۱۹۵۰ء کی دہائی میں میرے مرحوم والد محتر م
لاہور سیکرٹریٹ میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے اُس برانچ کے انچارج تھے جو برانچ
صوبائی افسران کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے فرائض انجام دیتی ہے۔ گورنر صاحب
نے ایک شخص کے بارے میں لکھا کہ اسے فلاں حیثیت سے فلاں جگہ تعینات کر دیا
جائے۔ وہ حکم والد محترم کے پاس پہنچا تو انہوں نے ایک تفصیلی نوٹ لکھا کہ
اس شخص کو فلاں فلاں وجوہات کی بنا پر وہاں تعینات نہیں کیا جا سکتا۔ محترم
گورنر صاحب کا حکم قانون کے مطابق نہیں ا سلئے اس پر عملدرآمد کے لئے ہم
معذرت خواہ ہیں۔ ان دنوں افسران کی لمبی چوڑی تعداد نہیں ہوتی تھی۔ آدھ
گھنٹے میں وہ نوٹ چیف سیکرٹری کی میز پر تھا۔ چیف سیکرٹری صاحب نے میرے
والد صاحب کو بلایا اور پوچھاکہ جو کچھ ا ٓپ نے لکھا ہے ٹھیک ہے۔ ایک بار
پھر چیک کر لو۔ والد صاحب نے کہا کہ میں نے پوری طرح چیک کر کے لکھا ہے۔
چیف سیکرٹری نے کہا تو کیا میں یہ بات گورنر صاحب کو بتا دوں؟ بالکل بتا
دیں۔ میرے والد صاحب کا جواب تھا۔
کوئی دو گھنٹے بعد گورنر صاحب نے براہ راست میرے والد کو فون کیا۔ معذرت کی
کہ انہوں نے غلط آرڈر دینے کیلئے لکھااور میرے والد کا شکریہ ادا کیا کہ
انھوں نے گورنر صاحب کو ایک غلط آرڈر کے باعث ہونے والی بدنامی سے بچا لیا۔
یہ وہ وقت تھا جب سرکار کے ملازم واقعی سرکار کے ملازم تھے انہیں قواعد و
ضوابط عزیز تھے جن کی پاسداری کے لئے وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
گورنراور دوسرے سینئر حکام سمیت سیاسی لوگوں میں بھی رکھ رکھاؤتھا۔ حیا اور
شرم موجود تھی۔ اب سرکاری ملازمین کی نوکری بھی عجیب ہے۔ ہر طرف سے دباؤ ہی
دباؤ۔سچ جھوٹ، صحیح غلط اور جائز ناجائز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوئی
سرکاری ملازم گورنر، وزیر اعلیٰ یا وزیر کے حکم سے انکار کرنے کا تصور بھی
نہیں کر سکتا ۔ سرکاری ملازمین کو بھی پتہ ہے کہ اگر دباؤ قبول کر لیا جائے
تو ترقی کے زینے پر بھاگم بھاگ چڑھتے جائیں گے اور اگر دباؤ قبول نہ کرو تو
بس خواری ہی خواری ہے۔ اقتدار میں آنے والے سیاسی لوگ سرکاری ملازمین کو
ذاتی ملازمین تصور کرتے اور ان سے ہر جائز اور ناجائز کام لیتے ہیں۔ سرکاری
ملازمین بھی مصلحت کے تحت انکار کی جرات نہیں کرتے کہ ایک انکار انہیں بہت
سی مراعات سے محروم کر دیتا ہے اور درجنوں دوسرے لوگ اس کی جگہ لینے اور ہر
کام کر گزرنے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر منعفت بخش پوسٹوں پر تو
لگنے کے لئے لوگ غیرت، حمیت اور وقار سمیت ہر چیز داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ حکام بالا کے کہنے پر ہر کام کر جانے والے شخص کو سب تحفظ
دیتے ہیں جبکہ ایماندار شخص کو جان بوجھ کر کسی نہ کسی چکر میں الجھا دیا
جاتا ہے۔
سیاستدان میرٹ کا دعویٰ کرتے ہیں مگر ان کا میرٹ مخصوص معیار کا حامل ہوتا
ہے۔ میرٹ پر سترہ گریڈ کے افسر کو گریڈ ۱۹ کی پوسٹ پر تعینات کر دیا جاتا
ہے اور گریڈ ۱۹ کا بندہ گریڈ سترہ کی پوسٹ پرسویارہتا ہے۔ کوئی اصول نہیں۔
چند سال پہلے گریڈ ۱۹ کے ایک آفیسر کو حکم ہوا کہ فلاں کام فلاں فرم تین
چار جگہ پر کر رہی ہے کام مکمل ہونے والا ہے اس لئے انہیں کل تک معاوضہ دے
دیا جائے ۔ چھوٹا سا کام تھا معاوضہ پچاس ہزار کے لگ بھگ ہونا چا ئیے تھا۔
فرم کے لوگ ہر کام کا بل تقریباً ۲۰ لاکھ روپے بنا کر لے آئے۔ آفیسر نے کہا
کہ ہر کام پچاس ہزار سے زیادہ کا نہیں کل دو لاکھ بنتے ہیں۔ ۸۰ لاکھ کیسے
ادا کر دوں؟ پوچھا گیا کہ پتہ ہے کس کا حکم ہے؟ آفیسر نے پھر کہا کہ حکم
کسی کا بھی ہو میں اس قدر وزن نہیں اٹھا سکتا کہ دو لاکھ کی کل ادائیگی کو
اسی لاکھ میں بدل دوں۔ اگلے دن وہ آفیسر OSD بنا دیا گیا۔ نئے چارج لینے
والے نے دو دن میں بل کلیئر کر دیا۔ نیا چارج لینے والا خاصہ جونیئر تھا۔
دو تین ماہ بعد اسے عارضی ترقی بھی مل گئی اور بہت سے مزید کام بھی اس سے
کرائے گئے۔ انکار کرنے والا دو سال سے زیادہ عرصہ OSD رہا پھر حکومت بدل
گئی اور نئے آنے والوں نے اسے ایک نئی اور بہتر جگہ پر لگا دیا ۔
ایک محکمے کے سربراہ جو میرے دوست ہیں،پندرہ بیس دن کے لئے کسی غیر ملکی
دورے پر جا رہے تھے۔ اصولی طور پر ان کی غیر موجودگی میں چارج ان سے فوری
بعد سینیئر ترین افسر کوملنا چاہئے تھا مگر سینارٹی میں ۲۰ویں نمبر پر جو
صاحب تھے وہ عارضی سربراہ بن گئے۔ سربراہ واپس آئے تو میں نے ان سے پوچھا
کہ یہ تو میرٹ کا قتلِ عام ہے آپ اور آپ نے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگے باقی
سارے سازشی ہیں۔ یہ سادہ آدمی ہے اور مجھے اس پر اعتماد ہے اس لئے چارج اسے
دے کر گیا تھا۔ مگر آپ تو ہمیشہ میرٹ کی بات کرتے ہیں۔ ہنس کر بولے وہ تو
ٹھیک مگر احتیاط بہت ضروری ہے میرے مخالفین ہر وقت میری کسی خامی کی تلاش
میں رہتے ہیں ۔ میں میرٹ بچاتا کہ اپنی ذات۔ یہ ٹھیک ہے کہ میرٹ میں ذاتی
پسند اور ناپسند نہیں ہوتی اور اگر ذاتی پسند اور ناپسند آ جائے تو میرٹ
نہیں ہوتا۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو میں نے کیا وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق
میرٹ ہی تھا۔
ایک سرکاری ملازم کو کسی سکیم کے تحت محکمہ سے ایک عدد سائیکل مل گئی۔ مگر
اس سائیکل میں کیرئیر نہیں تھا۔ سرکاری ملازم نے درخواست کی کہ سائیکل کو
کیرئیر لگا دیا جائے۔ سائیکل واپس بھیج دی گئی۔دو دن بعد کیرئیر لگنے کے
بعد جب سائیکل واپس آئی توملازم نے دیکھا کہ کیرئیر تو لگ چکا تھا مگر
سٹینڈ غائب تھا۔ اس نے متعلقہ افسر سے شکایت کی کہ کیرئیر کے چکر میں
سٹینڈاتا ر لیا گیا ہے۔ افسر نے ہنس کر جواب دیا کہ بھائی سرکار کی نوکری
کرتے ہو تو یہ بات بھی جان رکھو کہ سٹینڈ کی بات کرو گے تو کیرئیر ختم ہو
جائے گا اور کیرئیر چاہتے ہو تو سٹینڈ کو بھول جانا ہو گا۔ |