عصر حاضرمیں امت مسلمہ کعبہ و
کلیسا کی کشمکش میں، مشرق ومغرب کے مابین معلق ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے فکر
وعمل میں معرکہ ایمان و مادیت برپا ہے۔ اسلامی معاشرے کی غالب اکثریت تو
ابھی تک پرانی روایات اور قدیم نظام اقدار سے وابستہ ہے، جبکہ معاشرے کا
بااثر، صاحب ثروت اور مغربی تہذیب کا دلدادہ طبقہ، بدقسمتی سے جس کے ہاتھوں
میں معاشرے کی باگ ڈور بھی ہے، وہ مغربی تہذیب کو ہی معراج کمال سمجھتا ہے
اور اس فکر و نظر کی کجروی کے باعث اپنے مرکز سے دور ہوتے ہوئے مکمل طور پر
ملّی اقدار اور اصل تشخیص کی نفی کرتے ہوئے اپنے سودوزیاں کا احساس بھی
کھوبیٹھتا ہے۔ پھر ایک بااثر طبقہ ہمارے چند ادیبوں، دانشوروں، عالموں اور
تعلیم وتعلّم سے وابستہ افراد کابھی ہے، جس کی لغت میں اپنی روایات و
اقدار، بنیادی تصورات، اپنے دین سے بے توجہی اور بے نیازی کا نام آفاقیت،
وسیع المشربی، رواداری اور روشن خیالی ہے۔ یہ طبقات آج بھی مغرب کے ان
مستشرقین کے تزویراتی خیالات کو سند کا درجہ دیتے ہیں جو آئے دن ان جدید
افکار و نظریات کو قرآن وحدیث کے حوالے سی عین اسلام ثابت کر کے دکھانے کی
سعی لاحاصل کرتے رہتے ہیں۔
اس حقیقت سے ہر باشعور شخص خوب اچھی طرح واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی
’علم کامل‘ ہے اور اس کی ان گنت صفات عالیہ میں سے ایک صفت ہے۔ وہ علیم
بذات الصدور ہے، یعنی جو ہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ تو اس کو بھی
بخوبی جانتا ہے۔ اس کے برعکس مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے
جو انتہائی محدود ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر وہ جتنا
چاہے (سورة البقرہ 255
)۔پھر انسان کے اس وہبی علم میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔
انسان علم دوذرائع سے حاصل کرتا ہے، ایک علم وحی ہے اور دوسرا علم کسبی
(acquired knowledge) انسان کی دلآویز شخصیت کےلئے ان دونوں علوم کے ارتقاء
میں ایک توازن قائم رہنا ضروری ہے۔ بسا اوقات انسان کا کسبی علم، محدود عقل
وفہم کی بنا پر ناقص ثابت ہوتا ہے اور پھر یہی نقص انسان کی خود ساختہ
توجیہات اور تاویلات سے اس کےلئے فکرو عمل کی گمراہی کا باعث بن جاتا ہے۔
بقول علامہ یوسف القرضاوی ”انسان کا ناقص فہم دین اس کےلئے وبال جان بن
جاتا ہے۔ اس کی بصیرتی اور بے بضاعتی سے مراد وہ کم علم لوگ ہیں جو اپنے
ناقص علم کے باوجود اس خوش فہمی میںمبتلا رہتے ہیں کہ وہ علماء کے زمرے میں
شامل ہو گئے ہیں، حالانکہ دین کی بہت سی باتوں کووہ جانتے ہی نہیں اور جو
کچھ وہ جانتے ہیں وہ یہاں وہاں کی کچھ سطحی اور غیر مربوط باتیں ہوتی ہیں۔
ان کے علم میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی۔ وہ نہ جزئیات کو کلّیات سے مربوط کر
پاتے ہیں اور تعارض اور ترجیح کے فن سے آگاہ ہوتے ہیں اور نہ متشابہات و
ظنیّات کو محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اذج ایسے ہی بہت سے ”اہل تجاذب“ جنہیں جدیدیت کے ماحول میں سیکولر دانشور
کہا جاتاہے، سیکولر سے مراد وہ معاشی، معاشرتی و تعلیمی نظام لیتے ہیں، جس
کی اساس سائنس پراستوار ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت
کی گنجائش نہ ہو جبکہ سیکولرازم کی اصل تعریف یہ ہے کہ ”انسانی زندگی کے
اجتماعی امور یعنی سیاست، معیشت اور معاشرت سے اللہ کی دی ہوئی تعلیمات کو
یکسر خارج کردیا جائے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہ بنیادی غلطی تھی جو دین
کے دائرے میں کی گئی، کیونکہ انسانیت کو حیات انسانی کے ان اجتماعی گوشوں
میں اللہ کی رہنمائی کی شدید ضرورت تھی اور اس عالم کی بساط لپیٹے جانے تک
رہے گی۔ ان اہم ترین گوشوں میں اللہ کی عطا کی ہوئی رہنمائی اور ہدایات کے
علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ جس کو اختیار کر کے انسان ان
معاملات میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکے۔
علم ناقص کے کینوس کو پھیلایا جائے تو ہمارے کچھ دانشور یہ دعویٰ بھی کرتے
نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ اسلام ایک
ضابطہ ¿ حیات ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ان حضرات کو مطالعہ قرآن حکیم کے دوران
یہ نظر نہ آیا کہ اس میں معاشرتی زندگی کے متعلق احکامات دیئے گئے ہیں،
سیاسی زندگی کے اصول ومبادی بتائے ہیں، معاشی و اقتصادی تعلیمات واضح طور
پر موجود ہیں۔ نجی اور خانگی زندگی کے اصول بتائے گئے ہیں، یہ سب کیا ہے؟
ان آیات بیّنات کی موجودگی کے باوجود، کیا پھر بھی اسلام ضابطہ حیات نہیں
ہے۔ پھر یہ کہ قرآن نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں بہترین
نمونہ کا تذکرہ کیا ہے۔ بفحوائے قرآن حکیم-ترجمہ:(مسلمانو)! تمہارے لئے
اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔ (سورة الاحزاب 21)
کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ جامع الصّفات ہونے کے ناطے
ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی نہیں کرتی؟ قرآن حکیم میں اسلام کےلئے مذہب کی
بجائے دین کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور اصل دین وہی ہوتا ہے، جس میں
زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے جامع رہنمائی موجود ہو اور ان ہی صفات کا
حامل دین تمام عالم کے ادیان پر غالب رہتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے-ترجمہ: ”وہی
تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے سب دینوں
پر غالب کر دے۔“ (سورة التوبہ،سورة الفتح،سورة الصف)
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم میں اسلامی ریاست کا کوئی ڈھانچہ موجود
نہیں ہے۔ حالانکہ اگر سورةالحج کی آیت 41 کا مطالعہ کریں تو صورت حال واضح
ہو جائے گی۔ اللہ فرماتا ہے-ترجمہ: ”(اللہ کے دین کی مدد کرنے والے) وہ لوگ
ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰة ادا
کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں اور سب کاموں کا انجام
تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اسلامی حکومت کے نصب العین اورحکمرانوں کی اساسی ذمہ
داریوں کو صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ
آجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کس چیز کا نام ہے۔ پولیٹیکل سائنس کا ایک ابتدائی
طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ حکومت کے بغیر ریاست کا تصور ممکن ہی نہیں
اور ریاست کے بغیر حکومت بے بنیاد ہے۔ ریاست اگر تصور ہے تو حکومت اس عمل
کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اس طرح حکومت و ریاست ایک دوسرے کےلئے لازم وملزوم
ہیں۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ اپنے مضمون ”اسلام کیا ہے“ میں لکھتے ہیں کہ
”ہمارے عقیدے کے مطابق اسلام کسی ایسے دین کا نام نہیں جسے پہلی مرتبہ رسول
اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش کیا ہو اور اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و
سلم کو بانی اسلام کہنا درست ہوگا۔ قرآن اس امر کی پوری صراحت کرتا ہے کہ
اللہ کی طرف سے نوع انسانی کےلئے ہمیشہ ایک ہی دین بھیجا گیا اور وہ ہے
اسلام، یعنی اللہ کے آگے سر جھکا دینا۔ اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور چند
عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک جامع سسٹم (مکمل ضابطہ حیات) ہے جو
دنیا سے زندگی کے تمام ظالمانہ اور مفسدانہ نظاموں کو مٹانا چاہتا ہے اور
ان کی جگہ ایک اصلاحی پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے جس کو وہ انسانیت کی فلاح
وبہبود کےلئے بہتر سمجھتا ہے“۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:”دنیا کی پوری زمین میرے
لئے مسجد بنادی گئی ہے“ چنانچہ دنیا کے تمام علاقوں اور حصوں سے اسلام کا
گہرا ربط وتعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے نہ غربی بلکہ یہ صحیح معنوں میںایک
عالمگیر اورآفاقی نظام زندگی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ
تعالیٰ نے صرف ’رحمت المسلمین‘ نہیں بلکہ ’رحمت اللعالمین‘ بنا کر دنیا میں
بھیجا ہے۔ سیکولر ازم سے اسلام کا بنیادی اور جوہری اختلاف اس کے اس دعوے
کے باعث ہے کہ سیکولرازم، مذہب سے کسی نوع کے تعلق، اللہ تعالیٰ کی طرف سے
رہنمائی اور مطلق اخلاقی اقدار کے بغیر تمام انسانی مسائل کا حل پیش
کرتاہے۔ یہ نظریہ اسلامی فکر وفلسفہ کے قطعی برعکس ہے اور اس میدان میں
اسلام اور سیکولرازم میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے۔ ایک نظریہ حیات انسانی کے
چند گوشوں کی نمائندگی کرتا ہے، تو دوسرا انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور
تمام پہلوو ¿ں کی فوز و فلاح کا علمبردار ہے۔
|