قارئین اکرام آج جس شخصیت کے
بارے میں لکھنے جا رہا ہوں وہ عاجزی و انکساری کے پیکر تھے۔ جنھوں نے اپنی
ساری زندگی مخلوق خدا کی خدمت میں وقف کر دی۔ اﷲ تعالٰی کی روئے زمین پر
ایسے لوگ بہت کم پید اہوتے ہیں۔ جو کہ مخلوق خدا کی خدمت کو اپنا شعار
بنالیتے ہیں۔ اور اپنی اس عارضی زندگی میں صرف اور صرف اپنی آخرت کا سامان
اکھٹا کرتے ہیں۔ اور اس عارضی دنیا سے پردہ پوش فرما جاتے ہیں۔ آ ج جس
شخصیت کے لیے کچھ لکھنے کو قلم نے مجبور کیا اُن کا نام آصف علی خان مغل (مرحوم
) ہے۔ آصف خان مغل مظفرآباد کی مشہور شخصیت ٹرانسپوٹر ٹھیکیدار سردار خان
مغل (مرحوم) کے بیٹے تھے۔ آصف خان (مرحوم) 17 سال کی عمر میں محکمہ عدل و
انصاف میں بطور کلرک بھرتی ہوئے ۔ اور محکمہ عدل و انصاف میں بطور کلرک
اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے رہے۔ آصف خان (مرحوم)خداداد صلاحیتوں کے
مالک تھے۔ دیکھنے میں تووہ کمزور دبلے پتلے انسان تھے۔لیکن اﷲ تعالیٰ نے
اُن کے اندر عاجزی و انکساری اور مخلوق خدا کی خدمت کا جزبہ کوٹ کوٹ کر
بھرا ہوا تھا۔ اپنے محکمے کو ہی وہ اپنا سب کچھ سمجھتے تھے۔ اور کبھی اپنے
محکمہ کے تقدس پر آنچ نہیں آنے دی ۔ اپنی محنت اور دیانت داری سے اپنی
زندگی کے 33سال عدالتوں میں رہ کر مخلوق خدا کی خدمت میں وقف کر دیے ۔
مظفرآبادشہر کا شاہد ہی کوئی ایسا شخص ہو جو آصف خان (مرحوم) کو نہ جانتا
ہو۔ آصف خان (مرحوم)ایک ملن سار غریب پرور اور درددل رکھنے والے انسان تھے۔
جب بھی کوئی آپ کے پاس کسی کام سے جاتا تو جس وقت تک آپ اُس کا کام کر کے
اُسے وہاں سے رخصت نہ کرتے اُس وقت تک سکون سے نہ بیٹھتے تھے۔ آپ کی ہمیشہ
ایسے سائیلین پر نظررہتی۔ جو کے حقدار لوگ ہوتے آپ خود ایسے لوگوں کو
ڈھونتے تھے جو غریب نادار ہوتے ۔ جن کا خدا کے سوا کوئی سہارا نہ ہوتا ۔ آپ
اُن بے آسرا لو گوں کا ہاتھ تھامتے اُن لوگوں کی رہنمائی کرتے ۔ جو بلاوجہ
مقدمات میں پھنسے ہوتے ۔ اور ان کی صحیح طریقے سے رہنمائی فرماتے ۔ آج اگر
کسی دفتر میں چلے جائیں تو کوئی اپنی کرسی سے نہیں اُٹھتا ۔ لیکن آصف خان
کے پاس جب بھی کوئی جاتا تو وہ اپنی کرسی سے اُٹھ جاتے ۔ ادب و اخترام سے
پیش آتے اور خلوص نیت سے لوگوں کے کام کرتے۔ یتیم ، مسکین نادار لوگوں کے
حقوق پر کبھی سمجھوتہ نہ کرتے تھے۔ اگر کوئی ایسے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ
ڈالنے کی کوشش کرتا تو آپ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ۔ اور
ڈٹ کر مقابلہ کرتے چاہے انجام کچھ بھی ہوتا ۔ آصف خان مرحوم سچے عاشقِ
رسُول تھے اور آخرت پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ اور ہمیشہ رو رو کر اپنے رب
سے اپنی آخرت کی دُعا کرتے کہ پروردگار میری آخرت اور قبر اچھی ہو جائے۔ وہ
دنیا کی عیش و عشرت سے بالکل بے نیاز تھے۔ حتی کہ وہ ایک بڑے باپ کی اولاد
تھے۔ اپنے والد کی موجودگی میں انھیں کبھی کسی کمی کا احساس نہ ہوا اپنے
والد کی وفات کے بعد اُنکی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن آپ نے صبر و
استقامت سے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا۔ آپ کے چھوٹے بھائی امجد خان مغل ایک
مقدمہ قتل میں پھنس گئے۔ آپ نے 10 سال تک اپنے بھائی کا مقدمہ لڑا مقدمہ
میں آپ کے بھائی کو پھانسی کی سزا ہوئی لیکن آپ نے صبر کا دامن نہ چھوڑا
اور اپنے بھائی کے مقدمہ کے سلسلہ میں کبھی میرپور کبھی کدھر کبھی کدھرجاتے
رہے۔ آپ نے کسی کو محسوس نہ ہونے دیا اور اپنے خدا تعالیٰ پر مکمل یقین
رکھتے ہوئے اُس پاک پروردگار سے مدد طلب کرتے رہے ۔ آخر کار مقتول پارٹی سے
صلح کی راہ ہموار ہوئی اور آصف خان مرحوم کو آج سے20 سال قبل مقتول پارٹی
کو8,00,000/- ( آٹھ لاکھ) روپے ادا کرنے پڑے۔ لیکن آصف خان مرحوم کے پاس
اُس وقت پیسے نہیں تھے۔ وہ ایک چھوٹے ملازم تھے ۔ اور اتنی بڑی رقم کا وقت
کے لحاظ سے بندوبست نہ کرسکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مظفرآباد شہر سے اپنی
جائیداد جس میں مکان اور دوکانیں شامل تھیں فروخت کر کے مقتول پارٹی کو
پیسے ادا کیے اور شہر چھوڑ کر کسی اور جگہ شفٹ ہوگے ۔ اور بڑا عرصہ تک
کرائے کے مکان میں رہائش پذیر رہے۔ اپنے والد کی جگہ چھوڑ نے کا انہیں بہت
صدمہ تھا ۔ لیکن اپنے بھائی کو سولی پر چڑھتا نہ دیکھ سکتے تھے۔ اسی دوران
انہوں نے اپنی سروس کو جاری رکھا اور دوبارہ اپنامکان شہر سے باہر کسی جگہ
تعمیر کیا اور زندگی کے آخری ایام تک ادھر ہی رہائش پذیر رہے۔ آصف خان
مرحوم اپنے زندگی میں سکھ کا سانس نہ لے سکے اور اپنی زندگی میں اتار چڑھا
وکاسامنا کرتے رہے۔ آپ کے بڑے بھائی مقصود خان عرف شیدا خان بھی مظفرآباد
کی ایک مشہور شخصیت تھے ۔ اُن کے سارے معاملات عمر بھر آپ ہی نمٹاتے رہے۔
آپ اپنے بھائیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ جس طرح آپ نے اپنے بھائیوں کے لیے
جانی و مالی قربانیاں دیں شاہد ہی کوئی ایسا کر سکے۔ آصف خان محکمہ عدل
وانصاف سے 33 برس تک منسک رہے اور اپنی سروس کے دوران ایسی مثالیں چھوڑ گئے
جو آنے والے ملازمین کے لیے مشعل راہ ہے۔ آپ نے اُس وقت کے مشہور ججز
صاحبان جن میں جناب افتخار بٹ صاحب کوٹلی، چوہدری بوستان صاحب میرپور اور
جناب چوہدری عبدالحمید صاحب مظفرآباد کے ساتھ ڈیوٹی سرانجام دی ۔ اور احسنِ
طریقہ سے اپنے فرائض کی بجاآوری میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی ۔ آصف خان
مرحوم شرافت کا سرچشمہ تھے۔ شہر مظفرآباد کے اکثر لوگوں کا اُن کے ساتھ
واسطہ پڑتا تھا۔ اور وہ ہر شخص سے ملنساری اور محبت سے پیش آتے تھے۔ سال
2007ء میں آصف خان مرحوم کے بڑے بھائی نثار خان مغل (مرحوم) جو کہ
محکمہPool میں بطور ڈرائیور ملازم تھے ۔ اُن کی ناگہانی موت نے آصف خان (مرحوم)
کو شدید دھچکا پہنچایا اُن کی وفات کے فوراً بعد آصف خان(مرحوم) بیمار پڑ
گے۔ اور جگر کے عارضہ میں مبتلا ہو گے ۔ بیماری نے انھیں 08 ماہ کے اندر
ختم کر دیا اور جگہ کے کینسر میں مبتلا رہنے کے بعد مارچ 2008ء میں اپنے
خالق حقیقی سے جا ملے ۔ آصف خان (مرحوم) نے اپنے رب سے جو مانگا وہ رب
العالمین نے اُنھیں عطا فرمایا وہ ہمیشہ اپنی آخرت مانگتے اور اﷲ تعالیٰ نے
انہیں وہ سب کچھ عطا فرمایا جس کی انہیں تمنا تھی۔ بروز وفات مرحوم جمعتہ
المبارک کا دن تھا ور مہینہ ماہ ربیع الاول کا تھا۔ آصف خان مرحوم نے اپنی
زندگی کی 49 بہاریں دیکھی اور فکر کی حالت میں اس دنیا سے اپنے سچے مالک کی
طرف کوچ کر گئے ۔
آصف خان( مرحوم) مظفرآباد کے ایک اچھے باوقار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
اور اُن کے والد کی بھی اسی خطے کے لیے بڑی قربانیاں ہیں۔ جن سے انکارنہیں
کیا جا سکتا ۔ لیکن کبھی انہوں نے اس بات پر فخر محسوس نہیں کیا کہ وہ ایک
معروف شخصیت کی اولاد ہیں بلکہ عاجزی و انکساری سے اپنی زندگی گزاری اور
ہمیشہ اس عارضی دنیا کو چھوڑ جانے کا یقین دل میں رکھا ۔ اس کالم کے زریعے
ارباب اختیار کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروانا لازمی ہے کہ مرحوم نے دوران
سروس تعمیر مکان کے لیے کچھ قرضہ حاصل کیا تھا۔ جس کی باقاعدہ وضعگی ہوتی
رہی ۔ اپنی بیماری کے دوران مرحوم نے میڈیکل بورڈ کے کاغذات تیار کروائے۔
اور 10 مارچ 2008 کو آصف خان مغل A کیٹگری میں میڈیکل بورڈ ہوے ۔ اور 13
مارچ یعنی میڈیکل بورڈ کے 03دن بعد مرحوم اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے۔
اس طرح مرحوم کے ورثاء کو کوئی ڈیتھ کلیم اور دیگر مراعات نہ مل سکی جو آصف
خان مغل (مرحوم) کا حق تھا۔ مرحوم کی ریٹائر منٹ اور وفات کے درمیان 3 دن
کا وقفہ آڑے آ گیا۔ مرحو م کی پنشن کا کیس تقریباً04 سال بعد حل ہوا ۔ اُس
میں سے بھی تقریباً3,70,000/- روپے وضعگی کی گئی۔ وزیروں مشیروں اور بڑے
لوگوں کے قرضے تو معاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن آصف خان( مرحوم)کا قرضہ معاف نہ
ہوا اگر آج آصف خان( مرحوم)کے والد زندہ ہوتے تو حالات اس کے برعکس ہوتے ۔
لیکن افسوس آصف خان( مرحوم)کے خاندان میں کوئی ایسا شخص نہ رہا جو آصف
خان(مرحوم) کے کیس کے پیچھے چلتا ۔ ہم عزت مآب جناب چیف جسٹس عدالت العالیہ
غلام مصطفی مغل صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ مرحوم کی پنشن سے کٹوٹی کی
گئی رقم واپس دلانے میں آصف خان( مرحوم) کے خاندان کی مددفرمائیں۔ مرحوم کا
خاندان ہمیشہ جناب والا کے لیے دُعا گو ہے اور رہے گا۔ گزشتہ 2 برس قبل آصف
خان( مرحوم) کے بڑے بھائی مقصود خان بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گے۔ اور اب
صرف ایک بھائی امجد خان مغل زندہ حیات ہیں۔ ہم جناب یونس جج صاحب کے بھی دل
کی اتہاہ گہریوں سے شکر گزار ہیں کہ جنھوں نے آصف خان( مرحوم) کے بیٹے کو
اُن کی جگہ پر تعینات کیا۔ آج آصف خان( مرحوم) کو ہم سے بچھڑے 07 سال کا
عرصہ بیت چکا ہے۔ لیکن آصف خان( مرحوم) کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں قائم و
دائم رہے گئی ۔ آصف خان( مرحوم) جیسے لوگ اس دھرتی پر بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔
دنیا فانی ہے۔ جس طرح آصف خان( مرحوم) کا خاندان مظفرآباد شہر میں جگمگاتا
رہا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ کہ ہمیں یاد
کرنے والا بھی کوئی نہ ہو گا۔
فقط پاک پرودرگار کی بادشاہی رہے گی ۔ اور اُسی پاک پروردگار کا نام رہتی
دنیاتک قائم و دائم رہے گا۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آصف خان( مرحوم) کو کروٹ کروٹ جنت، راحت
و سکون عطا فرمائیں۔اُنھیں اُنکے والدین اور سب مسلمانون کو جنت الفروس میں
اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔
اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین |