پتھرائی آنکھیں
(Shah Faisal Naeem, Lahore)
"تم بڑی باتیں کرتے ہو، یہ غلط
ہو رہا ہے ، وہ غلط کر رہا ہے، اب کل جو کچھ پشاور میں ہوا وہ سب تمہیں نظر
نہیں آتا ؟ یا تم بھی بدلتی ہوا کا رخ دیکھتے ہواگر میں سادہ الفاظ میں
کہوں تو تم بھی شاہوں کے ثنا ہ خواں ہو"۔
وہ مجھ پرالفاظ کے حملے کرتا جا رہا تھا اور میں اُس کےہر گاؤ کی عزیت کو
اپنے دل پر محسوس کررہا تھا مگر میرے الفاظ میں وہ وقعت نہیں، میرے قلب میں
وہ رقت نہیں اور میرے الفاظ اور اعمال میں وہ مطابقت نہیں میں کیا لکھوں؟کس
کے نام لکھوں؟ میرے گھر صفِ ماتم بچھی ہے، میرے لوگ مر رہے ہیں، میرے شہر
جل رہے ہیں مجھے بتائے کوئی میں اس کہانی کا کیا عنوان لکھوں۔
میرے دوست مجھے دئیے گئے الفاظ قوم کی امانت ہیں مگر کیسے اُس روتے شخص کی
کہانی کو صفحہِ قرطاس پہ اُتاروں جو کہہ رہا تھا:
"یارو ! ہم نے بیس سال میں اپنے بچوں کو پالا ہے اُنہوں اس قابل بنایا ہے
کہ وہ تعلیم کے اس مقام تک پہنچ سکیں۔ مگر آنے والے کی ستم ظریفی دیکھو
لوگو ! آنے والے نے بیس منٹ بھی نہیں لگائے اور سب ختم کر دیا ہے"۔
میرے بھائی میں اُس ماں کی کہانی لکھوں جس کے بیٹے کی نعش اُس کے سامنے ہے
مگر اُس کی آنکھوں میں آنسو نہیں یوں لگتا ہے اُس ماں کا من آنسوکے سمندر
میں غرق ہو چکا ہے اور طوفان نےجو تباہی مچائی ہے اُس کے بعد شہر کی فضا
میں ہو کا عالم ہے۔ مجھے بتاؤ یار و! وہ ماں اب صبح سویرے کس کے لیے اُٹھا
کرے گی، کسے کہاں کرے گی اُٹھو میرے لعل سکول جانے کا ٹائم ہو گیا ہے، اُٹھ
بھی جاؤ نا ماما کی جان، وہ اب کس کے ہاتھ میں لنچ بکس تھماتے ہوئے کہے گی
میرے بچے دھیان سے سکول جانا؟جب بچوں کو سکول سے چھٹی کا وقت آئے گا تو
دروازے کی اوٹ میں کھڑی اُداس ماں کس کا انتظار کرے گی؟
اُس باپ کو سہارا اب کون دے گا؟ جس نے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے اپنی اولاد
کے لیے ۔ جو روز کہتا تھا میرا بیٹابڑا ہو کر یہ بنے گا ۔۔۔۔۔میرا بیٹا بڑا
ہو کر وہ بنے گا۔۔۔۔۔۔۔۔میں اُس بہن کے آنسوؤں کا کیا کروں جو "بھائی اُٹھو
نا۔۔۔۔۔۔بھائی اُٹھو نا۔۔۔۔۔۔۔۔بھائی اُٹھو نا" کہتے ہوئے اپنے حواس کھو
بیٹھی ہے۔جس کا ہر لفظ میرے دل میں نشتر کی طرح لگتا ہے جو اپنے بھائی کے
لاشے سے لپٹی کہہ رہی ہے:"اب مجھے سکول چھوڑنے کون جائے گا۔۔۔۔۔۔مجھے شہر
دکھانے کون لیجائے گا۔۔۔۔۔۔میری کلائیوں کے لیے چوڑیاں کون لائے
گا۔۔۔۔۔۔۔۔میں اپنی عیدیں کس کےساتھ مناؤں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کس پہ مان کروں
گی۔۔۔۔۔۔میں کس پہ نثاراپنی جند جان کروں گی"؟
کیا میں اُس بوڑھی دادی کی داستانِ ستم لکھوں جس کی سانسیں ہی اُن ننھی
کونپلوں کے وجود سے چلتی تھیں۔۔۔۔۔۔مجھے بتاؤ لوگوں اُس کی دنیا میں اب
خوشیاں کون لائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔؟اُسے اب کہانیاں سننے کے لیے رات گئے تک کون
جگائےگا ۔۔۔۔۔۔۔؟اُس اپنی چھوٹی چھوٹی شرارتوں سے کون ستائے گا۔۔۔۔۔۔۔؟
یا میں اُس بوڑھے دادے کی بات کروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسے ساٹھ سال نے اتنا بوڑھا
نہیں کیا جتنا اس ایک دن نے کردیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ سوچتا ہے میں اب کس کا بازو
پکڑے اُس بازار گھومانے لیجاؤ ں گا۔۔۔۔۔۔؟ عیدیں آئیں گی تو میں بکرے کی
رسی کس کے ہاتھ پکڑاؤں گا ۔۔۔۔۔۔میں مسجد میں نمازپڑھنے کسے ساتھ لیجاؤں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ سوچتا ہے کہ میں کس کا نام لیکر لوگوں کو بتاؤں گاکہ
"میرا یہ پتر ایک دن میرا نام روشن کرے گا۔۔۔۔۔۔۔اس میں ملک و قوم کے لیے
کچھ کرنے کی لگن ہے"۔
بس میرے بھائیوں میرے پاس اور کچھ نہیں سوائے ندامت کے آنسوؤں کے
۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے رونا نہیں آتا مگر آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خدایا۔۔۔۔۔۔۔میرے ملک پر رحم فرما۔۔۔۔۔۔۔۔!
کہاں ہے ارض و سما کا مالک کہ چاہتوں کی رگیں کریدے
ہوس کی سُرخی رُخِ بشر کا حسیں غازہ بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا ادھر بھی دیکھے، کوئی تو چارہ گری کو اُترے
اُفق کا چہرہ لہو میں تر ہے ، زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے |
|