خواہش اور کامیابی لازم ملزوم ہیں
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
دنیا کا کوئی بھی شخص ایسا نہیں
جو کامیابی کی خواہش نہ رکھتا ہو یہ اس کی فطرت اور جبلت میں شامل ہے لیکن
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو کامیابی کیلئے ضروری کوشش بھی کرتے ہیں
کیونکہ کامیابی اور ناکامی کے درمیان دراصل کوشش اور خواہش ہی کا فرق ہے۔
خواہش کے بغیر کامیابی مل سکتی ہے لیکن کوشش کے بغیر کامیابی کا حصول
ناممکن ہے اور اگر ہم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کامیابی
کی یہ نعمت جہد مسلسل اور کوشش کے ہی مرہون منت ہے ۔ ملک ریاض حسین کی مثال
پاکستان میں موجود ہے جس کاشمار پاکستان کے چند امیر اور کامیاب ترین افراد
میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے سفیدی کرنے کام کرنے کی ابتدا کی اس بے حس او ر ظالم
معاشرے میں حسب روایت کام کے حصول کیلئے دفتروں کے چکر کاٹے۔ بھوک و افلاس
کو انتہائی قریب سے دیکھا اور پھر محنت، کوشش،جہد مسلسل، اخلاص نیت اور
نصرت ایزدی نے آج ملک ریاض حسین کوبام عروج پر پہنچادیا۔کامیابیاں ان کے
قدم چومتی ہیں۔اسی طرح اسٹیفن کنگ انگریزی ادب کا ایک معتبر نام ہے انہوں
نے جو پہلا ناول لکھا کوئی پبلشر اسے قبول کرنے کو تیار نہ تھا کسی نے اسے
چھاپنے کی حامی نہ بھری۔ وہ ایک تسلسل کے ساتھ پبلشروں کے چکر کاٹتے رہے
اور اسی تسلسل کے ساتھ انہیں مسترد کیا جاتا رہا۔برداشت بے عزتی کی حد ختم
ہوئی ضبط ٹوٹ گیا اور اسٹیفن نے اپنے ناول کا مسودہ کو ردی کی ٹوکری میں
ڈال دیا۔ ان کی بیوی جب کوڑے دان کے قریب سے گزری اور مسودے کو ٹوکری میں
پڑے دیکھا تو اسے اٹھالیا اور شوہر سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایسا کیوں
کیا۔اسٹیفن نے اسے دو ٹوک لہجے میں بتایا کہ وہ آئندہ کوئی ناول نہ لکھے گا
اور نہ ہی کسی پبلشر کے دروازے پر اشاعت کی بھیک مانگے گا۔اس کی بیوی نے
انہیں یہ سمجھاکر کہ آخری مرتبہ اور کوشش کرلی جائے۔بادل نخواستہ بیوی کے
کہنے پر وہ ایک پبلشر کے پاس گئے اس نے ناول چھاپنے کا عندیہ دیا ناول چھپا
اور اس کی بدولت اسٹیفن کنگ کا نام دنیا میں چھاگیا۔
دنیا کی مشہور کمپنی ہنڈا کے مالک سوشیرو کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے
پہلی مرتبہ ٹیوٹا گاڑیوں کی کمپنی میں ملازمت کیلئے درخواست دی۔لیکن وہاں
سے اسے یہ کہہ کر معذرت کرلی گئی کہ وہ اس کمپنی میں ملازمت کی اہلیت نہیں
رکھتا۔ اس بات نے اس کے دل پر گہرا اثر ڈالا اور اس نے مصمم ارادہ کیا کہ
وہ بھی ایک روزایسی سی ایک کمپنی قائم کریگا جس کا بنیادی مقصد ٹیوٹا سے
مقابلہ ہوگا۔ اس نے ہنڈا کی بنیادی ڈالی اور پھر اس کی محنت اور لگن کا
جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ ایک اور مثال لیجئے جنوری 2014 میں ممبئی کے ایک
ریلوے سٹیشن پر مونیکا نامی طالبہ گرپڑی اور اپنے دونوں ہاتھ کٹوا بیٹھی۔
اس صدمے سے اس نے حوصلہ لیا اور ہمت نہ ہاری اور اپنے لئے مصنوعی ہاتھ
لگوالئے۔اب وہ اپنے تمام کام اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیتی ہے حتی کہ لکھ
بھی سکتی ہے۔اسی طرح بل گیٹس۔وارن بفٹ،نیلسن منڈیلا، مائیکل جیکسن، سٹیو
جابز، ہیلن کیلر،قائداعظم، بل کلنٹن وغیرہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صرف اور صرف
محنت اور لگاتار کوشش کے بعداپنا لوہامنوایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم سیلف
میڈ کہتے ہیں ان لوگوں نے اپنے انتہائی قلیل وسائل بلکہ وسائل کے نہ ہوتے
ہوئے بھی صرف کوشش اوراﷲ کی مدد سے اپنے آپ کو ترقی کی منازل کا راہی بنایا۔
ْ
مملکت خداداد میں ہمارا مزاج اور شیوہ بن چکا ہے کہ خود بھی کچھ نہیں کرنا
اور دوسرے لوگوں کی ٹانگیں کھینچنا۔ کسی کی ترقی و کامیابی ہمیں ہضم نہیں
ہوتی۔ ہم شارٹ کٹ کے چکر میں اندھیروں کے مسافر بن جاتے ہیں لانگ ٹرم صبر
آزما ضرور ہے لیکن آپ کو رفعت کی بلندیوں اور اجالوں کی جانب گامزن کرتا ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوشش، جدوجہد اور محنت ہی کامیابی و کامرانی کی کلید
ہے جو لوگ کوشش کو اپنا شعار بنالیتے ہیں کامیابیوں کی انتہا کو چھولیتے
ہیں اور جو لوگ کوشش کی بجائے محض خواہشات کے محل بناتے ہیں اور کامیاب
ہونا چاہتے ہیں تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب خواہش ان کا منہ چڑا رہی ہوتی
ہے اور کامیابی کا دور دور تک نشان نہیں ملتا۔ انسان کاخواب دیکھنا اور
خواہشات پالنا کوئی بری بات نہیں کیونکہ خواہش اور خواب ہی تو بنیاد بنتے
ہیں لیکن ان کی تعبیر صرف اور صرف کوشش سے ہی شرمندہ ہوسکتی ہے۔بقول شاعر
فرہاد کے مرقد سے آتی ہیں صدائیں
کہ محنت کسی شخص کی برباد نہیں جاتی |
|