دماغ کو قابو میں رکھیئے۔ کھیل بھی انسانی دماغ کے لیے خطرناک
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
مردوں کا دماغ خواتین کی
نسبت10 فیصد زیادہ بھاری ہوتا ہے، لیکن بڑے دماغ کے باعث مرد زیادہ ذہین
نہیں ہوتے-
نیلی بیریاں (بلو بیری) اور اخروٹ یادداشت بہتر بنانے کے علاوہ انسان کو
الزائمر سے بھی محفوظ رکھتی ہیں-
ہنسی یا قہقہہ سے دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دماغ کیلئے نہ صرف انتہائی مضر ہے، بلکہ
دماغی کینسر کا بھی باعث بن سکتا ہے-
کھیل دراصل صحت کے لیے ایک فائدہ مند مصروفیت ہے۔ لیکن کئی برسوں تک مسلسل
اور ضرورت سے زیادہ دباؤ والے کھیل نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر
دماغ کے لیے۔یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے۔ کئی فٹبال کھلاڑی
بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ مسلسل ہیڈ اسٹروک ہیں۔ فٹبال میں
سر کو لگنے والے جھٹکے اتنے زیادہ خطرناک نہیں ہیں، جتنے کہ امریکی فٹبال
یا پھر آئس ہاکی میں لگنے والے جھٹکے۔ لیکن بظاہر بیضرر نظر آنے والے جھٹکے
بھی نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔اگر آپ اپنے دماغ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو
پھر آپ آئس ہاکی کھیلنے سے بھی پرہیز کریں۔ آئس ہاکی کے متعدد کھلاڑیوں میں
بھی باکسر سنڈروم کی بیماری پائی گئی ہے۔ تصادم جان بوجھ کر ہو یا حادثے کے
طور پر، حقیقت یہ ہے کہ مسلسل جھٹکوں سے دماغ میں خطرناک قسم کی پروٹینز کی
تعداد اور مقدار میں اضافہ شروع ہو جاتا ہے۔ہیلمٹ مکمل حفاظت نہیں
کرتے۔نیشنل فٹ بال لیگ پہلے تو کئی برسوں تک اس بات کی تردید کرتی رہی کہ
کھلاڑی باکسر سنڈروم سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اب آ کر چند قوانین تبدیل کیے
گئے ہیں تاکہ دماغ کو کم سے کم جھٹکے لگیں۔ اس وقت سائنسدان ایسے مقناطیسی
ہیلمٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں، جو جھٹکے کی طاقت کو کمزور کرنے میں مدد
دیں گے۔’باکسر سنڈروم‘ بیماری صرف باکسرز ہی کو نہیں ہوتی، خاص طور پر
’امریکی فٹ بال‘ کے کھلاڑیوں میں بھی یہ بیماری اکثر پائی جاتی ہے۔ تحقیقی
جریدے ’سائنس‘ کے مطابق نیشنل فٹبال لیگ کے کھلاڑیوں کے دماغ کو ایک سیزن
کے دوران 600 سے زائد جھٹکے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ کھلاڑیوں کے ہیلمٹ بھی
دماغ کو مثاثر ہونے سے محفوظ نہیں رکھ سکتے۔زیادہ دباؤ والے کھیل کھیلنے سے
دماغ کو نقصان پہنچانے والی بیماری کو ڈاکٹر ’باکسر سنڈروم‘ کہتے ہیں۔ اس
نام کا مطلب یہ ہے کہ سر کو مستقل جھٹکے دینے سے دماغ متاثر ہوتا ہے۔ نتیجہ
انسان کی یادداشت کمزور، بولنے میں مشکل، خودکشی کے خیالات اور آخرکار
ڈیمنشیا جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ بیماری ایک باکسر میں
پائی گئی تھی، اسی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا۔ریسلنگ صرف ایک شو ہی نہیں
بلکہ اس کھیل میں مسلسل چوٹوں کی وجہ سے متعدد پہلوانوں کے دماغوں کو واقعی
نقصان پہنچا ہے۔ کینیڈین پہلوان کرس بینواٹ نے چالیس برس کی عمر میں خود کو
گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔یوں تو گزشتہ چند برسوں کے دوران سائنسدان
انسانی جسم کے کئی عجائبات جان چکے لیکن دماغ کے اسرار سے بہرحال واقف نہیں
ہو سکے۔ موجودہ وقت میں جدید ٹیکنولوجی کے تحت کی جانیوالی سائنسی تحقیق کے
باعث ماہرین پر رفتہ رفتہ نئے راز افشاء ہو رہے ہیں۔ کھیلوں کے بارے میں تو
آپ جان ہی چکے لیجیئے کچھ اور حیرت انگیز انکشافات ملاحظہ کیجئے۔انسان جب
کوئی بات یاد کرنے کی کوشش کرے تو کچھ دیر لگتی ہے۔ ایسی حالت میں بعض لوگ
اپنی یادداشت کو برا بھلا کہتے ہیں، حالانکہ اس میں بیچارے دماغ کا کوئی
قصور نہیں ہوتا۔ ہمارا دماغ دراصل ایک سو ارب عصبی خلیوں کا مجموعہ ہے اور
جب ہم کوئی بات یاد کرنے کی سعی کرتے ہیں تو ہمارے احکامات دماغ میں 5 سے
120 میٹر فی سیکنڈ کی شرح سے دوڑتے ہیں، چنانچہ احکامات بجالانے میں دماغ
کو کچھ دیر لگ جاتی ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی دماغ کا وزن صرف
3 پاؤنڈ ہے، لیکن ہمارا یہ عضو اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے جسمانی
توانائی کا20 فیصد استعمال کرتا ہے۔
سال 2011 میں کولمبیا یونیورسٹی امریکہ میں کی جانیوالی تحقیق کے بعد
ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ انسان انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت سوچ بچار پر کم
اور یادداشت پر زیادہ توجہ دیتا ہے، لیکن یہ امر دماغ کو کمزور کرتا ہے اور
انسان کئی باتیں بھولنے لگتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے ہمیں چاہئے کہ
غوروفکر پر زیادہ دھیان دیں۔چند ماہ قبل ولندیزی ماہرین نے ایک انوکھا
تجربہ کیا، جس کے تحت انہوں نے5 افراد کے سامنے برگر، چرغہ اور چپس وغیرہ
کے نام پکارے۔ اس دوران سننے والوں کے دماغ میں وہی حصے متحرک ہوگئے جو
منشیات استعمال کرنیوالوں کے دماغوں میں بھی تحرک پیدا کرتے ہیں۔ ماہرین کی
رو سے یہ تحرک انسان میں جوش و جذبہ اور لذت پیدا کرنے والے ہارمونز
’’ڈوپامائن‘‘ سے جنم لیتی ہے۔ دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کی
یادداشت میں بچپن کے سنے گئے گانے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ سال2010 میں کئے
گئے ایک تجربہ کے دوران انکشاف ہوا کہ انسان جب بچپن میں سنا کوئی گانا
دوبارہ سنے تو اس کے ذہن میں بہت سی خوشگوار یادیں تازہ ہوجاتی ہیں اور اس
کا موڈ بھی بہتر ہوجاتا ہے۔
جدید تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ کا سب سے اگلا حصہ، جسے
’’فرنٹ پولر کورٹیکس‘‘ کہا جاتا ہے، ماضی کے تجربات سے نتائج اخذ کرکے
مستقبل کی پیشین گوئی کر سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر انسان ذہنی طور پر فوق البشر
طاقت (سپر پاور) نہیں رکھتا، لیکن تجربات کے بل پر نتائج اخذ کرتے ہوئے
مختصر المدتی پیشین گوئیاں کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
کمپیوٹر گیمز کے حوالے سے کے گئے ایک تجربہ کے دوران ماہرین نے 20 بچوں کو3
ماہ تک کمپیوٹر پر کھیلے جانے والے ذہنی آزمائش کے کھیلوں میں مصروف رکھا۔
اس دوران بچے بعض سرگرمیاں بہتر انجام دینے لگے، لیکن ماہرین نے یہی نتیجہ
اخذ کیا کہ دماغی کھیل یادداشت یا کام اور سیکھنے کی صلاحیتوں پر مثبت
اثرات نہیں ڈالتے، جبکہ موسیقی سننا یادداشت کہیں زیادہ تیز کرتا ہے۔
امریکی یونیورسٹی اسٹانفورڈ میں ہونیوالی تحقیق کے مطابق موسیقی سننے والے
لوگ اپنے کام منظم طریقے سے کرتے ہیں، ان پر توجہ دیتے ہیں، پیشین گوئیاں
کرتے ہیں اور اپنی یادداشت کو اپ ڈیٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔
وزن کے لحاظ سے مردوں کا دماغ خواتین کی نسبت10 فیصد زیادہ بھاری ہوتا ہے،
لیکن اس بات پر مردوں کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ماہرین کے
مطابق بڑے دماغ کے باعث مرد زیادہ ذہین نہیں ہوتے، بلکہ صرف اس قابل ہوجاتے
ہیں کہ جسمانی کام زیادہ بہتر طور پر سرانجام دے سکیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ 20 سے 28سال کے درمیان انسان کی دماغی صلاحیتیں عروج
پر ہوتی ہیں، یعنی اس وقت دماغ اپنے شباب پر ہوتا ہے، جبکہ28سال کی عمر کے
بعد یادداشت کمزور ہونے لگتی ہے، لیکن دماغی صلاحیتیں خاصی حد تک برقرار
رہتی ہیں۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ انسانی دماغ 45 سال کے بعد زوال پذیر
ہونے لگتا ہے، اسلئے ماہرین کا مشورہ ہے کہ دماغ اور ذہنی صلاحیتوں کو
توانا رکھنے کے لئے مخصوص غذائیں، مثلاً نیلی بیریاں (بلو بیری) اور اخروٹ
وغیرہ مفید رہتے ہیں، جو یادداشت بہتر بنانے کے علاوہ انسان کو الزائمر سے
بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ غذائیں دراصل دماغ میں مخصوص ہارمون ‘‘ایسیٹائل
کولین‘‘ کی شرح بڑھاتی ہیں جو یادداشت بہتر بناتا ہے۔
حالیہ تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ موبائل فون کا حد سے زیادہ استعمال دماغ
کیلئے نہ صرف انتہائی مضر ہے، بلکہ دماغی کینسر کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ اس
کے علاوہ موبائل فون کا زیادہ استعمال نیند اور گھبراہٹ کے مسائل پیدا کرتا
ہے، اسلئے ماہرین کا مشورہ ہے کہ موبائل فون براہ راست استعمال کرنے کے
بجائے ہیڈسیٹ یا ائیرپیس سے مدد لیں۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم رات کو اچھی
نیند لیں، کیونکہ اس طرح یادداشت مستحکم ہوجاتی ہے۔ نیند کے دوران ہمارے
دماغ کے بعض حصے بدستور بیدار رہتے ہیں۔ اس دوران یہ حصے ہماری یادوں کو
پروسیس کرتے اور غیراہم یادوں کو مٹاتے رہتے ہیں۔
تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوچکا کہ امیدپرست افراد مایوس لوگوں سے زیادہ جیتے
ہیں، لیکن باعث مسرت بات یہ ہے کہ ہمارے جینز زندگی کا نقطہ نظر بنانے میں
صرف30 سے 40 فیصد کردار ہی ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں مایوسی کے
بجائے امید بھرا نقطہ نظر اپنانے پر زور دینا چاہے جس سے ہم بتدریج اپنے
خیالات بدل کر مثبت زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ
۸ ہفتوں تک روزانہ30 منٹ مراقبہ کرنے سے ایسے دماغی حصوں کو تقویت پہنچتی
ہے جو یادداشت، احساسِ خودی، ہمدردی اور ذہنی دباؤ سے متعلق ہیں۔ مراقبے کا
بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ دل ہی دل میں کوئی سکون بخش لفظ دہراتے رہئے،
تاکہ انتشار پھیلانے والے خیالات دماغ پر حملہ آور نہ ہوں، یا پھر دن میں
کسی وقت اپنی مکمل توجہ نظام تنفس پر مرتکز کرلیجئے تاکہ خیالات بھی مرکوز
رہیں۔
کئی لوگ دفتر یا گھر میں مصروف رہ کر یہی سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی سرگرمیوں
کی بدولت تندرست اور فٹ رہیں گے، لیکن دفتری یا گھریلو مصروفیت بہرحال ورزش
کا نعم البدل نہیں ہو سکتی، جو دماغ کیلئے بہت مفید ہے۔ ورزش کے ذریعے دماغ
خود کو تازہ دم کرلیتا ہے اور کئی بیماریوں مثلاً الزائمر وغیرہ سے بچاتا
ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ کم از کم 30 منٹ کی ورزش کیجئے۔ اس کا
طریق کار یہ ہے کہ پیدل چلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں، سیڑھیاں
چڑھیں اور دیگر ایسے کام کریں جن میں بدن حرکت کرے۔
ماہرین کے مطابق دماغ کے لئے مفید غذائی عناصر میں اومیگا۔تھری تیزاب،
کولائن، پیچیدہ نشاستہ اور مانع تکسیدی مادے (آکسیڈنٹس) شامل ہیں۔
اومیگا۔تھری تیزاب دماغ کی دانشورانہ صلاحیتیں بڑھاتے ہیں، جبکہ کولائن
وٹامن بی کی ایک قسم ہے جو انڈوں اور دیگر غذاؤں میں ملتی ہے۔ یہ وٹامن
جسمانی تھکن کم کرکے دماغی چستی میں اضافہ کرتا ہے، یادداشت بڑھاتا اور
ذہنی دباؤ دور کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پیچیدہ نشاستہ اور مانع تکسید مادے
(آکسیڈنٹس) بھی دماغی کارکردگی بہتر کرتے ہیں۔
حالیہ تجربات سے ثابت ہوچکا کہ انسان جب ہنسی یا قہقہہ سنے تو دماغ کے2اہم
حصوں ’’ایمی گڈالا‘‘ اور ہیپّوکیمپس‘‘ پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ
دونوں حصے انسان میں تناؤ ’’ڈیپریشن‘‘ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہنسی یا
قہقہہ سنے سے دماغ کا حصہ ’’اکومبنز‘‘ بھی متحرک ہوتا ہے، جو دراصل انسان
میں مسرت بخش جذبات جنم دیتا ہے۔ ہنسنے سے انسان میں تناؤ پیدا کرنیوالے
ہارمونز کی افزائش رکتی ہے خون کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجہ
میں انسان حملہ قلب (ہارٹ اٹیک) اور فالج کے حملے سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔
چند ماہ قبل واشنگٹن یونیورسٹی میں کئے گئے ایک تجربہ سے انکشاف ہوا کہ
بچوں کی ہنسی اور کلکاریاں سننے سے ’’آکسی ٹوسین‘‘ نامی ہارمون کی مقدار
بڑھتی ہے۔ یہ ہارمون ہمارے اندر خوشی کا احساس بڑھاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے
کہ انٹرنیٹ میں ہنسنے والے بچوں کی ویڈیوز اکثر بہت مقبول رہتی ہیں۔
دماغی صحت بہتر رکھنے کیلئے بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) پر توجہ دینا
ضروری ہے۔ بلند فشار خون یا ہائپر ٹینشن دور جدید کا ایسا خطرناک مرض ہے
جسے کئی لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے، حالآنکہ یہ مرض دل اور دماغ دونوں پر بے
پناہ دباؤ ڈالتا ہے اور انہیں کمزور کر دیتا ہے۔ اس لئے بلند فشارخون کا
علاج کروانا اور اسے قابو میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ ۹ برسوں
سے نیویارک یونیورسٹی کے ماہرین یہ تحقیق کر رہے تھے کہ ذیابیطس کے جو مریض
اپنے خون کی شکر قابو میں نہیں رکھتے، ان پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوتے
ہیں؟ جون 2012 میں کی گئی اس تحقیق کے نتائج میں انکشاف کیا گیا کہ ذیابیطس
رفتہ رفتہ دماغ کو کمزور کر دیتا ہے، لہٰذا ذیابیطس کے مریضوں کیلئے ضروری
ہے کہ وہ اس بیماری پر قابو پائیں اور خون میں شکر کی سطح اعتدال پر رکھیں
برس کی عمر میں ہی ان کا دماغ الزائمر کے پچاسی سالہ مریض کی طرح کا ہو چکا
تھا۔اگر زیادہ عرصہ خوش و خرم زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو اپنے دماغ کو قابو
میں رکھیئے۔ |
|