اُم المومنین حضرت اُم سلمیٰ سے
روایت ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ مٹی دی
اور فرمایا یہ مٹی جب سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا
فرزند حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شہید کردیا گیا ہے۔ اُم المومنین
فرماتی ہیں کہ ایک روز میں خواب میں رسول اللہ کو زار و قطار روتے ہوئے
دیکھتی ہوں، آپ کے سرِ اقدس اور ریش مبارک پر مٹی ہے، گھبرا کر عرض کرتی
ہوں میرے آقا یہ گریہ وزاری کیسی۔ تو آپ فرماتے ہیں اے اُم سلمیٰ میں اپنے
فرزند حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قتل کا منظر دیکھ کر میدان کربلا سے آرہا
ہوں۔ چنانچہ جب میں نیند سے بیدار ہوئی اور میں نے آپ کی دی ہوئی مٹی کو
دیکھا تو وہ خون ہوچکی تھی۔
مہاتما بدھ کا نام کسی بھی تعار ف کا محتاج نہیں۔ بدھ جی کے درویش ہونے کا
حقیقی واقعہ اگر ہم سنائیں تو ممکن ہے کسی کو اس پر یقین نہ آئے۔ لہٰذا
استدعا ہے کہ تصدیق کیلئے مسٹر ایل کے بھٹناگر ایم اے۔ آئی ۔ ای ۔ ایس کی
تصنیف ”بودھیا چمتکار “ مطبوعہ ادنکار پستکالیہ 1927ء ملاخطہ فرمائیں۔ جس
میں ان کا خواب، دعا اور وصیت تفصیل کے ساتھ درج ہیں، تاہم ہم یہاں انکی
صرف وصیت رقم کرتے ہیں جس میں انہوں نے فضیلت محمد و آلِ محمد بیان کرنے کے
ساتھ ساتھ بعثت آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہو سلم اور واقعہ کربلا کی پیش
گوئی بھی کی ہے۔
بستر مرگ پر دراز مہاتما بدھ جی مہاراج اپنے محبوب چیلا اور خاص الخاص مرید
”آنند “ کو افسردہ دیکھ کر فرماتے ہیں۔ ”پیارے آنند غمگین نہ ہو۔ آنسو مت
بہا۔ میں تجھے کتنی ہی مرتبہ پہلے کہہ چکا ہوں کہ موت برحق ہے۔ اگر میں اس
جہاں فانی سے جا رہا ہوں تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ یاد رکھ دنیا میں صرف
میں ہی بدھ بن کر نہیں آیا اور نہ میں اس سلسلے کو ختم کرنے والا ہوں جب
وقت آئیگا تو ایک دوسرا بدھ معبوث ہو گا جو خدا کو نور ہوگا، بہت ہی مقدس و
مطہر، اس کو حکمت کا وافر حصہ دیا جائیگا۔ وہ اقبال مند ہوگا۔ اسرار کائنات
کا عالم، نسل انسانی کا بے نظیر ہادی، مصلح، جن وانس کا معلم وہ انہی
صداقتوں کو تم پر ظاہر کرے گا جو میں نے تم کو سکھائی ہیں۔ وہ اپنے دین کی
تبلیغ واشاعت میں ہر لحظہ مصروف رہے گا، جو فی الحقیقت شاندار ہوگی ۔ وہ
اپنے حیرت انگیز کمال اور انتہائی عروج کی وجہ سے پُر شکوہ اور صاحب جمال
وجلال ہو گا۔ اس کی تعلیم زندگی کی روح اور اس کی تربیت کامل واکمل صاف
وپاکیزہ اور بے عیب ہوگی۔ وہ ”می تیریا“ یعنی رحمت اللعالمین کے پاک نام سے
معروف ہوگا۔ اس کے سر پر ایک پنج پہلو تاج ہوگا جو سورج اور چاند کی طرح
چمکتا ہوگا۔ اس کے سب سے بڑے ہیرے کا نام ”آلیا “ یعنی ”علی ّ “ ہوگا۔
آنند یاد رکھ یہ تمام پاک جسم ابتداء سے پیدا ہوچکے ہیں۔ مگر ان کے ظاہر
ہونے میں ابھی دیر ہے ۔ ”می تیریا“ کے سر پر سجے پنج پہلو تاج کے دو موتی
”لعل ومرجان“ ہونگے۔ ظالم لوگ اسکے موتیوں کو سخت نقصان پہنچائیں گے اور ان
کو برباد کرنے اور انکا نام مٹانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے، مگر مالک
(اللہ تعا لیٰ) اس کے نام اور اس کے کام اور اسکی نسل کو دنیا کے خاتمے تک
باقی رکھے گا۔
میری اور تیری طرح کروڑوں لوگ اس کے انتظار میں تھک جائیں گے مگر خوش نصیب
وہی ہوگا جو اسکا اور اس کے ساتھیوں کا ساتھ دے گا۔
مہاتما بدھ کی اس وصیت میں سب سے پہلے حضور خاتم الانبیاء کے ظہور پر نور
کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ آپ کے اوصاف حمیدہ کے بیان کے بعد رحمانی وقرآنی
خطاب ”می تیریا“ جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ آیت کریمہ ”وما ارسلنک الا رحمة
الالعالمین “ کی طرف اشارہ ہے جبکہ پنج پہلو تاج سے مراد ”پنجتن پاک ّ “
ہیں۔ سورج وچاند کی بات حدیث اقدس ”انا کالشمس وعلی کالقمر “ کی طرف اشارہ
ہے۔ موتیوں سے مراد حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ و حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں
جبکہ ظلم وستم کا وصیت میں کیا جانے والا ذکر اس لئے بھی کسی تشریح یا
وضاحت کا محتاج نہیں کہ 10محرم الحرام 61ھ کو اہل بیت اطہارّ پر فوج یزید
پلید نے ظلم وبربریت کے پر جو پہاڑ ڈھائے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
عہد حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب یعنی امت محمدی کوشش کریں کہ
ہمارا شمار محمد وآل محمد کا ساتھ دینے والوں میں ہو کیونکہ اسی میں ہماری
دنیاوی اور آخروی بھلائی پنہاں ہے۔ تبھی تو شاعر مشرق حضرت علامہ محمد
اقبال بھی کہہ گئے ہیں۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابتداء اسکی اسماعیل ّ
‘انتہا ہے حسین ّ
اسلام کے دامن میں بس دو ہی تو چیزیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اک ضر ب ید الٰہی ّ اک
سجدہ شبیری ّ
اور
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ جہاں چیز ہے کیا لوح
وقلم تیرے ہیں |