظہار کے لئے ان
صلاحیتوں اور جواہر سے کام لے کر خود اپنے آپ کو منواتا ہے اپنا نام اپنا
مقام اور اپنی پہچان بناتا ہے رب تعالیٰ نے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی جوہر
اور صلاحیت ضرور پیدا کیا ہے اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اپنے اس فن کو
اپنے ہنر کو اپنے اندر تلاش کرے اور اپنی اس فطری خواہش اظہار ذات کی تکمیل
کرے جس کے لئے انسان سفر کرتا ہے جستجو کرتا یا خود کو محرک رکھتا ہے
ہر انسان اظہار ذات چاہتا ہے اپنے آپ کو دکھانا، دنیا کے سامنے اپنی ذاتی
صفات کا لوہا منوانا چاہتا ہے اسی خواہش کی تکمیل کے پیش نظر کوئی نہ کوئی
ایسا کام کر گزرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جس سے اس کی شخصیت کی روشن پرتیں
نمایاں ہوں اس کی شخصیت اجاگر ہو دنیا میں اعلیٰ مقام حاصل کرے دنیا میں
جانا اور پہچانا جائے دنیا اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرے
جس طرح الفاظ و انداز، آرائش و زیبائش، لباس اور طرز زندگی یہ تمام کسی
انسان کی شخصیت کا پرتو ہوتی ہیں اسی طرح انسان کی تحریر و تقریر، بولنے
چالنے کا رنگ ڈھنگ اور تخلیقات و تصنیفات بھی انسان کے احساسات و جذبات اور
شخصیت کو ظاہر کرتے ہیں قوت اظہار کے یہی محرکات ہیں جو دنیا کو نئی نئی
جہتوں سے مسلسل روشناس کئے ہوئے ہے ہر نسان میں اپنی ذات کے اظہار کے مختلف
ذرائع موجود ہیں جو کہ مختلف علوم و فنون کی شکل میں دنیا کے سامنے آتے اور
کسی کی پہچان بنتے ہیں ان صلاحیتوں میں شعر و شاعری، دستکاری ، مصوری
خوبصورت آواز و انداز، رقص و موسیقی، سائنس یا تکنیک بھی ہو سکتی ہے کسی
بھی شعبے میں کسی بھی ہنر میں مہارت حاصل کرنا اور پھر اپنی محنت سے اپنی
صلاحیت و مہارت سے کام لیکر ہی انسان اپنی ذات کا اظہار بہتر طریقے سے کر
سکتا ہے کوئی بھی میدان ہو کوئی بھی شعبہ ہو کوئی بھی صلاحیت ہو اس کا
بہترین استعمال ہی بہترین نتائج کا حامل بنتا ہے
خود کو نمایاں کرنا اپنی ذات کا اظہار چاہنا اور اپنی ذاتی صلاحیتوں کے
بلپہ خود کو جرور منوائیں لیکن جو بھی کریں حدود میں رہ کر کریں انسانیت کے
دائرے میں رہ کر کریں حد سے تجاوز نہ کریں ہر کام میں اعتدال اور میانہ روی
کو پیش نظر رکھیں کہ یہی انسانیت سے قریب تر ، پسندیدہ اور بہترین روش ہے |