ملکی تاریخ کی سب سے بڑی بینک ڈکیتی

ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کو ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں۔ کراچی کے معاشی قلب میں واقع آئی آئی چند ریگر روڈ پر واقع الائیڈ بینک میں معمول کے مطابق سرگرمیوں کے آغاز کے ابتدائی مرحلے کے طور پر رات کو ڈیوٹی سرانجام دینے والے سیکورٹی گارڈز اپنا چارج صبح والوں کو دے کر گھر جانے کی تیاری کر چکے تھے۔ اسی اثناء میں علی الصبح ڈیوٹی پر پہنچنے والے شاہد محمود نامی سیکورٹی گارڈ نے بینک میں داخل ہونے کے بعد باہر موجود اپنے دیگر ساتھیوں کو اندر بلایا اور مبینہ طور پر بینک کے اسٹرانگ روم میں موجود تجوری کاٹ کر اس میں سے غیر ملکی کرنسی کی صورت رکھے گئے ایک اطلاع کے مطابق52کروڑ اور دوسری کے مطابق31کروڑ11لاکھ روپے لے اڑے۔ تین ماہ قبل بینک میں گارڈ کے طور پر بھرتی ہونے والے سیکورٹی گارڈز کی جانب سے کی جانے والی واردات کے متعلق ابتدائی اطلاعات میں پولیس نے بتایا کہ اتوار کے روز علی الصبح تین مسلح گارڈ الائیڈ بینک کی مرکزی برانچ میں داخل ہوئے اور وہاں پہلے سے موجود عمران اور ضمیر حسین نامی گارڈز کو رسیوں سے باندھ کر31کروڑ10لاکھ روپے لوٹ لے گئے، لوٹی گئی رقم میں غیر ملکی کرنسی بھی شامل تھی جس میں ۷لاکھ برطانوی پاﺅنڈ، ڈیڑھ لاکھ یورو، ایک لاکھ 90ہزار امریکی ڈالر شامل تھے۔

ڈکیتی کی اب تک معلوم ہونے والی تفصیلات کے مطابق اختر گروپ آف کمپنیز کی ملکیت اختر منزل میں واقع بینک میں کلائننٹ ڈیلنگ کے لئے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع دروازہ ہی استعمال ہوتا ہے لیکن سیکورٹی گارڈز اپنی ڈیوٹی پر آنے جانے کے لئے عقبی دروازے کو استعمال کرتے ہیں۔ ملزمان نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا مسلح ملزمان جن کے پاس گیس کٹر بھی موجود تھے سب سے پہلے بینک میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے اسٹرانگ روم کے فولادی دروازے کا لاکھ گیس کٹر سے کاٹا۔ بعد ازاں اندر لگے گرل والے دروازے کا لاکھ کاٹنے کی کوشش کی مگر اس میں ناکامی پر دو گرلیں کاٹ کر اندر داخل ہوئے۔ اندرونی اسٹرانگ روم کے فولادی دروازے کا لاک کاٹا اور اندر موجود ایک تجوری کا لاک کاٹ کر اس میں رکھی غیر ملکی کرنسی نکالی، جب کہ دوسری تجوری کا لاک کاٹتے ہوئے گیس ختم ہو جانے یا نوٹوں کا حجم ذیادہ ہو جانے کی وجہ سے کام وہیں ادھورا چھوڑ دیا۔ ملزمان نے جاتے ہوئے فولادی تجوریوں کے اوپر رکھے ہوئے دس دس روپے کے نوٹوں کی گڈیوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی مطلوبہ مقدار اس کے بغیر ہی پوری ہو گئی تھی۔ بینک میں گیس کٹر کے استعمال اور لوہا کٹنے سے پید اہونے والے دھویں کے باجود سیکورٹی اور اسموک الارم نہ بجنے کے متعلق پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان نے مرکزی ہال کے دو سیکورٹی کیمروں پر کپڑا ڈالا اس کے بعد بینک کی مرکزی وائرنگ جس سے کیمرے چلتے تھے کو منقطع کر دیا۔ پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس حکمت عملی کو اختیار کر کے واردات کی گئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ملزمان تربیت یافتہ اور بھرپور پلاننگ کے ساتھ واردات کرنے کے لئے آئے تھے حتیٰ کہ ان کا ہدف اور اس کی مقدار تک طے تھی جبھی انہوں نے جاتے ہوئے نوٹوں کے کئی بنڈل ناصرف ڈکیتی کے مقام پر چھوڑے بلکہ بیگوں میں بھرے نوٹ بھی وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

پولیس نے بعد ازاں 40ہزار یورو مالیت کے نوٹ ایک سابق پولیس اے ایس آئی جو اب برطرف ہے کہ گھر سے برآمد کر لئے۔ اگرچہ پولیس نے مذکورہ فرد کو واقعے میں ملوث ظاہر کیا ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ لوٹ مار میں ملوث افراد میں سے ایک مذکورہ اے ایس آئی کے دوست کا جاننے والا تھا اور اس کے گھر کے قریب رہتا تھا واقعہ کے روز سیکورٹی گارڈز میں سے ایک نے وقاص کو بیگ دیا اور کہا کہ اسے رکھو میں ابھی آتا ہوں تاہم بیگ میں رقم دیکھنے اور غیرملکی کرنسی کی موجودگی کے ساتھ ہی وقاص یہ بیگ لے کر فوراً اپنے اے ایس آئی دوست کے پاس پہنچا اور اسے صورتحال سے آگاہ کیا۔ مذکورہ اے ایس آئی میڈیا میں بینک ڈکیتی کی خبر آنے پر خود یہ رقم لے کر وقاص کے ہمراہ میٹھادر تھانے پہنچا اور اسے تھانے کے حوالے کیا تاہم تھانے نے بیگ ریکور کرنے کے بجائے اس کے گھر کی جانے والی کارروائی کو چھاپہ قرار دے کر ۰۴ہزار یورو ریکور کرنے کا اعلان کر دیا، جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ اے ایس آئی مختلف الزامات کے تحت پولیس سے برطرف کیا گیا تھا اور اس نے اس کاروائی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ میٹھادر تھانے کی حدود میں اس سے قبل بھی متعدد ایسی وارداتیں ہو چکی ہیں تاہم ہر موقع پر پولیس جرم ہو جانے کے بعد فعال ہوتی ہے۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ میٹھادر تھانے کی پولیس فعال نہ ہو یہ الگ بات ہے کہ یہ فعالیت ذرا دوسری قسم کی ہوتی ہے۔ تھانے کی حدود میں لگائے جانے والے ٹھیلوں،جا بجا قائم غیر قانونی پارکنگز سے یومیہ، ہفتہ اور مہینہ کی وصولی کے لئے جس مستعدی کا مظاہر کیا جاتا ہے جرائم کی باری آنے پر وہ عنقا ہو جاتی ہے۔

اس سے زیادہ حیرت انگیز امر یہ سامنے آیا کہ ۰۰۱فیصد درستی کی ضمانت دینے والا قومی شناخت کارڈ فراہم کرنے کا ادارہ نادرا بھی اس وقت چکرا گیا جب اس سے ملزم کی تصدیق چاہی گئی۔ نادرا نے اپنا ریکارڈ دیکھ کر بتایا کہ شاہد محمود نامی ملزم جس کا شناختی کارڈ 3310635175191 تھا اور ایڈریس چک نمبر493محلہ حسین پورہ، تحصیل تاندلیانوالہ ضلع فیصل آباد درج ہے۔، مذکورہ پتہ ملزم کے شناختی کارڈ کی کاپی کے مطابق اس کا عارضی اور مستقل پتہ ہے۔ بائیں آنکھ پر زخم کا نشان کی شناختی علامت کے ساتھ بنائے جانے والے شناختی کارڈ میں درج اس جگہ پر اس نام یا شناخت کا حامل کوئی فرد نہیں رہتا بلکہ یہ شناختی کارڈ جعلی طور پر بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ قیوم آباد کے رہاشئی شاہد نامی نوجوان کا شناختی کارڈ گم ہوا تھا جس کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دی گئی تھی تاہم مرکزی ملزم نے اسے واردات کے لئے استعمال کیا ہے۔ ملزم کو جاری کیا گیا کیرکٹر سرٹیفیکیٹ فیروز آباد پولیس اسٹیشن کی جانب سے جاری کیا گیا ہے لیکن شناختی کارڈ پر درج فیصل آباد کے پتے سے اور نا ہی فیصل آباد پولیس سے کیرکٹر سرٹیفیکٹ جاری کرتے وقت کسی قسم کی تصدیق کرنا گوارا کی گئی تھی۔ پولیس کی جانب سے ملزم کو موبائل فون سے ٹریس کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم کا تعلق کوہاٹ سے ہے۔ ملزم نے واردات سے قبل استعمال کی جانے والی سم اگرچہ نکال کر پھینک دی ہے لیکن اس موبائل میں ایک دوسری سم استعمال ہو رہی ہے جسے ٹریس کرنے کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق فنگر پرنٹس کے حوالے سے تحقیق کا دائرہ اس لئے آگے نہیں بڑھ پایا کہ واردات کے بعد اطلاع ملتے ہی پولیس کی جو ابتدائی ٹیم وہاں گئی اس کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے درست طور پر فنگر پرنٹ نہیں لئے جا سکے۔

دوسری جانب پولیس نے بینک کو سیکورٹی فراہم کرنے والی سیکورٹی کمپنی کا لائسنس معطل اور دفتر سربمہر کر دیا تھا جس کے خلاف سیکورٹی اینڈ پروٹیکشن پرائیویٹ نامی کمپنی نے سندھ ہائی کورٹ میں کیس دائر کر دیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مشیر عالم اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے دائر کی گئی درخواست پر سیکرٹری داخلہ، سی سی پی او وغیرہ کو 21دسمبر کے لئے نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس کا31کروڑ روپے کی بینک ڈکیتی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے باوجود تحقیقات سے قبل ہی آفس سربمہر کر دینا اور لائسنس کی معطلی ختم کر کے لائسنس کی بحالی اور آفس کھولنے کا حکم جاری کیا جائے۔ سی سی پی او وسیم احمد کے مطابق کراچی میں ڈھائی سو کمپنیوں کے 80ہزار سیکورٹی گارڈ موجود ہیں، ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کے سب سے بڑے ملزم شاہد محمود کی گرفتاری کے لئے محکمہ داخلہ نے20لاکھ روپے انعام مقرر کیا ہے۔ جب کہ ملزم کی گرفتاری کے لئے پولیس کی خصوصی ٹیم دوسرے صوبے روانہ کر دی گئی ہے۔ ایس آئی یو کا خصوصی دستہ ملزمان کی گرفتاری کے مشن پر پشاور روانہ ہو چکا ہے، کیس کی تفتیش کے لئے ڈی آئی جی انویسٹی گیشن غلام قادر تھیبو، ڈی آئی جی ساﺅتھ زون غلام نبی میمن اور ایس ایس پی ایس آئی یو راجہ عمر خطاب کی زیر نگرانی تین الگ الگ ٹیمیں بنائی گئی ہیں جنہیں جلد رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا تھا تاہم ابھی تک مذکورہ رپورٹس پیش نہیں کی جا سکی ہیں۔

پولیس کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کا بھی کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے تاہم اس واقعے کے متعلق جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کا سب سے زیادہ نشانہ پولیس بنی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بینک کے اسٹرانگ روم میں موجود جس تجوری کو کاٹا گیا ہے اس کی ایک مخصوص انشورنس ہوتی ہے۔ انشورنش کی مالیت کے مساوی رقم ہی تجوریوں میں رکھی جاتی ہے لوٹی جانے والی تجوری میں موجود رقم انشورنس کی مقدار سے کم یا ذیادہ تھی اس پہلو کو ابھی تک کہیں زیر بحث نہیں لایا گیا جو ایک معنی خیز بات قرار دی جا رہی ہے۔ پولیس پر لگائے جانے والے سنگین الزامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ڈکیتی کے بعد سیکورٹی ایجنسیوں کے خالف کریک ڈاﺅن کرنا ایک پہلو ہے لیکن سیکورٹی گارڈز کو بھرتی کے لئے سرٹیفیکیٹ بنا کر دیتے اور اس سے قبل کمپنی رجسٹریشن کے دوران پولیس کی جتنی بھی شمولیت رہتی ہے، پولیس ذرائع اس میں ہر جگپہ رقم کی لین دین کو خرابی کا اصل سبب قرار دیتے ہیں۔ رشوت کی مد میں لی جانے والی رقم کے بعد کی کو بھی انتہائی آسانی سے کیرکٹر سرٹیفیکیٹ جاری کر دینا اور جینوین کیس ہونے کے باجود رقم نہ دینے پر چیکر پر چکر لگوانا پولیس کا وطیرہ بن چکا ہے جس سے ایک جانب تو عام فرد متاثرہ وتا ہے تو وہیں دوسری جانب جرائم پیشہ عناصر کے لئے یہ عمل ایک آسانی بہم پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے۔

دن دیہاڑے پولیس کے صوبائی ہیڈکوارٹر سے محض چند میٹر کی دوری پر ہونے والی ملکی تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی کو گزرے خاصے دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کی جا کسی ہے۔ ماسوائے کیس کے دوسرے روز تک پولیس کی جناب سے حراست میں لئے گئے افراد کی تعداد پہلے روز کے دو سے بڑھ کر سات ہو گئی تھی۔ جن میں محمد علی اور شہزاد نامی دو وہ ضمانتی بھی شامل تھے جنہوں نے شاہد محمود نامی مبینہ مرکزی ملزم کو سیکورٹی کمپنی میں ملازمت حاصل کرنے کی ضمانت دی تھی۔ مذکورہ دونوں افراد کا تعلق بھی پولیس سے ہی بتایاجاتا ہے۔ پی ایس سیکورٹٰی کمپنی کے جنرل مینیجر اشفاق احمد کے مطابق ان کے ریکارڈ کے مطابق شاہد محمود کی ضمانت دینے والے افراد کا ڈیٹا پولیس کو فراہم کیا گیا تھا جس پر انہوں نے دونوں افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

ایک اور باعث حیرت بات یہ ہے کہ سیکورٹی گارڈ عموم اسٹرانگ روم میں نہیں جاتے نہ ہی انہیں اس بینک کے سیکورٹی نظام کے بارے میں کچھ بتایا جاتا ہے لیکن جس صفائی سے واردات کی گئی ہے اور ملزمان نے صرف وہی لاکر کاٹا ہے جس میں غیر ملکی کرنسی رکھی تھی یہ کئی شبہات کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ اس پہلو پر تفتیش کرنا پولیس کے لئے یقیناً فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ بینک ڈکیتیوں میں اب تک اکثر وارداتوں کا الزام سیکورٹی گارڈز پر ہی لگایا جاتا رہا ہے لیکن گزشتہ برس ہونے والی دو بڑی بینک ڈکیتیوں جن میں سے ایک پریڈی تھانے کی حدود اور دوسری شاہراہ فیصل پر ہوئی تھی کے ملزمان تاحال مفرور ہیں۔ دونوں وارداتوں میں پولیس نے سیکورٹی گارڈز کو ہی ملوث قرار دیا تھا جو وہاں سے مبینہ طور پر کروڑوں روپے مالیت کے طلائی زیوارات، سیونگ سرٹیفیکیٹ، غیر ملکی کرنسی لوٹ کر فرار ہو گئے تھے۔ جب کہ پولیس کی جانب سے لوٹی گئی اشیاء کی برآمدگی کے لئے بھی کچھ نہیں کیا جا سکا۔ رواں برس شہر کے مختلف علاقوں میں واقعہ14بینکوں کو لوٹا گیا ہے لیکن ماسوائے چند کے تمام ملزمان گرفتار نہیں ہوئے ہیں۔3سے95لاکھ روپے مالیت کی ان ڈکیتیوں میں ایک بات مشترک یہ ہے کہ ہر جگہ کروڑوں روپے کی رقم کے لین دین پر وہ لوگ نگران ہوتے ہیں جو خود معمولی سی تنخواہ پر اس صورت میں یسکورٹی گارڈ کی نوکری کرتے ہیں جب انہیں کوئی اور کام نہیں مل پاتا۔ واضح رہے کہ مذکورہ ڈکیتیوں کے فوراً بعد بھی سیکورٹی کمپنیوں کے خلاف کاروائی کرنے اور ان کی اصلاح کی بازگشت سنائی دی تھی تاہم اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ دیگر معاملات سے قطع نظر سیکورٹی اداروں میں گارڈز کی بھرتی کے لئے تاحال کوئی ایسا طریقہ وضع نہیں کیا جا سکا ہے جو محفوظ ہو۔ شہر کے مختلف مضافاتی علاقوں میں اب بھی بسا اوقات مختلف سیکورٹی کمپنیوں کی جانب سے سال بھر بینر یا دیواروں پر چاکنگ کر کے ہر ایرے غیرے کو سیکورٹی گارڈ کے طو پر بھرتی ہونے کی دعوت دی جاتی ہے جو دو ضمانتی تلاش کر کے کسی بھی ادارے میں بھرتی ہو جاتا ہے اور بعد ازاں یہی افراد اس اثاثے کو لوٹنے کا سبب بن جاتے ہیں جس کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق ڈکیتی کے ملزمان کو پکڑنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ حل یہ ہے کہ ان اسباب کا خاتمہ کیا جائے جس کی وجہ سے ملزمان یہ کاروائیاں کر کے مجرم بننے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

 

Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 31861 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More