ناموس مذہب کے تناظر میں

 اس وقت ناموس مذہب کے نام پر افراتفری، تشدد، قتل و غارت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم مسلمان جو کبھی بردباری، عفوودرگزر، صبروتحمل اور انسانی حقوق کے محافظ سمجھے جاتے تھے آح انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے اور شدت پسند کے طور پر عالمی پرادری میں دیکھے جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے موجودہ حاللات کا جائزہ لیں تو مذہبی توہین کے واقعات میں بہت ہی ذیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ بلکہ ایک ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان اس معاملہ میں یا تو بلکل بی توجہ نہیں دے رہا یا ناکام ہو رہا ہے آپ اس کی وجوہات کچھ بھی سمجھیں مگر میری ذاتی رائے میں اس کی سب سے پڑی وجہ وہ دہشت اور خوف ہے جو ہمارے زہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے۔ اور یہ خوف ہو بھی کیسے نہ۔ اس حساس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والے کتنے لوگوں کا انجام ایسا عبرتناک ہوا کہ اب کچھ پولنے یا لکھنے سے پہلے پہت سوچنا پڑتا ہے۔ اب میں بھی انتہائ محتاط رہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کہیں میں بھی نشانہ نہ بن جاوں یا ایڈیٹر صاحب اشاعت سے پہلے ہی ردی کی ٹوکری میں نہ گسھا دیں۔ ۔ ہاں اس پر بولنے والوں کا انجام اتنا خطرناک ہوا کہ یہ خوف اور دہشت ہمارے دماغ کے ہائپو کیمپس میں نمایاں سرخی کے ساتھ خپردار حاشیہ بنا ہوا ہے۔ ۔ معزرت کے ساتھ تھوڑا سا حوالہ دینا چاہوں گا کہ جس ملک میں محافظ ہی قاتل بن جانے کا خرشہ ہو اور ہمارے پیش امام ہی اشتعال انگہزی میں راہتمائی کر رہے ہوں تو اعتماد کس پر کیا جایے یا جاں کی ضمانت کوئی دے بیھی کیسے سکتا ہے۔ امید ہے آپ نے میری معزرت قبول کر لی ہوگی، خیر۔

اگر ہم اعدادوشمار دیکھیں تو ٢٠٠١ سے لے کر اب تک انیس واقعات ہویے جن میں ٤١ جانیں ضائع ہوئیں اور ١٣٥ لوگ زخمی ہویے۔ اسی طرح وکلا کو محض اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ایسے مقدمات میں پیروی کیوں کرتے ہیں۔ سال ٢٠٠٤ سے اب تک تقریبا اٹھارہ کے لگ بھگ وکلا لقمہ اجل بن گئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی عام لوگ بھی مارے گیے جیسے کہ اسلام آباد ٢٠٠٧ کے واقعہ میں تقریبا ١٧ عام شعری بھی مارے گئے۔ اسی طرح حال یی میں ملتان والا واقعہ میں رشید رحمان کو مار دیا گیا۔ اور اسلام آباد کچہری میں کتنی الم ناکی سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ میں خود اللہ کا شکر ہے بچ گیا ہوں ،اگر ایک منٹ کی تاخیر کر جاتا تو آج بیان کرنے کی بجایے بیان ہو رہا ہوتا

انتہا ہو گئی کوٹ رادھا کشن کا واقعہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کتنی بے دردی کے ساتھ انسانی جانوں کی تضحیک کی گئی۔ حد ہو گئی آخر کب تک۔ یہ کوئی پہلا واقعہ تہیں بلکہ اب تو آئے دن ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اور زیادہ تر الزامات کے علاوہ کچھ بھی تہین ہوتا اور کئی واقعات میں الزامات کی وجہ بھی کوئی زاتی رنجش ہوتی ھے۔ اس واقعہ میں بھی ابھی تک کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔ فرض کریں کوئی ایسا واقعہ ہو بھی جائے تو قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہ تو اسلام میں موجود ہے اور نہ ہی ملکی قانون میں۔ اس واقعہ پر سپریم کورٹ نے بھی سوو موٹو ایکشن لیا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کے متعلق اپنے سابقہ فیصلے پر رپورٹ جمع اور عمل نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ اب تو اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی سفارشات دی ہیں کہ اس قانوں دا غلط استعمال ہو رہا ہے۔

تو عرض کر رہا تھا کہ یہ خوف ہو بھی کیسے نہ ہر آئے دن ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ کوئی ، سیاستدان ہو یا وکیل، انسانی حقوق کا کارکن ہو یا سماجی کارکن جان بچائے پھرتا ہے۔ اور بولنے والوں کو مغربی ثقافت کے پیروکار اور سیکولر کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

اگر ہم اس معاملے کا بخوبی جائزہ لیں تو چید عوامل ایسے سامنے آتے ہیں کہ ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نیں کہ یہ مذہبی معاملہ سے زیادہ معاشرتی بن گیا ہے۔ میں معاشرتی اس اعتبار سے کہتا ہوں کہ اس میں مزہبی تو ہین کا عنبصر کم مگر اس کے پس پردوہ زاتی رنجشیں، نفسانی خواہشات، معاشرتی پستی ، لاقانونیت اور اخلاقی اقدار کی کمی زیادہ نطر آتی ہے۔ اور مزہبی توہین کے قانون کے سہارے کا رجحان اتنا پڑھ گیا ہے کہ بات کہیں کی بھی ہو گھما پھرا کر مزہب کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہے۔

مذہبی توہین کی دفعات کو اگر تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو ١٨٦٠ میں مزہبی توہین کے واقعات کے سدباب کے لیے متعارف کروائی گئیں۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ایک طرح سے ورثے میں ملیں اور بعد میں جنرل ضیاالحق کے دور میں اضافی دفعات داخل کی گئیں۔ جن میں قرآن پاک کی گستاحی اورناموس رسالت کے متعلق بھی شقیں ہیں۔ قوانین معاشرتی اصلاح اوربگاڑ کو بچانے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ اور انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین میں وژن کم اور اتھارٹی کا اثر زیادہ نمایاں ہوتا ہے جب ان تعزیری قوانین سے معاشرتی معاملات زیادہ خراب ہو رہے ہوں تو اسلامی اصولوں کی روشنی میں تدپروفکر اور باہمی مشورہ کے بعد عمل میں لائی جا سکتی ہے۔

اب اگر اسلامی اور قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو جہالت اور لا قانونیت کے سوا کچھ بھی نہیں کیو نکہ اگر کوئی چھوٹی بڑی غلط فہمی با غلطی سر زد ہوتی بھی ہے تو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا نہ تو اسلام میں کوئی جواز موجود ہے اور نہ ہی قانون میں۔ ایک جمہوری اور اسلامی ریاست میں ریاست ہی کاروائی اور سزا دیے کا حق رکھتی ہے۔مذہب کے نام پر اتنی سنگین غلطی کا ارتکاب جہالت اور گمراہی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ جبکہ اسلامی نقطہ نظر پہت ہی واضح ہے کہ “ایک انسان کا نا حق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“ اور پیغمبر اسلام صل الل علیہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا کہ میں پہترین اخلاقیات کو پروان چڑھانے اور عام کرنے کے لیے بھجا گیا ہوں۔ تو یہ انسانیت کا قتل بغیر کسی ثبوت کے یا بغیر صفائی کا موقعہ دئے گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ۔ اور اہک اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے مال و جاں کی حفاظت ریاست کے ذمہ سونپی گئی ہے اور اگر محافظ ہی قاتل بن جائیں تو اس سے بڑی بددیانتی اور گمراہی کیا ہو سکتی ہے۔
صد افسوس کہ جتنے بھی واقعات ہوئے ان میں اشتعال اور زاتی رنجش کا عنصر ضرور سامنے آیا مگر اس کے باوجود بھی اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی۔ اتنے بڑے پیمانے پر واقعات ہونے کے بعد بھلا کوئی مزہبی توہین کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے زیادہ تر زاتی رنجش اور غلط فہمی کی بنیاد پر الزامات ہوتے ہیں اور کتنے لوگوں کو جان سے مار دیا گیا ،بغیر صفائی کا موقعہ دئیے۔ ان مسائل کا حل تو موجود ہے مگر خوف اور دہشت اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی بھی اس پر بات کرنے کے لئیے تیار ہی نہیں ہے۔ اب کتنے ہی واقعات میں اشتعال پایا گیا تو کیا ان کا سدباب نا ممکن ہے؟ قطا‘ نہیں مگر سب ڈرتے ہیں کہ ہماری جان کی ضمانت کون دے گا۔جس نے جرات کی اس کو راہ سے ہٹا دیا گیا ۔ کتنے وکلا کو صرف اس لئے قتل کر دیا کہ انھوں نے ملظموں کی قانونی مدد کرنے کی کوشش کی اور ان کو عدالتوں کے اندر مارنے کی دھمکیوں کے ثبوت موجود ہیں۔ گورنر پنجاب کو اس کے محافظ نے قتل کر دیا جس کو اس کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا

جہاں تک اشتعال انگیزی کا تعلق ہے ، اب تو مساجد اور مدارس بھی رجسٹرڈ ہیں ان کے لئیے بھی کوئی ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے جو خطیب اورامام کی بھی رجسٹریشن کرے اور ان کے لئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے تاکہ کوئی تو ان اداروں کا زمہ دار مہتمم ہو اور ان لوگوں کی بھی چھو ٹی سی ٹریننگ ہو کہ اداروں کو کیسے چلانا ہے اور یہ ہمارے بہت ہی اہم ادارے ہیں اور ہماری ترقی میں ان کا بہت بڑا کردار ہو سکتا ہے۔ ضرورت ان کو صحیح طرح سے استعمال کرنے کی ہے ۔ان لوگوں کے اندر بہت زیادہ پوٹینشل ہے ضرورت ان کو استعمال کرنے کی ہے۔ اس طرح کی اشتعال انگیزی کبھی بھی کوئی ذمہ دار آدمی ہیں کرتا اور جب ان اداروں کی باگ ڈور ذمہ دار لوگوں کے سپرد ہو گی تو کبھی ایسی اشتعال انگیزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان زمہ داروں کے چناو میں تعلیم کا بھی خیال رکھا جائے۔پھر ان کو ترقی کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے اور بھی ذمہ داریا ں سونپی جاسکتی ہیں یہ ہمارے پاس رضاکاروں کا ایک پہت پڑا ریسورس ہیں ضرورت توجہ دینے کی ہے۔ جیسے ان کو نکاہ خواں کی رجسٹریشن دی گئی ہے اسی طرح اور بھی ذمہ داریاں مثلا‘ پولیو کی مہم سازی ،ثالثی ، امن کونسلوں اور نمپرداروں کی طرح تصدیق کے عمل میں شمولیت وغیرہ سونپ کر مصروف کیا جا سکتا ہے

اسی طرح خوف اور دہشت کے حصار کو توڑنے کے لیے کوئی ضرب عضب لگانے اور کوئی عبرتناک سزا کی مثال قائم کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ لوگوں میں بولنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو اور آئے دن بڑھتے ہوئے رجحان کو بھی کم کیا جاسکے۔ باقی رہ گئے قانونی پہلو تو اس کے لئے قومی سبطح پر تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو بلا کر متفقہ رائے سے حل نکالا جا سکتا ہے ۔
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124320 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More