حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا
کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اُس پر زیادتی کرتا ہے نہ اُسے بے یارو
مددگار چھوڑ کر دُشمن کے حوالے کرتا ہے۔ جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری
کرنے میں لگا ہو٬ اللہ تعالیٰ اُس کی حاجت پوری فرماتا ہے جو کسی مسلمان سے
کوئی پریشانی دور کرتا ہے اللہ عزوجل اُس کی وجہ سے اُس کی قیامت کی
پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور فرما دے گا اور جس نے کسی مُسلمان کی
پردہ پوشی کی اللہ کریم قیامت والے دِن اُس کی پردہ پوشی فرمائے گا (بُخاری
وَ مُسلم )
مُحترم قارئین اگر ہَم تمام مسلمان صرف اِس ایک حدیث پر ہی عمل پیرا ہوتے
تو ذرا تصور کیجئے کہ ہمارا مُعاشرہ کس قدر خوبصورت ہوتا نہ راستوں پر
بھکاری بچے نظر آتے نہ کوئی ظالم کسی کا حق مارنے کی جُرات کرتا نہ کوئی بے
روزگاری کی وجہ سے خودکشی کرتا نہ ہی آٹے چینی کی خرید کے لئے خواتین
قطاروں میں نظر آتیں ہر طرف امن ہی امن ہوتا ہر ایک دوسرے کی عزت کا امین
ہوتا نہ کوئی رُسوا ہوتا نہ ہی کسی کی عزت کو سرعام اُچھالتا ہمارے اسلاف
رَحَمُھمُ اللہِ اجمین تو مسلمانوں کی عزتِ نفس کا اتنا خیال کرتے کہ خود
کسی کی دل آزاری نہ ہو کسی کی عزت نفس مجروع نہ ہو ایسی ایسی قُربانی کی
مثال قائم کر گئے کہ اللہ اللہ سوچ کر ہی حیرت ہوتی ہے چُناچہ حضرت حاتم
اصم رحمتہ اللہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک خاتون آپ علیہ الرحمہ کی
خدمت میں ایک مسئلہ دریافت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں سوال معلوم کرنے سے
قبل ہی اُن خاتون کی ریح آواز کیساتھ خارج ہوگئی وہ خاتون مارے شرم کے زمیں
میں گڑی جارہی تھی بُہت ہمت کر کے حضرت حاتم اصم علیہ الرحمہ کی خدمت میں
مسئلہ پیش کرنے لگی حضرت حاتم اصم علیہ الرحمہ نے جب اُس خاتون کو اس قدر
پریشان دیکھا تو بہرے بن گئے اُس عورت سے فرمانے لگے بی بی ذرا زور سے
بولیں مجھے کم سُنائی دیتا ہے اُس عورت نے ذرا اُونچی آواز میں مسئلہ پیش
کیا حضرت حاتم اصم علیہ الرحمہ نے مزید اُونچی آواز کا اصرار کیا حتیٰ کہ
اُس خاتون کو یقین آگیا کہ حضرت حاتم اصم علیہ الرحمہ بہت ڑیادہ بہرے ہیں
تب جا کر اُس عورت کی شرمندگی کم ہوئی اور ندامت سے پیچھا چُھوٹا کہ حضرت
حاتم اصم علیہ الرحمہ جب اس قدر اونچی آواز نہیں سُن سکتے تو بھلا ریح کی
معمولی آواز آپ نے کہاں سُنی ہوگی جب یہ خاتون ندامت اور شرمندگی کا بوجھ
خود سے اُتار کر چلی گئی تب حضرت حاتم اصم علیہ الرحمہ نے سوچا اگر کل اس
خاتون کو پتہ چل گیا کہ میں صرف اسکا دِل رکھنے کے لئے بہرہ بنا ہوا تھا تو
یہ کس قدر پشیمان ہوگی کہ اسکا عیب ظاہر ہوگیا تھا لہٰذا حضرت حاتم اصم
علیہ الرحمہ نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی بقیہ تمام زندگی بہرہ بن کر ہی
گُزاروں گا اور آپ نے تمام عمر بہرہ بن کر ہی گزاری اور آپ اصم کے نام سے
مشہور ہوگئے(اصم۔ یعنی بہت زیادہ اونچا سُننے والے) اللہ ۔ اللہ۔اللہ۔اللہ |