نقطہ

بے شک اﷲ تعالیٰ جس کا چاہے ذکر بلند کرتا اور جسے چاہے عزت عطا فرماتا ہے ۔جب اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کا ذکر بلند فرماتا ہے تو مخلوق بھی اُن سے فیض یاب ہوتی ہے۔محنت یا اعمال کا معاملہ اور بات ہے اور رحمت الٰہی کااور ۔میرے ،آپ کے اعمال اور محنتوں کا شمار ممکن ہے جبکہ رب تعالیٰ کی رحمت کی کوئی حد نہیں ۔پیرومرشد کا فرمان ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ مہربانی فرماتا ہے تو پھر دنیا و آخرت کی کوئی منزل مشکل نہیں رہتی ۔پیرومرشد کی زندگی کے متعلق مضمون پیرسید عرفان احمد شاہ المعروف نانگا مست پڑھ کرایک نقطہ سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے یہ وقت آگیا ہے کہ نقطہ بیان کررہا ہوں۔نقطہ بیان کرنے سے پہلے آپ کو مضمون میں تحریر واقعات کاانتہائی مختصر تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔نمبر1بچپن میں جھولے سے غائب ہونا2جسم کے عضا ء کا علیحدہ علیحدہ ہونا3عالم مجذوبی کے دور کے واقعات4 وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے والد اور والدہ کی دُعاکی درخواست5 کاغذکے ٹکڑوں کا کرنسی نوٹ بن جانا6 عبدالغنی چشتی سرکار سے ملاقات 7محترمہ بے نظیر بھٹو کی دُعا کی درخواست8 سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے صدر بننے کی پشین گوئی9سابق صدرپاکستان جنرل ضیاء الحق کی موت کی پیشنگوئی10والدہ محترمہ کی دُعا11بابا جی محمد علی مست سرکار سے ملاقات12آپ کے مرشد عبدالغنی چشتی سرکار کا دنیاسے پردہ کرنا13بابا جی محمد یوسف سائیں سے ملاقات14 پیر صابر علی شاہ سے ملاقات15پرویز نام کے بارے میں تحقیق16ناپاک نظریں اورلقمہ حلال17سودی نظام کے خاتمے کا میاں محمد شریف کا وعد18ڈاکٹر کا مردے کو زندہ دیکھ کر دماغی توازن کھو دینا19سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بننے کی پیشنگوئی20سید سلامت علی شاہ المعروف چھتری والی سرکار سے گفتگو21پیر سعید میاں شاہ کے آستانے پر امامت22بچے کے سر پر زخم کا نشان نہ ہونا23 اقبال سائیں المعروف محبت سائیں کا نظر سے درخت کو ہلانا24ڈاکٹر کا ہاتھ ملاتے ہی کرنٹ لگنا25حضرت خواجہ اُویس قرنیؒکے آستانے کے لئے جگہ26 سابق آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمٰن سے ملاقات27شہد کی مکھی کا آپ کے چہرہ مبارک کا بوسہ لینا ‘‘میرے ذاتی نقطہ نظر میں بہت سے تضادات کی گنجائش موجود ہے پر جو نقطہ آج بیان کرنے جارہا ہوں وہ ذاتی نہیں عطائی ہے اِس لئے شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قدرت کے کارخانے میں لاتعداد حقائق اور نقطے موجود ہیں۔دنیاوی حقائق کو سمجھنے والے صرف دنیا کے ہوکے رہ جاتے ہیں جبکہ روحانی نقطوں کی سمجھ بوجھ عطاہوجانے پر انسان دنیاوی معاملات کے ساتھ وہ کچھ دیکھ ،سن ،بول ،سمجھ اور سمجھا سکتاہے جو دنیاوی حقائق کی چھان بین کرنے والے صدیوں تک نہیں سمجھ پاتے ۔اس حقیقت کو چند الفاظ میں بیان کیا جائے تو کچھ یوں کہا جاسکتاہے نقطہ وہی جو سمجھ آجائے ۔پیرومرشد کی زندگی کے موضوع پررضابھائی کا تحریر کردہ مضمون پیرسید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست راقم مہینوں گزر جانے کے باوجود پورا نہیں پڑھ سکا۔جب بھی پڑھنا شروع کرتا ہوں دل ودماغ کے ساتھ ساتھ روح بھی اس ایک نقطے میں اٹک جاتے ہیں کہ جب پیرومرشد کے ماں جی نے اپنے جگر کے ٹکڑے کو صرف ساڑھے تین سال کی عمر میں لا محدود مدت کیلئے درگاہ سید علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا حضور دربار پر یہ سمجھا کر چھوڑا کہ آپ کو اﷲ،رسول ﷲﷺاور صالحین کے سپردکرتی ہوں اُس وقت اُن کے حوصلے کا عالم کیا ہوگا؟ماں جی کے حکم کی تعمیل میں ساڑھے تین سال کی عمر کا معصوم بچہ اپنی ماں کے پیچھے نہیں بھاگتا،واویلا نہیں کرتا،خاموشی کے ساتھ اُسی مقام پر تھم جاتا ہے جس پر ماں جی نے حکم فرمایا۔یہ بھی کسی عام بچے کے بس کی بات نہیں ۔یقیناایسا حوصلہ عام ماں بیٹانہیں دیکھاسکتے ۔ آپ کی والدہ محترمہ اور آپ کامقام امتحان دیکھ یہ نقطہ صاف صاف سمجھ آگیا کہ ایسی بے مثال قربانیاں آل رسول اﷲﷺ ہی دے سکتی ہے جنہوں نے میدان کربلا میں قربانیوں کی ایسی بے مثل داستان رقم کی جس کی مثال کسی زمانے میں نہیں ملتی اور نہ آنے والے زمانوں میں پیداہوگی ۔بیٹاچاہے بوڑھا ہوجائے کوئی بھی ماں اُسے اپنی آنکھوں سے دور کرنا برداشت نہیں کرسکتی۔بات کردینا بہت آسان ہے ساڑھے تین سال کی عمرکے بیٹے کو خود سے دور کردینا بہت بڑا امتحان ہے ۔پیرومرشد کے ماں جی نے اس مشکل امتحان سے گزر کرمیرے جیسے ناقص العلم لوگوں کیلئے یہ نقطہ سمجھنا آسان کردیا کہ آل رسول اﷲ ﷺ آج بھی اُمت کی خیرخواہی کے مشن میں ہر طرح کی قربانیوں اور امتحانات سے گزر رہے ہیں ۔عقل ایسے نقطوں کو کم ہی سمجھ پاتی ہے یہ تب ہی سمجھ آتے ہیں جب کوئی سمجھانے والی عظیم ہستی آپ کے دل کے پنہا خانوں میں اُتر کر اپنی چاہت،محبت اور ادب واحترام کی مہر ثبت کردے۔دل پہ جمے زنگ کو دست شفقت سے نہ صرف صاف بلکہ پاک بھی کردے۔ آپ سوچیں یہ کام قلم یاکتابیں کرسکتی ہیں؟ہرگز نہیں کرسکتی ۔مجھے کتاب کی حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے۔کتاب علم کو پھیلانے کا عظیم ترین ذریعہ ہے پر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اورہے اﷲ والوں کی محفل میں پہنچ کر علم اور عقل کام چھوڑجائے تونقطے سمجھ آنے لگتے ہیں۔ایسے نقطے جو انسان کو سچ میں انسان بنا دیتے ہیں۔گزشتہ دنوں روحانیت کے موضوع پر ایک تحریر نظر سے گزری جس میں مضمون نگار نے کہا کہ روحانیت کی منازل پالینے کے بعد اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے لکھنے لکھانے سے پرے اپنے آپ کو تلاشنے اور تراشنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔میرا خیال قدرے مختلف ہے میں سمجھتاہوں کہ روحانیت کی منازل پالینے والے لوگ انسانیت کے اعلیٰ ترین درجات پر فائز ہوجاتے ہیں ۔اُن کو میری طرح کاغذ و قلم کی ضرورت نہیں رہتی ،میرے جیسے کئی لکھنے والے صدیوں تک اوراق سیاہ کرتے کرتے اسی سیاہی میں گم ہو جاتے ہیں پھر بھی کسی کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔دوسری جانب اﷲ تعالیٰ کے مقبول بندے اپنی نگاؤں سے دلوں پر ایسے نقطے رقم کرتے ہیں کہ اہل دل کی دنیا بدل کے رکھ دیتے ہیں ۔کتاب لکھنے اور پڑھنے والے اوراق کی خاک چھانتے رہ جاتے ہیں ۔ اﷲ والے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے وہ علم حاصل کرتے ہیں جن کا کسی کتاب میں ذکر تک نہیں ملتا ،کہیں موجود بھی ہوتو کتابی لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔راقم خود کو روحانیت کے موضوع پر لکھنے کا اہل نہیں سمجھتا پھربھی بعد اجازت پیرومرشد اتنا ضرور کہوں گا کہ اﷲ والوں کو بڑی بڑی تحاریر لکھنے کی ضرورت نہیں ۔اُن کا اِک نقطہ نصیب ہوجائے توزندگی بن جاتی ہے ۔ایک اور قیمتی بات آپ کو بتاتا چلوں جو پیرومرشد کی صحبت میں وقت گزار کر سمجھ آئی ۔انسان کوآخرت کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اس دنیا کی زندگی کو خوبصورت بناؤ۔آخرت میں جنت کی فکر کرنے والے یہ جان لیں کہ جنت بھی اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہے دوسری بہت سی مخلوقات کی طرح جبکہ انسان اشرف المخلوقات ہے ۔ انسان تمام مخلوقات سے اعلیٰ ہے ۔بے شک جنت اﷲ تعالیٰ کا خوبصورت انعام ہے اپنے بندوں کیلئے ۔اپنے اعمال کا محور جنت کو بنانے کی بجائے رضائے الٰہی کے طلب گار بنو،جنت مانگ مانگ کر شرمندہ ہونے کی بجائے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس طرح سرجھکاؤکہ جنت تیری طلب کرنے لگ جائے۔پیرومرشد کافرمان ہے سجدے کے ساتھ سرنڈر بھی ہوجائے تو بڑی بات ہے۔سجدہ ہم سب سمجھتے ہیں سرنڈر کا مطلب ہے یااﷲ میں ساری دنیا سے رشتہ توڑکر تیری بارگاہ میں حاضر ہوں مجھے ویسا بنا دے جیسا تجھے تیرے حبیب کو پسند آجاؤں،مجھ سے وہ کام لے جو اپنے مقبول بندوں سے لیا کرتے ہو ۔میں اقرار کرتا ہوں کہ میں سراپا خطاتو سراپا عطا ہے ۔مجھے دنیا کے جھمیلوں سے نکال کر اپنے برگزیدہ بندوں کی صحبت نصیب فرما۔مجھے دانش و عقل کے جال سے آزادکرکے اُن نقطوں کی سمجھ عطا فرما جو تیری باگاہ میں مقبول بندوں کی خدمت میں پہنچا کرتیرے قرب میں حاضری کے اثباب پیداکرتے ہیں ۔اب تو لگتا ہے جیسے یہ زندگی بھی ایک نقطہ ہی ہے جسے سمجھ آگئی وہ امر ہے باقی فانی ۔رب رحمان کی کائنات میں نقطوں کی بھرمارہے پر ہمارے لئے وہی نقطہ ،نقطہ ہے جس کی سمجھ آجائے یعنی نقطہ وہی جو سمجھ آجائے -
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 517248 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.