یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔ لیکن، ماضی کی ہر یاد عذاب نہیں
ہوتی۔ اسی لئے،اگر کوئی اداس یا پریشان ہو، تو اسے کہا جاتا ہے کہ اپنے
ماضی کے کسی خوشگوار واقعے کو یاد کرے۔ مثال کے طور پر، اگر وہ کبھی کسی
خوبصورت مقام کی سیر پر گیا ہو، تو آنکھیں بند کرے اور اس منظر کو اپنے
تصور میں دیکھے۔۔ تو، اس کا موڈ بہتر ہو جاتا ہے۔
لیکن، اگر اسی طرح، انسان اپنے ماضی کے کسی دردناک یا خوف ناک واقعے یا
منظر کو یاد کرے، تو اس کا انسان پر بڑا منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ اور شاید اسی
احساس کے حوالے سے، کسی شاعر نے کہا تھا کہ، یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین
لے مجھ سے حافظہ میرا۔
|
|
کچھ عرصہ قبل کراچی میں ذہنی صحت کے ایک فلاحی ادارے کاروان حیات کی جانب
سے شہر میں لگائے گئے بڑے بڑے اشتہاروں پر لکھا تھا کہ چار پاکستانیوں میں
سے ایک کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہے۔
ادارے کے سربراہ، ڈاکٹر سلمان کاظم نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے
بتایا ہے کہ لوگوں میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل کی وجہ ملک میں آئے دن ہونے
والی دہشت گردی اور جرائم کی وارداتیں اور ملک کی خراب معاشی اور معاشرتی
صورت حال ہے۔
دو روز قبل، پشاور آرمی پبلک اسکول میں ہونے والی ملکی تاریخ کی اپنی نوعیت
کی سب سے بڑی دہشت گردی نے نہ صرف وہاں شہید ہونے والوں کے خاندانوں پر بہت
گہرا اثر ڈالا، بلکہ اس دہشت گردی میں بچ جانے والوں اور ساتھ ہی ساتھ، ان
بیشمار لوگوں کی ذہنی صحت پر بڑا منفی اثر ڈالا، جنھوں نے اس خبر کو سنا،
پڑھا اور خصوصاً بار بار ٹی وی پر دیکھا۔
کراچی کے ساوٴتھ سٹی اسپتال میں فرائض دینے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر فیصل
ممسا نے بتایا ہے کہ وہ لوگ جو براہ راست اس دہشت گردی سے متاثر ہوئے وہ
سارا دن بے انتہا گھبراہٹ، بے چینی، پریشانی اور غیر یقینی کیفیت سے گزرے
کہ پتا نہیں کہ ان کا بچہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ وہ بچے جو اس دہشت گردی میں زندہ بچ گئے، لیکن
انھوں نے اپنی آنکھوں سے یہ المناک منظر دیکھا، ان کی نفسیات پر پڑنے والے
کچھ فوری اثرات اور کچھ ایسے اثرات ہوں گے جو وقت کے ساتھ، ہو سکتا ہے کہ
تین چار ہفتوں سے لے کر چھ ماہ کے بعد ظاہر ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ایسے شدید صدمے سے اس وقت انسان بلکل سن ہو جاتا
ہے۔ وہ انسان پریشانی، گھبراہٹ، بے چینی اور شدید دباؤ میں ہوتا ہے۔ لیکن،
اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر پاتا اور کچھ دنوں بعد جب انسان یہ سمجھ پاتا
ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور اس کے نتیجے میں انسان شدید مایوس اور غمگین
ہو سکتا ہے، اور بچوں میں یہ مایوسی بہت ہی الگ طرح ظاہر ہوتی ہے۔ ہو سکتا
ہے کہ بچہ کھانا پینا چھوڑ دے، بات چیت کرنا کم کر دے، ملنا ملانا اور باہر
جانا چھوڑ دیے اور اس صورت حال میں بچوں کا ماہر نفسیات ہی مددگار ثابت ہو
سکتا ہے۔
ڈاکٹر فیصل ممسا نے کہا کہ ایسے دہشتناک واقعے کے ہفتوں یا مہینوں بعد ایک
بہت ہی سنگین مسئلہ ’پوسٹ ٹرو میٹک اسٹریس ڈس آرڈر‘ کی صورت میں نمودار ہو
سکتا ہے، جس کا باقائدہ علاج نہ کیا جائے تو انسان کی باقی تمام زندگی اس
سے متاثر ہو سکتی ہے۔ اور بیٹھے بیٹھے یا سوتے میں وہ تمام سانحہ ان کی
نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور وہ بے انتہا بیچین ہو جاتے ہیں۔
|
|
جن لوگوں نے اس سانحے کی خبر کو بار بار ٹی وی پر دیکھا ان کے بارے میں
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میڈیا اس خبر کو بار بار دکھاتا ہے اور متاثرین سے
ایسے ایسے سوالات پوچھتا ہے جس سے ان کا درد بار بار تازہ ہوجاتا ہے؛ اور
ٹی وی پر ان مناظر کو دیکھنے والے نہ صرف دباوٴ کا شکار ہوجاتے ہیں، بلکہ
انتہائی مایوسی کی حالت میں آجاتے ہیں۔ مثلاً وہ خود اس بارے میں کچھ کرنے
سے قاصر ہیں، جب کہ ان کی جان کی حفاظت نہیں ہو پارہی ہے۔
ماہرین کے مطابق، اس دہشت گردی کا شکار ہونے والے تمام لوگوں کی کاوٴنسلنگ
ہونی چاہئے، جس میں ماہر نفسیات متاثرین کی مدد کرتے ہیں، تاکہ ان کو زندگی
میں اس دکھ کے باوجود آگے بڑھنے کے طریقے بتائے جائیں؛ اور اس سلسلے میں
پاکستانی اور امریکی ماہرین نفسیات کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے ادارے ’سائک
ہیلپ‘ کے ذریعے پشاور میں متاثرین کی مدد کر سکیں۔ |