مجذوب کا کلمہ عربی زبان کے لفظ
جزب سے بنا ہے جسکے معنی جزب ہو جانے غرق ہو جانے کے ہیں مجزوب اسے کہا
جاتا ہے جو کسی جلالی صفاتی یا اسمائے زاتی کے زکر کی نورانی تجلی میں جزب
ہو کر ظاہری حواس سے بیگانہ ہو جائیں یہ ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے کہ جو اللہ
کے زکر میں اس قدر غرق ہو چکی ہوتی ہے کہ اسکے شعور کی کی کیفیات باقی نہیں
رہتی-
دارالفتا مجذوب کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے کے مجزوب اللہ کے عشق میں
مستغرق لوگ ہوتے ہیں ان لوگوں کا الل کے ساتھ کیا راز وابستہ ہے یہ جاننا
مشکل ہے -
صوفی نقطہ نظر کے مطابق مجذوب وہ سالک ہے جسے اللہ نے اپنے نفس کے لئے پیدا
کیا اور پسند کیا
ان پر اللہ ھو کے زکر کی مستی کا غلبہ طاری ہوتا یہ نظریہ وحدت الوجود پر
ایمان رکھتے ہیں یعنی ھر شے میں اللہ ہی موجود ہے جیسا کے حضرت جنید بغدادی
نے فرمایا تھا کہ
"میرے جبے میں کچھ نہیں سوائے اسکے کہ اللہ ہی موجود ہے"اسکا مطلب یہ ہو
سکتا ہے کہ میرے وجود کی بالکل نفی ہو چکی ہے اور میں فنا سے گزر کر بقا
بااللہ میں داخل ہو گیا ہوں مگر اللہ کا بندہ ہی ہوں
وحدت الوجود کا تصور کرنے والے اکثر اللہ نور السموت والارض کا تصور کرتے
ہیں جسکی بنا پر انہیں ہر شے میں خدا تعالِی کا تصور ہونے لگتا ہے -
مجزوب کی عزت و تکریم اپنی جگہ مسلم ہے اور انکی گستاخی سے ایمان جانے کا
بھی خطرا ہوتا ہے کیونکہ آخر یہ اللہ والے ہوتے ہیں اور اللہ کے ہاں بہت
خاص مقام و مرتبہ رکھتے ہیں ماہنامہ عبقری میں ایک شخص لکھتے ہیں کہ انکے
گاؤں کے ساتھ والے گاؤں میں ایک جادوگر کا بہت چرچا تھا کہ انکے پاس جو جس
حاجت کے لئے جائے وہ ضرور پوری ہوتی ہے اور انکے منہ سے نکلا ہوا ہر لفط
حقیقت کا روپ دھارتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میری ان سے ملاقات ہوئی
تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے اتنا بڑا درجہ حاصل کر پائے پیری مرشدی
کا تو میرے اصرار پہ وہ کہنے لگے کہ میں غریب شخص تھا مزدوری کرتا تھا ایک
دن میں نے راستے میں کیک خراب حال آدمی کو دیکھا جو میل سے اٹا ہوا مست
حالت میں دنیا و مافیہا سے بے خبر چل رہا تھا مجھے اسکے حھیے پہ ہنسی آئ
مگر پھر خیال آیا کہ یہ مجزوب لگتا ہے کیوں نہ اسے آزماؤں...میں نے اسکی
آزمائش کی خاطر درود شریف پڑھنا شروع کر کہ وہ مجزوب نے ایک دم پیچھے دیکھا
اور چلایا" میری آزمائش کرتے ہو"وہ لکھتے ہیں کہ اب مجھے مکمل یقین ہو چکا
تھا کہ یہ مجزوب ہے اس لئے میں اسکے پیچھے ہو لیا کہ اس سے کوئی دعا کرواؤں
مگر وہ پیچھے مڑا اور ہاتھ اٹھا کر کہا ایک سال بعد ملاقات ہو گی میں
مایوسی سے واپس ہو لیا...وقت گزرتا گیا میں مجزوب کی بات کو بھی تقریباً
بھول چکا تھا کہ ایک روز آٹھی رات کےوقت میرے گھر کا دروازہ زور سے کھٹکنے
لگا تو وہ لکھتے ہیں کہ میں چاکو لے کہ ڈرتے ڈرتے گیا تو سامنے وہی مجزوب
کھڑے تھے میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور پھر رہ صحن میں بیٹھ
گئے ..میں اور میری بیوی بھی وہیں آ بیٹھے ہم دونوں ارادے باندھتے رہے کہ
یہ بہت کرینگے اس دعا کا کہیں کے مگر ہم کچھ نہ بول پائے یہاں تک کے صبح ہو
گئی اوروہ جانے لگے تو میں بھی آگے بڑھا تو وہ بولے "اللہ کرم کریگا" تو وہ
لکھتے ہیں کہ مجزوب کے بس انہی تین الفاظ نے میری دنیا بدل میں زبان سے جو
جملہ ادا کرتا وہ حقیقت ہو حاتا بس یہی میری پیر اور جادوگری کا راز ہے -
یہ اللہ والے ہوتے ہی ایسے ہیں...اکثر ان کے ایک جملے سے زندگیاں بدل جاتی
ہیں اور انکے ایک ہی جملے سے اجیرن ہر جاتی ہیں یہ اللہ کے بہت قریب ہوتے
ہیں یہ اپنی زبان میں بہت تاثیر رکھتے ہیں کہا جاتا ہے کہ ایک مجزوب اللہ
ھو کی مستی میں چلا جا رہا تھا ..بارش کی وجہ سے رستوں پرکیچر پھیلا ہوا
تھا مجزوب کے پیچھے ایک شادی شدہ جوڑا آ رہا تھا مگر مجزوب کو یہ معلوم
نہیں تھا ...انہوں نے ایکدم زورسے کیچڑ میں قدم رکھا تو پیچھے آنے والی
دوشیزہ کے کپڑوں پہ کیچڑ کے چھینٹے پڑ گئے اسکےشوہرسے یہ برداشت نہ ہوا اس
نے مجذوب کوبرا بھلا کہا ,مارا پیٹا اور مجذوب کی معافی پہ اپنے گھر کو چل
دیا ..اسکا گھر نزدیک ای تھا...اس نے گھر کی داخلی سیڑھیوں پہ جونہی قدم
رکھا،وہ پھسل کر گیا اور فی الوقت
ہی وفات پا گیا ..چند شریر لڑکوں نے مجذوب سے کہا آپ نے اسے بددعا کیوں دی
تو انہوں نے کہا واللہ میں نے کوئی بددعا نہیں دی تو ان لڑکوں نے کہا کہ
پھر وہ ایسے اچانک کیسے مر گیا تو مجذوب بولے کہ اچھا مجھے ایک بات بتاؤ وہ
شخص مجھ پہ کیوں برہم ہوا تھا حالانکہ کیچڑ کے چھینٹے اس کے کپڑوں پہ تو
نہیں پڑے تھے تو وہ لڑکے بولے کہ بھلے اسکے کپڑوں پر چھینٹے نہیں پڑے مگر
اسکی محبوبہ کے کپڑوں پر تو پڑے تھے اور اس سے یہ برداشت نہیں ہوا تو پھر
مجذوب نے مسکرا کر کہا تو پھر میرا بھی تو کوئی عاشق ہے (سبحان اللہ)
اسی واقعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مجذوب اللہ کے کتنے
قریب ہوتا ہے قریب ہوتا ہے اور اللہ
کو اس سے کتنی انسیت ہو تی ہے
سید سلیمان ندوی سے پوچھا گیا کہ تصوف کیا ہے تو آپ
نے فرمایا کہ اپنے آپ کو مٹا دینےکا نام تصوف ہے
اور جب اللہ کے عشق میں خود کو مٹا دیے جائے فنا کر دیا جائے اپنی میں کو
ختم کر دیا جائے تو پھر وہ شخص ولایت تصوف مجذوبیت اور کشف کے دائرات میں
داخل ہوتا ہے
میرا ایک شعر ہے کہ
کبھی دیکھا ہے عشق میں تو نے وجدان کا عالم
وہ بس توہی تو اور توہی تو کا عالم
مجذوب عشق الہی سے سرشار ہمیشہ وجدان کے عالم میں ہوتا ہے اسے ہر شے میں
اللہ کا خیال ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے "تم جس طرف بھی نظر
اٹھاؤ گے تمہیں اللہ کا چہرہ (نور)نظر آئے گا(البقرہ)جیسے منصور حلاج ے
اناالحق کہاتھا کیونکہ یہ فنا سے گزر کر بقابااللہ میں داخل ہو چکے ہوتے
ہیں یہ اپنی شناخت کومٹا چکے ہوتے ہیں یہ عشق الہی میں مٹی کی مانند پس چکے
ہوتے ہیں''
اور جب یہ جزب میں ہوں وجد میں ہوں اور ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ بھی دیا
جائےتو بھی انہیں تکلیف نہیں ہوتی کیوں کہ انکی وہ حس جو درد محسوس کرتی ہے
مردہ ہو چکی ہوتی ہے
عام لوگ انہیں پاگل خیال کرتے ہیں مگر یہ تو خود کو خدا کے عشق میں
فنا کیے بیٹھے ہوتے ہیں ان اللہ والوں کو سمجھنا اتنا آسان نہیں در
حقیقت انکا اللہ سے ایک خاص تعلق
ہوتا ہے جو عام انسان کی فہم و
ادراک سے بالاتر ہے بس ان مجذوبوں کی ساری دنیا اللہ اور اللہ ھو ہوتی ہے |