حکیم محمد سعید شہید پر پی ایچ ڈی تحقیق اور عذرا قریشی۔ ایک مکالمہ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
سابق چیف لائبریرین۔آغا خان
میڈیکل یونیورسٹی‘ کراچی
( یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے کیا جو موضوع کی
تحقیقی ضرورت تھا۔ پاکستان میں لائبریری پروفیشنلز میں عذرا قریشی اعلیٰ
مقام و مرتبہ کی حامل ہیں۔ جامعہ کراچی کے علاوہ امریکہ سے بھی لائبریری
سائنس میں ایم اے کی سند رکھتی ہیں۔ پاکستان کے علاوہ جامعہ جدہ کی
لائبریری میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ امریکن سینٹر کے علاوہ آغا خان
یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے کی سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ اس وقت
اعزازی طور پر کراچی کے اسکول آف لائبریرین شپ سے استاد کی حیثیت سے منسلک
ہیں ۔ میرا یہ اعزاز بھی ہے کہ عذرا قریشی اور مَیں ۱۹۷۲ء میں جامعہ کراچی
کے شعبہ لائبریری سائنس میں ایم اے کے طالب علم رہے۔ یہ انٹر ویو میرے پی
ایچ ڈی مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’ پاکستان میں لائبریری
تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار ‘‘
۔ اس تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری
تفویض ہوئی ۔جس سال مجھے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تویض ہوئی یہی سال سرکاری ملازمت
سے میری ریٹائرمنٹ کا بھی تھا۔ گویا مجھے بہت لیٹ یہ اعزاز حاصل ہوا اس کی
متعدد وجوحات رہیں۔ اس موقع پر عذرا قریشی کی مبارک باد کے ساتھ ایک جملہ
بھی تحریر تھا جو میں اکثر احباب کو بتا یا کرتا ہوں کہ ’’محنت رنگ لاتی ہے‘‘۔
انگریزی میں ان کے متعدد مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ یہ انٹرویو۱۱ جنوری ۲۰۰۵ء
کو ہیلتھ سائنسز لائبریری ، آغا خان میڈیکل یونیورسٹی‘ کراچی میں لیا گیا۔
شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت ، خدمات اور تحقیقی موضوع کے حوالے سے عذرا
قریشی صاحبہ کے رائے اور خیالات اس گفتگو کے نتیجہ میں سامنے آسکے جو تحقیق
میں معاون ثابت ہوئے)
تعارف :
عذرا قریشی صا حبہ پاکستان کی ایک سینئر لائبریرین ہیں ۔ ۱۹۷۲ء میں جامعہ
کراچی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کیا ، ۱۹۹۰ء میں آپ نے اسی مضمون میں
دوسرا ایم اے کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی ، او ہائیوں ، امریکہ (Ohio, USA)سے کیا
۔اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز امریکن سینٹر کراچی سے کیا اور چھ
برس(۱۹۷۴ء ۔ ۱۹۷۹) خدمات انجام دیں، کنگ عبد العزیز یونیورسٹی ، جدہ میں
تین برس (۱۹۷۹ء ۔ ۱۹۸۲ء) لائبریری خدمات انجام دیں۔مئی ۱۹۹۱ء سے آغا خان
میڈیکل یونیوورسٹی کی ہیلتھ سائنسیز لائبریری کی سربراہ کے فرائض انجام دے
رہی ہیں۔ آپ پیشہ ورانہ سر گرمیوں میں بھی فعال ہیں آپ کو میڈیکل لا ئبریری
ایسو سی ایشن آف پا کستان (MELAP) کی بانی صدر ہو نے کا اعزاز بھی حاصل ہے،
پا کستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کی لا ئف ممبر ہیں ۔ عذرا قریشی صاحبہ سے
یہ گفتگو ان کے دفتر واقع ہیلتھ سائنسز لائبریری ، آغا خان میڈیکل
یونیورسٹی‘ کراچی میں۱۱ جنوری۲۰۰۵ء کو ہوئی۔
۱ : آپ نے لا ئبریرین شپ کا پیشہ کب اور کیسے اختیار کیا؟
ج : ایک حسن اتفاق ہی کہوں گی ، گورنمنٹ ویمن کالج سے بی اے کر کے جب میں
تھائی نیسٹو واپس گئی جہاں میری زندگی کے ابتدائی ۲۶ سال گزرے وہاں میرے
والد کا قیام ملازمت کے سلسلے میں رہا تو انہوں نے چاہا کہ میں کہیں نہ
کہیں مصروف رہوں ، جس میں سیکھنے کا عمل بھی جاری رہے۔ اسکول میں درس و
تدرس انہیں مناسب لگا، وہ عورتوں کی معاشی خود مختاری کے بھی حامی تھے۔
بیٹوں کی طرح وہ بیٹیوں کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا دیکھنا چاہتے تھے۔ اچھے
اسکولوں میں جہاں میرے لیے ملازمت ممکن تھی وہ انگریزی میڈیم امریکن اسکول
تھے جہاں وہ اپنے سسٹم کے تر بیت یافتہ لوگوں کو ہی رکھتے تھے۔ چنانچہ انٹر
نیشنل اسکول کی بچوں کی لائبریری میں مجھے عارضی کام کی پیشکش ہوئی ان کا
کوئی استاد دو چار ماہ کی چھٹی پر تھا وہ عارضی کام میرے لیے مستقل پیشے کی
صورت اختیار کر گیا۔
۲ : اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیں۔ لائبریری سائنس کی اعلیٰ تعلیم کب
اور کہاں سے حاصل کی؟
ج : میری ابتدائی تعلیم تھائی لینڈ اور پاکستان کے درمیان منقسم ہے۔
لائبریری سائنس میں ماسٹرز ۱۹۷۲ء میں کراچی یونیورسٹی سے کیا ، دوسرا MLIS
میں نے میڈیکل لائبریرین شپ میں سترہ سال بعد کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی ، او
ہائیوں ، امریکہ سے ۱۹۹۰ء میں کیا۔
۳ : آپ پاکستان میں لائبریری سائنس کا مستقبل کیسا دیکھتی ہیں؟
ج : لائبریری سائنس کا مستقبل دنیا میں بہت روشن ہے۔ افراد بھی جو اس کی
اہمیت پہچان لیں وہ اپنا مقام محنت ، لگن اور مسلسل علم حا صل کر کے بنا
سکتے ہیں۔ پاکستان میں البتہ پچھلے تیس سالوں میں اگر چیدہ چیدہ افراد اور
اداروں کو چھوڑ دیں تو معیار تعلیم مسلسل گر ا اور اب وقت بہت آگے نکل چکا
ہے بہت محنت اور وسائل درکارہیں بین الا قوامی معیار تک پہنچنے کے لیے۔ بہر
حال محنت اورامید دونوں کا دامن تھامے رہنا ضروری ہے اور مایوسی کفر ہے۔
۴۔ آپ لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانو ں کی تر قی میں حکیم محمد سعید
شہید کے کردار کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
ج : حکیم صاحب کا کردار بہت نمایاں ہے مگر ان کا اپنا ایک منفرد انداز اور
سوچ بھی ہے۔ وہ اسلامی معاشرہ ، اسلامی تعلیم اور اسلامی تشخص کے ساتھ جدید
یت کے حامی تھے اور اپنی قدروں کو زندہ رکھنا چاہتے تھے جو ان کے اپنے
طرززندگی اور قائم کر دہ اداروں میں بھی نظر آتا ہے۔
۵۔ اسپل(SPIL) سیمینار، ورکشاپس اور کانفرنسیز کے پا کستان لا ئبریرین شپ
پر کیااثرات مرتب ہو ئے؟
ج : اسپل (SPIL)کے حوالے سے اس کے طویل عر صہ پر محیط رہنے والے کام کو اگر
دیکھا جائے تو وہ ابتدائی دور میں کتب داری اور کتب خانوں کی دنیا میں بہت
حد تک اثر انداز ہوا بلکہ اس دنیا سے متعلق لو گوں کی حوصلہ افزائی اور سر
گرمی میں بڑی حد تک ممد و معاون ثابت ہوا، لیکن وہ اچھے وقت تھے اور اب وقت
کی رفتار و انداز بے حد مختلف ہے۔ اب با لکل دوسرے طرز کے لوگوں کی بھی
ضرورت ہے ان حالات سے نمٹنے کے لئے فی الوقت وہ قیادت نظر نہیں آرہی۔ شاید
کچھ عر صے بعد ابھر تی ہوئی نظر آئے۔
۶۔ کیا’’اسپل گولڈ میڈل ‘‘ پا کستان میں لائبریری تعلیم کے فروغ میں معا ون
ہو سکا؟
ج ـ: گولڈ میڈل چاہے اسپل کا ہو ، حکومت اوریونیورسٹی کی طرف سے ، ایوارڈ
ایوارڈ ہو تا ہے۔ہر اچھے کام کی حوصلہ افزائی انتہائی ضروری ہے اور انسان
کی فطرت کا ایک حصہ بھی۔ وہ پہچاننا اور اپنے کام کو منوانا چاہتا ہے۔ اﷲ
کی طرف سے بھی تو جزا اور سزا شاید یہی تصور پیش کر تا ہے کہ اچھے کاموں کا
صلہ جنت ہے اور جنت کے لیے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی والے کام اور مشقت ضروری
ہے۔ دنیا میں بھی وہ incentiveضروری ہیں تعلیم و تحقیق کے معیار کو بلند کر
نے کے لیے۔
۷ : آخر میں کیاآپ ا س موضوع کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گی۔ تحقیق کے نقطہ
نظرسے آپ اس موضوع کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
ج : حکیم صاحب ہم سب کے لئے قابل احترم اور علم دوست شخصیت تھے۔ وہ ایک بے
لوث محب وطن پاکستانی اور ایک سچے مسلمان تھے جن کی زندگی سب کچھ آسائش
میسر ہونے کے باوجود انتہائی سادگی اور مسلسل وطن عزیز کی خدمت میں گزری،
میں اور میرا گھرانہ ذاتی طور پر ان سے بہت لگاؤ اور محبت رکھتے ہیں۔
بحیثیت حکیم میرے والد ین ان کی تشخیص اور دواؤں پر بڑا اعتقادرکھتے تھے۔
میں بحیثیت لائبریرین بھی یہ سمجھتی ہوں کہ ان کی حوصلہ افزائی اور تحریک
کتب خانوں کے ملک میں فروغ میں نمایاں کردار ، ان کی کتاب دوستی یقینا اس
بات کا تقاضا کر تی ہے کہ اسے موضوع بناکر اس پر تحقیق ہو اور ان کی خدمات
پر مواد یکجا کیا جائے۔ آپ کی یہ کوشش قابل ستائش ہے کہ بسم اﷲ کر رہے ہیں
لیکن ان کی ہمہ جہت شخصیت کے لیے ایک مقالہ کافی نہیں ہوگا غالباً ابتدا ہو
گی مز ید تحقیق کے لیے۔اسے اس ڈھنگ سے کیجئے گا کہ مزید تحقیق کی راہ کھلے
اور موضوع سے مختلف پہلو نکلیں۔وہ ایک ہمہ گیراور ہمہ جہت شخصیت تھے ۔
تعلیم کو عا م کر نے کے لیے کو شاں تھے اورجا تے جاتے ’’مدینتہ الحکمہ‘‘
جیسا ادارہ پاکستان کو تحفے میں دے گئے۔ اﷲ تعالیٰ اسے دن دونی رات چوگنی
تر قی دے اور صحیح معنوں میں حکیم صاحب کے خواب کی تعبیر بنے۔ آمین۔
(یہ انٹر ویو۱۱ جنوری ۲۰۰۵ء کو ہیلتھ سائنسز لائبریری ، آغا خان میڈیکل
یونیورسٹی‘ کراچی میں لیا گیا) |
|