خطابت کی ’’بہار‘‘
(M. Ibrahim Khan, Karachi)
گزشتہ ہفتے ایک صبح کراچی کے
مشہور تعلیمی ادارے ’’کامیکس‘‘ کی انیلہ ندیم کے فون نے جگادیا۔ ہم معمول
کے مطابق روزنامہ دُنیا میں نائٹ شفٹ کرکے صبح پانچ بجے سوئے تھے۔ دو سال
پہلے کی طرح انیلہ ندیم نے ایک بار پھر ہمیں مقابلۂ خطابت میں گیسٹ آف آنر
کے طور پر مدعو کیا۔ ہم نے پہلے کی طرح پھر جاں بخشی چاہی کہ ہم کہاں اور
یہ ’’منصبِ جلیلہ‘‘ کہاں! بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی محفل میں جاتے ہوئے اب
دِل دُکھتا ہے۔ بیٹھے بٹھائے اپنی گزری ہوئی (یعنی تقریباً ضائع شدہ) جوانی
یاد آ جاتی ہے۔ ’’ضائع‘‘ ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ جوانی میں بھی ہم لکھنے
پڑھنے کے سوا کوئی تیر نہ مار سکے۔ ہاں، نوجوانی کے دور کو یاد کرکے اور آج
کے no-jawani کے دور پر ڈال کر وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کلکتہ کو یاد
کرکے غالبؔ کے دل و دماغ میں پیدا ہوا کرتی تھی۔ ع
اِک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
ہم نے انیلہ صاحبہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ گیسٹ آف آنر بننا بہت ذمہ داری
کا کام ہے۔ اور اگر بولنا بھی پڑے تو مزید اُلجھن ہوتی ہے کیونکہ اہلیہ
سامنے نہ ہوں تب بھی مجمع کو دیکھ کر ہماری آواز بیٹھ جاتی ہے۔ ایسے میں
گھرانوں والے اُستادوں کی طرح گلے سے کھرج کے سُروں کے سِوا کچھ برآمد نہیں
ہوتا!
ذمہ داری کا ذکر ہم نے صفیر اﷲ عرف لہری مرحوم کی مناسبت سے کیا۔ کئی سال
پہلے ایک ملاقات میں لہری صاحب نے بتایا تھا کہ کبھی وہ بھی مضمون نگاری
کیا کرتے تھے۔ ایک مضمون اُنہوں نے ہسپتال میں اپنے علاج کے حوالے سے لکھا
تھا۔ لہری صاحب لکھتے ہیں کہ جب بھی نرس آتی تو وہ کہتے نرس! فلاں دوا لاؤ،
نرس! انجیکشن لگاؤ، نرس! پانی لادو۔ تھوڑی ہی دیر میں نرس چڑ گئی اور کہنے
لگی۔ ’’آپ نرس نرس کیوں کر کر رہے ہیں، مجھے سِسٹر کیوں نہیں کہتے؟‘‘ اِس
پر لہری صاحب نے کہا۔ ’’ہم تمہیں سِسٹر نہیں کہہ سکتے۔‘‘ نرس نے سبب پوچھا
تو لہری صاحب نے کہا۔ ’’بھئی سمجھا کرو، یہ بہت ذمہ داری کا کام ہوتا ہے!‘‘
ہم نے بھی انیلہ صاحبہ کو یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں گیسٹ آف آنر نہ
بناؤ، یہ بہت ذمہ داری کا کام ہوتا ہے مگر وہ نہ مانیں اور حکم دیا کہ کل
صبح حاضر ہوجائیے۔ اور ہمیں سرِ تسلیم خم کرتے ہی بنی۔
تقریری مقابلے کے شرکاء یعنی طلباء و طالبات نے روسٹرم پر آکر دھواں دار
تقریریں کیں۔ خود کو انعام کا حقدار ثابت کرنے کے لیے طالبات ہی نہیں طلباء
نے بھی ایڑی کے ساتھ ساتھ ’’چوٹی‘‘ کا زور لگا دیا۔ لوگ حلق پھاڑ کر خطاب
فرماتے ہوئے عزت پانے کی کوشش کر رہے تھے اور ایک صاحب خاموش رہ کر عزت
پاگئے۔ شرکاء کے نام پُکارنے والے صاحب دائیں جانب بیٹھے تھے۔ طلباء اور
طالبات نے اپنی اپنی تقریروں کے دوران بار بار اُن کی طرف دیکھ کر ’’جنابِ
صدر‘‘ کہا اور اُنہوں نے ایک بار بھی تردید یا تصحیح کی زحمت گوارا نہ کی!
نئی نسل کو روسٹرم پر زورِ خطابت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ کر اپنا ’’دورِ
خطابت‘‘ یاد آجاتا ہے۔ اﷲ بخشے، ہماری جوانی خطابت سے مُزیّن ہوتے ہوتے رہ
گئی۔ جس زمانے میں ہمارے ساتھیوں کے دِل محبت کے جذبات اور سُریلی آوازیں
سُن کر دھڑکا کرتے تھے، ہمارا دل خطابت کی دعوت ملتے ہی ریلوے انجن کی طرح
دھک دھک کرنے لگتا تھا! جب کبھی اساتذہ نے بے حد اِصرار کے ساتھ ہمارا نام
تقریری مقابلے کے شرکاء کی فہرست میں شامل کیا، روسٹرم کی طرف جاتے ہوئے
ہمیں اپنے پاؤں من من بھر کے یعنی بہت ہی بھاری محسوس ہوئے! بھرے مجمع کو
مخاطب کرتے ہوئے ہمارے چَھکّے ایسے چُھوٹتے تھے کہ پھر اُنہیں پکڑنے پر
خاصا وقت ضائع ہوتا تھا!
ایک بار یاروں نے ہمیں تقریری مقابلے میں حصہ لینے کی تحریک دینے کی غرض سے
کہا کہ لڑکیاں عمدہ بولنے والے لڑکیوں پر مرتی ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ
بھائی! مری ہوئی لڑکیوں کا ہم کیا کریں گے!
کالج کے زمانے میں ایک بار دوستوں نے بہت اِصرار کرکے ہمیں بین الکلیاتی
تقریری مقابلے میں کھڑا کردیا۔ وہ (سامعین کے لیے بھی) قیامت کی گھڑی تھی۔
ہم کسی نہ کسی طور روسٹرم تک پہنچ تو گئے مگر الفاظ کہیں راستے ہی میں
دھرنا دے بیٹھے! الفاظ کو ہم تک پہنچنے میں چند لمحات لگے مگر اِتنی دیر
میں تو لوگ بے صبرے ہوگئے اور شور مچانا شروع کردیا۔ ہم نے بولنا شروع ہی
کیا تھا کہ پورے جسم کا خون سمٹ کر سَر میں سماگیا اور پھر آنکھوں کے آگے
اندھیرا چھاگیا۔ دو تین سیکنڈز کے بعد اندازہ ہوا کہ بجلی چلی گئی ہے! بجلی
کی فراہمی بحال ہونے میں دس سیکنڈ لگے۔ تب تک ہم ذہن بناتے رہے کہ کن کن
جملوں سے آڈینس کو متاثر کرنا ہے۔ دوسری طرف لوگ غالبؔ کے پُرزے اُڑتے ہوئے
دیکھنے کو بے تاب تھے!
جب ہم نے بولنا شروع کیا تو پورے ہال پر سنّاٹا سا چھاگیا۔ یہ دیکھ کر ہم
میں کچھ ہمت پیدا ہوئی اور ہم نے ساری ’’تیاری‘‘ ایک طرف کرتے ہوئے ’’فی
البدیہہ‘‘ بولنا شروع کیا۔ مجمع کی خاموشی مزید گہری ہوگئی۔ اپنی ہی دُھن
میں بولتے بولتے خیال آیا کہ ہر مُقرر کو زیادہ سے زیادہ تین منٹ بولنا ہے۔
تین منٹ گزر گئے مگر گھنٹی نہ بجی۔ ہم سمجھے شاید گھنٹی بجانے والا بھی
ہمارے مسحور کُن خطاب کی تاب لانے سے قاصر ہے! مزید دو منٹ گزر گئے مگر
گھنٹی نہ بجی۔ مجمع خاموش، مہمان خصوصی خاموش، منصفین خاموش۔ ہم حیران تھے
کہ یہ سب کو ہوا کیا ہے۔ جب ہم نے متعلقین کو یاد دلایا کہ گھنٹی بجائیں تو
صدرِ محفل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ’’بولتے رہو، مزا آرہا ہے!‘‘
یہ سُننا تھا کہ پورا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ ہم ذہین تو تھے ہی، فوراً
سمجھ گئے کہ ہمیں اُلّو بنایا جارہا ہے! ہمارے انٹ شنٹ جُملوں سے لوگ محظوط
ہو رہے تھے اور اِدھر ہم اپنی دُھن اور دانست میں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم سے
خطاب سَرزد ہو رہا ہے! فلک شگاف قہقہوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ ہمارا
خطاب دراصل کامیڈی کا ارتکاب تھا! ہم نے روسٹرم چھوڑا، اسٹیج سے اُترے اور
منتظمین سے شکایت کی کہ یہ تو سَفّاکی ہے، کسی کے ’’بھولپن‘‘ کا یُوں فائدہ
نہیں اُٹھانا چاہیے!
ہال سے کچھ ہوٹنگ نُما صدائیں بلند ہوئیں تو ہم نے ناراض ہوکر دوبارہ اسٹیج
کی طرف قدم بڑھائے۔ ہمیں انتقام کے موڈ میں دیکھ کر حاضرین کو پھر سانپ
سُونگھ گیا۔ ہم نے اِتنے ہی پر اکتفا کیا اور لمبے چوڑے پنڈال کی پتلی گلی
سے نکل لیے۔
بولنے کا مرحلہ ہم پر ہمیشہ ہی گراں گزرا ہے۔ شادی سے بہت پہلے بھی ہم کم
کم ہی بولا کرتے تھے! خاندان کے بُزرگوں سے سُنا ہے کہ ہم نے خاصی بڑی عمر
میں بولنا سیکھا تھا۔ گویا دُنیا میں شادی شدہ آئے تھے! چند برس قبل جب ایک
ٹی وی چینل سے وابستہ ہوئے تو مارننگ شو کے لیے ایکسپرٹ کی حیثیت سے بولنے
کو کہا گیا۔ ہم نے معذرت چاہی مگر پروڈیوسر نہ مانے اور بولے اچھا ہے کہ
ناظرین صبح کی تازہ ہوا کے ساتھ تھوڑا بہت مزاح سے لطف اندوز ہوں! یہ سلسلہ
دو تین ماہ چلا۔ پھر فریق ثانی نے معذرت کرلی۔ ہم نے سبب پوچھا تو بولے
ناظرین کی طرف سے شکایت آئی ہے کہ آپ سوچ سوچ کر بولتے ہیں! ہم نے وضاحت کی
کہ ہم انسان ہیں، کوئی اینکر نہیں!
طلباء و طالبات اپنی تقریر کو موثر بنانے کے لیے اُن میں اشعار ٹُھونس دیتے
ہیں۔ ایسی ہر تقریر پر کھچا کھچ بھری ہوئی منی بس کا گماں ہوتا ہے! چند ایک
طلباء چاہتے ہیں کہ تین یا چار منٹ میں تیس چالیس منٹ کا مواد بول جائیں۔
ایسی تقریر سُن کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بہت سا چارا لے کر باڑے میں آئے
اور ہر بھینس یہ سمجھے کہ سارا چارا اُسی کو کھانا پڑا ہے!
اگر طلباء تقریر کا فن سیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے والد کو دیکھیں۔ وہ گھر
میں کتنا بول پاتے ہیں؟ بس یہی مَردوں میں خطابت کا فن ہے! اور لڑکیوں کو
کبھی تقریر کے فن پر کوئی کتاب نہیں پڑھنی چاہیے۔ یہ فن اُن میں built-in
ہوتا ہے۔ اگر ہوسکے تو لڑکیاں کبھی کبھار
Why and When not to Speak
ٹائپ کی کوئی کتاب پڑھ لیا کریں!
’’معذور سہی، مجبور نہیں‘‘ قسم کے موضوعات پر بولنے والے طلباء و طالبات
ہیلن کیلر کا حوالہ ضرور دیتے ہیں جو پیدائشی طور پر قوتِ گویائی و سماعت
اور بصارت سے محروم تھیں۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ اسکول اور کالج کے
زمانے میں لڑکوں کو تقریری مقابلے میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔ اُن کے پاس
بولنے کے لیے یہی تین چار سال تو ہوتے ہیں۔ اِس کے بعد تو اُنہیں ہیلن کیلر
کی طرح زندگی بسر کرنی ہوتی ہے!
مہمان خصوصی محترم ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی نے اپنے پُرمغز خطاب میں
خطابت کے حوالے سے چند سنجیدہ مشورے دیئے۔ خیر گزری کہ ہمیں اُن سے پہلے
خیالات کے اظہار کا موقع عنایت کیا گیا۔ ہم چند ہلکے پھلکے جملوں سے حاضرین
کو کچھ ہنسانا چاہتے تھے۔ گو کہ مقابلہ خطابت کے شرکاء نے اِس کی گنجائش کم
ہی چھوڑی تھی! خیر، ہماری ’’سازش‘‘ کامیاب رہی۔ چند ہلکے پُھلکے جملوں کی
مدد سے ہم حاضرین کے ہونٹوں کو مزید مُسکراہٹ بخشنے میں کامیاب رہے۔ اگر
ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی پہلے خطاب کر جاتے تو سب سنجیدگی میں ڈوبے رہتے
اور ہماری باتوں کا اُتنا اثر بھی نہ ہوتا جتنا گھر میں ہوتا ہے! |
|