جہاں حالات‘ ضروریات‘ حاجات‘
ترجیحات‘ موقع اور صورت حال انسانی مزاج اور رویے میں تبدیلی لاتے ہیں وہاں
بدلتا وقت اور بدلتے موسم بھی‘ نادانستہ طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے
باعث‘ جذبات میں ارتعاش پیدا ہوتا رہتا ہے۔ ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ آدمی جان
بھی نہیں پاتا کہ وہ کیوں خوش‘ مایوس یا افسردہ ہے۔ موسم کی ہلکی سی تبدیلی
بھی اس کے موڈ کو متاثر کرتی ہے۔ یہ کوئی اختیاری عمل نہیں ہوتا۔ کسی
معاملے میں ملوث ہونے کی صورت میں‘ اس کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے۔
بعض ناگہانی جذباتی صورتیں بھی‘ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہزار طرح کے اتار چڑھا
آتے ہیں۔ یہ اتار چڑھا اپنی ہیت میں‘ دریائی مدوجذر سے مماثل ہوتے ہیں۔
مروجہ اصناف شعر‘ انسان کے جذبات کو اپنے قالب میں جگہ دیتے آئے ہیں‘ لیکن
رت کی تبدیلی کا‘ ان سے اندازہ نہیں ہو پاتا۔
برصغیر کی زبانوں‘ خصوصا پنجابی میں صنف بارہ ماہ مستعمل رہی ہے۔ اردو میں
بھی یہ صنف سخن نظر انداز نہیں ہوئی۔ کئی ایک شعرا نے‘ اس صنف شعر میں طبع
آزمائی کی ہے۔ ان میں سے ایک معتبر نام حاجی محمد نجم الدین ہے۔ آپ تیرویں
صدی کے اردو اور فارسی کے‘ خوش سخن شاعر اور نثر نگار ہیں۔ آپ بنیادی طور
پر صوفی ہیں اور تصوف میں‘ لائق عزت مقام ومرتبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس
صنف شعر میں طبع آزمائی کی ہے۔
ماہ بہ ماہ شخص کی داخلی کیفیات کا بیان‘ اتنا آسان کام نہیں‘ اس کے لیے
نہایت باریک بینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا اس کا تعلق محسوس سے ہوتا ہے۔ جب
تک اس کا اطلاق ذات پر نہیں کیا جاتا درست سے اظہار ممکن نہیں ہوتا۔ اس
تخلیق کا ہر شعر ذاتی محسوس سے تعلق رکھتا ہے۔ حاجی محمد نجم الدین کی کاوش
فکر ۔۔۔۔۔۔ بارہ ماھیہءنجم ۔۔۔۔۔۔۔ میں جہاں شخصی جذبات کی عکاسی ملتی ہے‘
وہاں عمومی صورت حال کو بھی اظہار میں لایا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
وہ اپنی قلبی کیفیات کا اظہار کررہے ہیں۔
اس تخلیق کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے‘ کہ کہیں مصنوعی پن کا احساس نہیں ہوتا۔
خارجی اور داخلی احوال کے اظہار کے لیے فوٹو گرافی کی تکنیک اختیار کی گی
ہے‘ جس سے شاعر کی عہدی مروج اردو زبان پر قدرت کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں
نے‘ اس تخلیق میں ثمثیلی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ خوب صورت تشبیہات کا
استمال کرتے ہیں۔ دل موہ لینے والے مرکبات بھی تشکیل پائے ہیں۔ مثلا
رین ڈراونی‘ برہ اگن‘ رخ زرد
ماہ بہ ماہ جذبات کی عکاسی کے ذیل میں ۔۔۔۔۔۔ بارہ ماھیہءنجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے
چند ایک مثالیں باطور ذائقہ ملاحظ ہوں:
ساون
ساون ماس سو رنگ میں گھر گھر بسی امنگ میں پاپن اس ماس میں روتی رہی نسنگ
ملن ہوا اس ماس میں دھرتی اور اکاش نجم دین پیو کارنی نسدن رہے اداس
بھادروں
بھادروں رین ڈراونی گھر ناہیں دلدار مجھ برہن آدھین پر کرم کرو کرتار
نجما جوبن بس نہیں دوجی نس اندھیار ایک بچھوا پیو کا تین طرح کے مار
آسوج
نجما رت آسوج نے جگ میں کیا ظہور نہ جانوں کب ہوے سی‘ برہن کا دکھ دور
جگ میں جیو آپنا پی ہن ہے درکاراب تک ا لٹے نہ پھرے وے پردیسی یار
کاتک
کاتی میں‘ چھاتی جلی‘ کاتی لکھی نہ یو ساتھی بن اب کس طرح میں سمجھاؤں جیو
نجما کاتک ماس میں سب سیتل سنسار برہ اگن سے میں جلوں جیوں دھند کے انگار
منگسر
یہ منگسر ماس کی رت سرد آئی لگی پھٹن مرے دل کی بوائی
یہ دکھ اوپر مرے دکھ اور آیا کروں اب کیا فکر اپنا خدایا
پوہ
سجن یہ پوہ رت ات سرد ہینگی تر ے دھن غم ستی رخ زرد ہینگی
سبھی سنسار میں سردی پڑی ہے یہ آتش ہجر سے برہن جری ہے
ماگھ
سکھی! یہ ماہ مہینہ آ گیا ہے اری پردیس پیو کو بھا گیا ہے
کہو: اب کیا کروں! کس پاس جاؤں کسے یہ درد دل اپنا سناؤں
پھاگن
عجب پھاگن کی یہ رت مست آئی کہ ہوری رم رہے لوگ اور لوگائی
کوئی رنگ گھول کر پیتم پہ ڈالے کوئی پچکاریاں بھر بھر کے مارے
چیت
سجن کیا خوب رت یہ چیت آئی نہیں یہ مانس ہے لائق جدائی
عجب اس مانس کی رت ہے سورنگی کیا سب نے لباس رنگ برنگی
زمیں نے سبز رنگ اپنا بنایا کہ جن نے دیکھا‘ اسی کا دل لبھایا
بیساکھ
رت آئی بیساکھ کی‘ ساجن نہ مجھ پاس بالم بن یہ برہنی در در پھرے ہراس
لوگو رے مت مانیو معشوقاں کی بات دے دے دھیرج کھوس کر دل عاشق لے جات
جیٹھ
سکھی یہ جیٹھ رت جگ بیچ آئی مرے دکھ کی دوا ابلگ نہ پائی
نہ آئے اب تلک وے یار جانی گئی جس عشق میں یہ زندگانی
ماہ آساڑ
دو جگ میں مشہور ہے ساڈ تمھارا نام جو مل جاں تجھ مانس میں مجھ دکھیا کے
شام
نجم پیا کے ملن کا نسدن ہے مشتاق ناگ ڈسے کو ڈر نہیں جو مل جا ۔ ئے۔ تریاق
ڈاکٹر عبدالعز ساحر نے‘ حاجی محمد نجم الدین کی اس یادگاراور قابل قدر
تصنیف پر کام کیا ہے۔ ان کا کام‘ کئی حوالوں سے لائق تحسین ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔بارہ
ماھیہءنجم۔۔۔۔۔۔کے آغاز میں انتساب کے بعد تونسہ مقدسہ کے لیے ایک نظم‘
کےعنوان سے نظم پیش کی ہے۔ یہ نظم ان کی تونسہ شریف سے دلی عقیدت‘ محبت اور
وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ باطور ذائقہ صرف تین لائیں ملاحظہ ہوں:
یہ تونسہ ہے
ابد کے طاق پر رکھے دیے کی لو مسلسل بڑھ رہی ہے
اور زمانہ دیکھتا جاتا ہے حیرانی کے موسم میں!
کتاب کے مقدمے میں‘ بڑے کام کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مقدمہ دس حصوں
میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلے حصہ میں اس صنف شعر کے موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔ اپنے موقف کی تصدیق
و وضاحت کے لیے شمیم احمد اور ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی کے حوالے‘ درج کیے گیے
ہیں۔
دوسرے حصہ میں‘ اردو میں اس صنف شعر کی روایت‘ حیثیت ونوعیت اور ہو نے والے
کام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تیسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔ بارہ ماھیہءنجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے مواد کو زیر بحث لایا گیا
ہے۔
چوتھا حصہ‘ حاجی محمد نجم الدین کی حیات اور ان کی اردو اور فارسی میں
تصنیفات سے متعلق ہے اور یہ تیس کے قریب ہیں۔
پانچواں حصہ میں‘ اس کتاب کی تین اشاعت ہا اوران کی خوبیوں اور خامیوں کے
بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔
چھٹا حصہ موجودہ اشاعت ٢٠١٢ کے دو ماخذ ۔۔۔۔۔١٣٥١ھ اور ٢٠٠٨۔۔۔۔۔۔ کی نوعیت
و تعارف سے متعلق ہے۔
ساتویں حصہ ۔۔۔۔۔۔ بارہ ماھیہءنجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے متنی تعارف سے متعلق ہے۔
آٹھواں حصہ میں‘ املا کی صورت حال کے ساتھ ساتھ‘ دیگر لسانی امور پر بھی
گفتگو کی گئی ہے۔ اس ذیل میں‘ معنویات کے حساس پہلووں کو نظرانداز نہیں کیا
گیا۔
نویں حصہ میں‘ موجودہ پیش کش میں مدنظر رکھے گیے بارہ امور درج کیے گیے
ہیں۔
دسویں یعنی اختتامی حصہ میں‘ ۔۔۔۔۔۔ بارہ ماھیہءنجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر مقامی غیر
مقامی زبانوں کے مرتبہ اثرات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
درج بالا دس حصوں کے تعارف کا مقصد یہ ہے‘ کہ قاری ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی
سلیقہ شعاری کا اندازہ لگا سکے۔ کوئی بھی باسلیقہ پیش کش‘ جہاں پیش کار کے
ہنر اور سلیقہ شعاری کو واضح کرتی ہے‘ وہاں تصیف کی حیثیت اور قدروقیمت کا
بھی تعین کرتی ہے۔ مقدمہ کے مطالعہ کے بعد‘ یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے‘ کہ
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کھرے‘ باسلیقہ اور محنتی متن شاس ہیں۔ عجلت اور ٹوٹل
پورا کرنے کی علت بد سے‘ کوسوں دور ہیں۔
متن صفحہ ٢٩ سے شروع ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ بارہ ماھیہءنجم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل ٧٥٧ اشعار
پر مشتمل ہے۔۔ حواشی باطور فٹ نوٹ دیے گیے ہیں۔ حواشی‘ اس شعری تصیف کے
حوالہ سے‘ بڑے ہی کام کے ہیں۔ ان کے حوالہ سے ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کی محنت
اور وسعت نظری کا باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حواشی میں:
غیر مستعمل‘ قدیم‘ غیرواضع‘ متروک اور کسی دوسری زبان کے الفاظ کے مفاہیم
درج کیے گیے ہیں۔
فارسی زبان میں کہے گیے اشعار کا ترجمہ دیا گیا ہے۔
شاعر کسی دوسرے شاعر کا مصرع لگاتا ہے‘ تو اس کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔
شاعرکا نام وغیرہ درج کر دیا گیا ہے۔
تقابلی صورتیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔
فنی کجیوں کی نشان دہی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔
تشریحی صورتیں ملتی ہیں۔
جملہ ابہام کی وضاحت کردی گئی ہے۔
لفظوں کی ہیئتی صورتوں کو واضح کیا ۔گیا ہے۔
متنی‘ لسانی‘ فنی‘ سماجی‘ تہواری‘ رسوم وغیرہ سے متعلق امور کی‘ وضاحتیں
درج کر دی گئی ہیں۔
کتاب میں‘ اشاریہ اور کتابیات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آخر میں‘ پہلی تین
اشاعتوں کے‘ سرورق کے عکس شامل کیے گیے ہیں۔ ان تینوں میں ایک دیوناگری خط
میں ہے۔ جس پہلو سے بھی‘ اس کام کو دیکھتے ہیں‘ بہترین تدوینی سلیقہ محسوس
کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر اس خوب صورت اور کامیاب پیش کش کے لیے
مبارک باد کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ |