سیمابی فکر کے حامل لوگ‘ قرار سے
دور رہتے ہیں۔ ہر لمحہ نئی سوچ اور نئے انداز و اطوار‘ ان کی زندگی کا
لازمہ و لوازمہ رہتا ہے۔ زندگی کے بدلتے موسم‘ ان کے سوچ سمندر میں کنکر
پتھر تنکے پھینکتے رہتے ہیں۔ یہ معاملہ ٹھہر ٹھہر کر نہیں‘ تسلسل کے ساتھ
جاری رہتا ہے۔ یہ بےقرار اور بےچین سے لوگ ہی‘ زندگی کو کچھ نیا اور الگ سے
دیتے ہیں۔ اس میں ان کی دانستگی کا عنصر‘ شامل نہیں ہوتا۔ یہ خودکار عمل‘
ان کے اندر جاری رہتا ہے۔ یہ لوگ زندگی اور اس کے معاملات کو‘ نئی تفہیم ہی
نہیں‘ نئی ہئیتیں بھی عطا کرتے ہیں۔ رائج کو نیا اسلوب‘ نیا حسن اور نئی
ترتیب سے سرفراز کرتے۔ یہ لوگ‘ جلد سمجھ میں آ جانے کے نہیں ہوتے۔ خدا
معلوم‘ کب اور کس طور کی کروٹ لے لیں۔
شریف ساجد صاحب سے میرا کبھی زبانی یا قلمی رابطہ نہیں رہا۔ ان کا
مجموعہءکلام۔۔۔۔ چاند کسے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔ پروفیسر لطیف اشعر کے حوالہ سے
ہاتھ لگا ہے۔ دیکھا‘ پھر پڑھا اور لطف لیا۔ کلام بتاتا ہے‘ کہ شریف ساجد
سیمابی اطوار کے شخص ہیں۔ بات کے لیے کئی طرح کے رنگ اور ڈھنگ‘ اختیار کرتے
ہیں۔ بیانیہ‘ طنزیہ‘ مخاطبیہ‘ مکالماتی اور خود کلامی کا انداز اختیار کرکے‘
بڑے سلیقہ اور پکا سا منہ کر بات کرتے ہیں۔ اس ذیل میں‘ فقط یہ دو شعر
ملاحظہ ہوں:
کہا اپنوں سے بھی بدظن بہت ہیں
کہا لنکا ہے یہ راون بہت ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصت اے عظمت جنوں کہ یہاں
عقل معیار خیر وشر ٹھہری
انہوں نے غزل میں ہئتی تجربے بھی کیے ہیں۔ یہ معاملہ بڑا دل چسپ ہے۔ مجموعہ
کے ص: ١٠٠-١٠١ پر آزاد مکالماتی غزل ہے۔ یہ غزل ان کی جدت طرازی کا منہ
بولتا ثبوت ہے۔ اس غزل کا صرف ایک شعر ملاحظہ ہو۔
کہا روتی ہوئی شکلیں ہمیں اچھی نہیں لگتیں
کہا ہے کس قدر مشکل جہاں میں آئینہ ہونا
انہوں نے اپنے اس مجوعہ کلام میں‘ ردیف کےاستعمال کے مختلف نوعیت کے تجربے
کیے ہیں۔ ان تجربوں نے‘ ان کے کلام میں الگ سے وقار اور وجاہت پیدا کر دی
ہے۔ اس کے ساتھ غنائیت اور معنویت میں ہرچند اضافہ ہوا ہے۔ مثلا
شعر کا ردیف حرف تشبیہ ہے۔ اس کا پہلا مصرعہ بھی حرف تشبیہ ہے۔ گویا شعر کے
دونوں مصرعوں کا اختتام حرف تشبیہ پر ہوتا ہے۔
میری مجبوریاوں ہیں پہلی سی
وہ ہے بااختیار پہلے سا
دونوں مصرعے حروف جار پر ختم ہوتے ہیں۔ دوسرے مصرعے میں باطور ردیف استعمال
ہوا ہوتا ہے۔
کسی کی زلف ہے شانے کسی کے
کسی کی ہے ہوا موسم کسی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستاروں میں چمک ہے شوخیوں کی
شفق میں رنگ بکھرا ہے حیا کا
حروف زمانی باطور ردیف استمال کرتے ہیں تو شعر کا پہلا مصرعہ بھی اسی قماش
کا ہوتا ہے۔ مثلا
کسی کی تم نے سنی سرگذشت ہی کب تھی
و گرنہ ہم تو ہر اک داستاں میں رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک سانس ترا نام ہی پکارتا ہے
ہمارے دل میں بھلا غیر کب سماتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ہمدرد ساحل پر کھڑے تھے
طلاطم میں سفینہ ڈوبتا تھا
ردیف کی ہی کوئی حالت‘ شعر کے پہلے مصرعے میں ہوتی ہے۔ اس سے‘ بات حرکت میں
محسوس ہوتی ہے۔ جمود یا سکتہ طاری نہیں ہوتا۔ مثلا
میں نے جو کچھ کہا غلط ٹھہرا
اس کی ہر بات معتبر ٹھہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے لہجے کی کھنک اچھی لگی
اپنا سانس اکھڑا ہوا اچھا لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوز الفت کا مزہ بھی اچھا
سوزن غم کی خلش بھی اچھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوخیاں اس کی بہت اچھی لگیں
اپنا دل ڈرتا ہوا اچھا لگا
شعر کا آخری لفظ ردیف کا ہم صوت اور ہم قافیہ ہوتا ہے۔
ہادی گمرہاں اسے کہیے
غم نصیبوں کا چارہگر لکھیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی جو سیر چمن کو جانا تو رک کے چلنا ٹھٹھک کے رکنا
کبھی درختوں پہ نام لکھ کر دلوں کی دھژکن تلاش کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری باتیں کوئی جھٹلا نہ پائے
تمھارا نام ہی سوگند ہو جائے
............
کس پہ تکیہ کروں امید وفا کس سے کروں
پھول کو ڈستی ہوئی باد بہاری دیکھوں
دونوں مصرعوں کے ردیف اور قافیہ ہم قافیہ ہوتے ہیں:
نام سنتے ہی ترا سرخی سی رخ پر پھیلنا
وہ تری تصویر کو سب سے چھپا کر دیکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنا دشوار ہے دینا میں تماشا بننا
کس قدر سہل ہے مصروف تماشا ہونا
شعر کے دونوں مصرعے ہم ردیف ہوتے ہیں:
درد کی شدت پیار کی شدت ظاہر کرتی ہے
دل میں پھانس چھبوئے رہنا اچھا لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملا کا ہاتھ اور کلاشنکوف عجب منظر ہے
کیا سنگم ہے خیر اور شر کا اچھا لگتا ہے
ہم قافیہ اور ہم ردیف کی یہ مثال ملاحظ ہو:
ہر ایک بات کی وہ تو دلیل مانگتے ہیں
اور ہم ہیں کہ سحرالبیان میں رہتے ہیں
شریف ساجد کی غزلوں میں‘ ردیف کےاستمال کی رنگ رنگی لسانی اعتبار سے‘ بڑی
معنویت کی حامل ہے۔ اس سے ان کے کلام میں چاشنی اور شگفتگی میں اضافہ ہوا
ہے۔ ان کے یہ ہئیتی تجربےآتے وقتوں میں اردو غزل گو شعرا کے لیے نمونہ بنے
رہیں گے۔ گویا انہوں نے‘ صدیوں کے بند دروازوں کو‘ کھول دیا ہے۔ اگر اسی
طور سے‘ غزل میں تجربے ہوتے رہے‘ تو یہ اردو کی غزلیہ شاعری کے حق میں‘ بہت
ہی اچھا ہو گا اور آتے وقتوں میں‘ شعرا کو اس کی تنگ دامنی کا‘ گلہ نہیں
رہے گا ۔ |