قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں ارشاد ہے”اور
ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے، کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں، جانوں اور
پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سناؤ ان صبر کرنے والوں کو کہ جب اُن پر کوئی
مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے
والے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی دُرود اور رحمت ہے اور یہی
لوگ راہ ہدایت پر ہیں“(آیت ۷۵۱۔۵۵۱)۔
دین اسلام میں ہر صاحب ایمان اور مومن ہونے کے دعویدار کی آزمائش اور
امتحان اُس کی حیثیت و شان اور مرتبہ و مقام کے مطابق لیا جانا ضروری ہے،
کیونکہ یہی تقاضہ فطرت اور قانون الہیٰ ہے، دین اسلام کے اس نصاب امتحان
میں خوف و پریشانی، بھوک و پیاس، مال و جان کا نقصان اور بچوں کا لیا جانا
شامل ہے، دراصل اس امتحان کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ کون اپنے دعویٰ
ایمانی میں سچا ہے اور کون جھوٹا، جو شخص اس میدان امتحان میں اخلاص و محبت
کے ساتھ ثابت قدمی اور صبر و رضا کا مظاہرہ کرتا ہے وہ کامیاب قرار پاتا ہے
اور جو اس امتحان سے جی چراتا ہے وہ اپنے جھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا اور
آخرت میں بھلائی اور خیر سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
دنیا میں جہاں حق وباطل کے امتیاز اور اللہ کے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان
کیلئے ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں اور محبّوں کی
والولہ العزمی اور اسلام دشمن شیطانوں کی درندگی کی مثالیں ہر دور میں ملتی
ہیں، وہاں چراغ مصطفوی کے مقابلے میں شرار بو لہبی بھڑکانے کا سلسلہ بھی
نیا نہیں ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد
یہودیوں اور نصرانیوں نے مسلمانوں کی متحد ومنظم قوت کو منتشر کرنے کیلئے
ہر وہ حربہ آزمایا، جس کے زریعے وہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے
ان کا شیرازہ بکھیر سکتے تھے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک
وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے، لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ
عنہ کے دور میں سبائیوں نے اپنی ریشہ دوانیاں تیز کردیں اور حضرت علی کرم
اللہ وجہہ کے دور میں خوارج نے فرقہ واریت اور اہل بیت رسول سے دشمنی کا
بیج بوکر اُمت مسلمہ میں اس فتنے کا آغاز کیا، اُس کے بعد سے جو کچھ بھی
ہوا وہ آج بھی تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔
اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں ہمیشہ باطل کے سامنے اہل حق ہی صف
آرا ہوئے ہیں، دنیا کی کوئی طاقت نہ تو ان کو خرید سکی اور نہ ہی ان کے
پائے استقامت میں لغزش پیدا کر کے انہیں حق کے اظہار سے باز رکھ سکی، یہی
وہ اہل ایمان تھے جنہوں نے دین اسلام کی خاطر کبھی بھی کسی بھی قربانی سے
دریغ نہیں کیا اور کفر و طاغوت اور ظلم و ناانصافی کے خلاف حق کے غلبے اور
آبیاری کی جنگ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر کے ہمیشہ کیلئے تاریخ کے صفحات
میں امر ہوگئے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ ”جب دین کا سیاسی نظام
بگڑ جائے تو مسلمانوں پر ایسے حکمران ہونگے جو غلط رخ پر سوسائٹی کو لے
جائیں گے، اگر اُن کی بات مانی جائے تو لوگ گمراہ ہوجائیں اور اگر اُن کی
بات کوئی نہ مانے تو وہ اسے قتل کردیں گے۔“اس پر لوگوں نے پوچھا ”ایسے
حالات میں آپ کیا ہدایت دیتے ہیں؟“تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
تمہیں وہی کچھ اُس زمانے میں کرنا ہوگا جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے
ساتھیوں نے کیا وہ آروں سے چیرے گئے، سولیوں پر لٹکائے گئے، لیکن انہوں نے
باطل کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اللہ کی اطاعت میں مرجانا اس زندگی سے بہتر
ہے جو اللہ کی نافرمانی میں بسر ہو“۔(طبرانی)
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ”تم میں سے جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو
شریعت و سنت کو بدلنے والا ہو، تو دیکھنے والا اپنے قول و عمل سے اس کو نہ
بدلے تو اللہ تعالیٰ کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اس شخص کو بھی اس حاکم کے ساتھ
دوزخ میں ڈال دے“61ہجری میں جب شریعت محمدی کو بدلنے کیلئے حاکم وقت نے
جبرو استبداد سے کام لیتے ہوئے گلشن اسلام کو تاراج کرنا چاہا اور شریعت
وسنت کو مسخ کرنے کی کوشش کی تو اسلام کے تحفظ کیلئے فرزند رسول سیدنا امام
حسین علیہ السلام میدان عمل میں نکلے، آپ اُس وقت اپنے علم و فضل اور مرتبہ
و مقام کے لحاظ سے عالم اسلام کی سب سے بزرگ ترین شخصیت تھے۔
آپ کے پیش نظر اپنے نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات اور سیرت
طیبہ تھی رخصت و عزیمت کی دونوں راہیں آپکے سامنے تھیں، راہِ عزیمت کا
تقاضہ تھا کہ جابر و ظالم اور فاسق و فاجر حکمراں کے فسق و فجور کے خلاف
صدائے حق بلند کر کے ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان دے دی جائے
جبکہ رخصت کہتی تھی کہ خاموش رہ کر اپنی جان بچالی جائے۔ یہ اصول شریعت بھی
آپ کے پیش نظر تھا کہ جب فاسق و فاجر امامت صغریٰ کا اہل نہیں ہوسکتا تو
پھر وہ امامت کبریٰ یعنی ملک و قوم کی امامت کا کیسے اہل ہوسکتا ہے، آپ
اچھی طرح جانتے تھے کہ ایسے فاسق و فاجر اور ظالم و جابر حکمران کے خلاف
خروج لازمی ہے۔ جس کا فسق و فجور اپنی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ اس کی جرات
اتنی بڑھ جائے کہ وہ حدود شرع کو معطل کر کے بے حیائی اور نافرمانی کو فروغ
دینے لگے اور حلال و حرام کی تمیز ختم بھی کردے۔
آپ اچھی طرح جانتے تھے کہ اِس وقت سب کی نگاہوں کا مرکز آپ کی ذات ہے، آج
اگر رخصت پر عمل کیا گیا تو اسلام کا اپنی اصل شکل و صورت پر باقی رہنا ہی
مشکل نہیں ہوگا بلکہ آپ کے اس طرز عمل سے قیامت تک کیلئے ہر فاسق و فاجر
اور ظالم و جابر حکمران کی بیعت بھی جائز ہوجائے گی اور لوگ آپ کے اس عمل
سے جواز تلاش کرکے کہیں گے کہ جب نواسہ رسول نے اپنی جان بچانے کیلئے رخصت
پر عمل کیا تو ہم اور آپ تو معمولی حیثیت کے لوگ ہیں ہم کیوں نہ اس پر عمل
کریں، لہٰذا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے فرض منصبی اور نصبی
تقاضوں کو سامنے رکھ کر عزیمت کا راستہ اختیار کیا اور جبرو استبداد اور
ظلم و استحصال کے خلاف باطل کی بے پناہ طاقت و قوت کے باجود اپنے 72 رفقا
کے ساتھ میدان جہاد میں آئے اور جواں مردی اور جوش ایمانی سے باطل کا ایسا
مقابلہ کیا کہ تاریخ آج بھی اُس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔
میدان کربلا میں امام عالی مقام اور آپکے رفقا نے جام شہادت نوش کر کے حق و
صداقت کا ایسا پرچم لہرایا جسے آج تک باطل طاقتیں سرنگوں نہ کرسکیں، دیکھنے
والوں نے دیکھا کہ امام حسین اور آپکے ساتھی شہید ہوگئے لیکن اس شہادت کے
باوجود آج بھی ان کا نام زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا، امام حسین رضی
اللہ عنہ نے اپنی شہادت سے یہ ثابت کردیا کہ دین اسلام کی سربلندی اور بقا
کی خاطر دشمن کی عددی طاقت اور بے پناہ وسائل سے مسلمان نہ تو مرعوب ہوتے
ہیں اور نہ ہی قربانی دینے سے دریغ کرتے ہیں، آپ کی شہادت نے قیامت تک آنے
والے ہر یزید اور فاسق و فاجر حکمران کیلئے کامیابی راہیں مسدور کر کے دشت
کربلا میں ایثار و قربانی کی ایسی مثال قائم کردی جس سے ہر دور میں روشن
انقلابی تحریکیں اسلامی اصولوں اور انسانی آفاقیت کو سہارا دیتی رہیں گی۔
جب بھی ظلم ہوگا حسینیت حریت اور کفر و طاغوت کے خلاف عملی جد وجہد کی
علامت بن کر اُمت مسلمہ کے دلوں کو گرماتی رہی گی، اُمت مسلمہ ہر سال ماہ
محرم میں شہدائے کربلا کا غم اور ان کی یاد نالہ و ماتم،آہ و بقا، رسم علم
و تعزیہ کے ساتھ مختلف انداز و اطوار سے مناتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا امام
عالی مقام نے اپنی اور اپنے جانثار ساتھیوں کی قربانی دے کر امت مسلمہ کو
یہ سبق دینا چاہا تھا کہ وہ اس قربانی کے عیوض چند دن کا سوگ منا کر اہل
بیت رسول کے ساتھ عقیدت و محبت کا اظہار کیا کرے، یا یہ کہ آپ نے میدان
کربلا میں دریائے فرات کے کنارے اپنی جان دے کر قربانی، شہادت، جہاد اور
باطل سے پنجہ آزمائی کی تاریخ اس لیئے تیار کی تھی کہ نوجوانان اسلام اپنے
سردار کے نقش قدم پر چل کر حق کیلئے ہمیشہ سینہ سپر رہیں اور جیتے جی کبھی
بھی باطل کو اپنے ناپاک مقاصد اور عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیں۔
داستان کربلا صرف سننے سنانے کیلئے نہیں ہے اور نہ ہی کسی طور بھی ہم یاد
حسین کی محفلیں سجا لینے سے یا نیاز و فاتحہ کرلینے سے اس کا حق ادا کرسکتے
ہیں، شہیدان کربلا کے نقش قدم کے حصول کیلئے داستان کربلا کا تقاضہ یہ ہے
کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی زندگی، بقا اور کامیابی کا انحصار کفر و ظاغوت
کے مقابلے میں اٹھنے، لڑنے اور جان دے دینے میں ہے، آج لہو رنگ عالم اسلام
اور بالخصوص پاکستان کفر و طاغوت کے پنجہ استبداد میں بری طرح جکڑا ہوا ہے،
دین سے دوری اور بد اعمالی کے سبب شرق سے غرب تک اُمت مسلمہ بے بسی اور بے
کسی کی تصویر بنی ہوئی ہے، یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ عالم اسلام اور وطن عزیز
کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، اس خطرناک کھیل میں اغیار کی سازشوں کے
ساتھ ساتھ اپنوں کی نادانی بھی شامل ہے۔
ان حالات میں شہادت امام حسین کی یاد مناتے وقت اس عہد کی تجدید بھی ضروری
ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانان پاکستان امام عالی مقام اور آپکے 72نفوس
قدسیہ نے میدان کربلا میں ظلم و جبر اور لادینی طاقتوں کے خلاف حق و صداقت
کی جس جنگ کا آغاز کیا تھا، اس جنگ کو ہمیشہ جاری رکھیں گے، یاد رکھیے وقت
کی بساط پر ظلم و جبر اور کفر و طاغوت کے خلاف اُمت مسلمہ کی جنگ کل بھی
جاری تھی اور آج بھی جاری ہے۔
کربلا نہیں لیکن حق و صداقت کی
کل بھی جنگ جاری تھی اب بھی جنگ جاری ہے |