اتحاد بین المسلمین……………… وقت کی اہم ترین ضرورت

اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دین اسلام ہی ہمارے اتحاد کی اصل بنیاد ہے۔ یہ مسلمانوں کی وحدت ملی اور فکر و عمل کا نام ہے۔ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ان میں کسی قسم کی تفرقہ بازی جائز نہیں۔ اس لیے ہر قسم کے انتشار و افتراق اور فرقہ بندی کے سدِباب کے لیے قرآن مجید میں بار بار مسلمانوں کو متحد رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے: واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا (آل عمران: 103) (ترجمہ) ’’اور مضبوطی سے پکڑ لو اﷲ کی رسی سب مل کر اور جُدا جُدا نہ ہونا‘‘۔ حضور نبی رحمتﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے اس مکان کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط رکھتا ہے۔ یہ فرما کر نبی اکرمﷺ نے اپنے ایک دستِ مبارک کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں پیوست کر کے بتایا کہ سارے مسلمان اس طرح باہم مربوط ہیں۔‘‘

مذکورہ آیت اور حدیث مبارکہ ہر مسلمان کو دعوت فکر دیتی ہے کہ اتحاد بین المسلمین عصر حاضر کا اساسی تقاضا ہے۔ نفاق، انتشار، باہمی آویزش، مناقشات اور چپقلش ملت اسلامیہ کے لیے سم قاتل ہیں۔ تاریخ پاک و ہند کے عمیق مطالعہ سے یہ حقیقت ہم پر بخوبی آشکار ہو جاتی ہے کہ برصغیر میں انگریز کے منحوس قدم آنے سے قبل مسلمانانِ ہند واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا پر پورے استحکام کے ساتھ عمل پیرا تھے۔ غیر منقسم ہندوستان میں ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک اسلامی سلطنت قائم رہی۔ تمام اسلامیان ہند کا ایک ہی مسلک رہا۔ لیکن مغلیہ سلطنت کے سقوط اور برطانوی راج کے بعد مسلمانان ہند اغیار کی محکومیت میں بے شمار معاشی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی مسائل کا شکار ہو گئے۔ انگریز بڑا عیار اور شاطر تھا۔ اس نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی۔ اس نے دیکھا کہ مسلمان باہم متحد و متفق ہیں اور اخوت و محبت، بھائی چارے کے زریں اصول اپنائے ہوئے ہیں۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ حضور نبی کریمﷺ کی محبت و عقیدت ہر مسلمان کے رگ و پے میں شامل ہے۔ ہر مسلمان نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لامحدود اور غیر مشروط محبت و احترام کرتا ہے اور یہی چیز دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کے اسی ایمانی جذبہ سے خائف تھیں اور ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے مسلمانوں میں تفرقہ بازی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ (Divide and Rule) کا ورلڈ آرڈر جاری کیا گیا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں کے درمیان معمولی اور فروعی اختلافات کو ہوا دی گئی۔ نفرت اور تعصب کی آگ کو بھڑکایا گیا۔ الغرض مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو توڑنے کی سازشیں ہونے لگی۔ چنانچہ اِ س فرقہ واریت کی بدولت کئی مسلمان اجتماعی اور ملی مفاد سے اختلاف کرنے لگے۔ قرآن مجید میں فرقہ بندی کے حوالے سے سخت وعید ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب مکرم حضرت محمد ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: (ترجمہ) ’’بے شک وہ جنھوں نے تفرقہ ڈالا اپنے دین میں اور ہو گئے کئی گروہ (اے نبی ﷺ) نہیں ہے آپ کا اُن سے کوئی تعلق، اِن کا معاملہ صرف اﷲ ہی کے حوالے ہے پھر وہ بتائے گا انہیں جو کچھ وہ کیا کرتے تھے‘‘۔ (الانعام:159)

مرشد قلب و نظر، اتحاد امت کے نقیب، ضیاء الامت حضرت پیر جسٹس محمد کرم شاہ الازہریؒ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’ضیاء القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یہ ایک بڑی دلخراش اور روح فرسا حقیقت ہے کہ مرورِ زمانہ سے اس امت میں بھی افتراق و انتشار کا دروازہ کھل گیا جسے واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا ولا تفرقوا کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ امت بھی بعض خود غرض اور بدخواہ لوگوں کی ریشہ دوانیوں سے متنازع گروہوں میں بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور جذبات میں آئے دن کشیدگی اور تلخی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس پراگندہ شیرازہ کو یک جا کرنے کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ انہیں قرآن حکیم کی طرف بلایا جائے اور اس کی تعلیمات کو نہایت شائستہ اور دلنشین پیرایہ میں پیش کیا جائے۔ پھر ان کی عقل سلیم کو اس میں غورو فکر کی دعوت دی جائے۔ ہمارا اتنا ہی فرض ہے اور ہمیں یہ فرض بڑی دل سوزی سے ادا کرنا چاہیے۔ اس کے بعد معاملہ خدائے بزرگ وبرتر کے سپرد کر دیں۔ وہ حی و قیوم چاہے تو انہیں ان شبہات اور غلط فہمیوں کی دلدل سے نکال کر راہِ ہدایت پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز۔

اس باہمی اور داخلی انتشار کا سب سے المناک پہلو اہلسنت و الجماعت کا آپس میں اختلاف ہے جس نے انہیں دو گروہوں (بریلوی، دیوبندی) میں بانٹ دیا ہے۔ دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفق ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی توحید ذاتی اور صفاتی، حضور نبی کریمﷺ کی رسالت اور ختم نبوت، قرآن کریم، قیامت اور دیگر ضروریات دین میں کلی موافقت ہے۔ لیکن بسا اوقات طرزِ تحریر میں بے احتیاطی اور اندازِ تقریر میں بے اعتدالی کے باعث غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور باہمی سوء ظن ان غلط فہمیوں کو ایک بھیانک شکل دے دیتا ہے۔ اگر تقریر و تحریر میں احتیاط و اعتدال کا مسلک اختیار کیا جائے اور اس بدظنی کا قلع قمع کر دیا جائے تو اکثر و بیشتر مسائل میں اختلاف ختم ہو جائے۔ اور اگرچند امور میں اختلاف باقی رہ بھی جائے تو اس کی نوعیت ایسی نہیں ہوگی کہ دونوں فریق عصر حاضر کے سارے تقاضوں سے چشم پوشی کیے، آستینیں چڑھائے، لٹھ لیے ایک دوسرے کی تکفیر میں عمریں برباد کرتے رہیں۔ملت اسلامیہ کا جسم پہلے ہی اغیار کے چرکوں سے چھلنی ہو چکا ہے۔ ہمارا کام تو ان خونچکاں زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ ان رستے ہوئے ناسوروں کو مندمل کرنا ہے۔ اس کی ضائع شدہ توانائیوں کو واپس لانا ہے۔ یہ کہاں کی دانش مندی اور عقیدت مندی ہے کہ ان زخموں پر نمک پاشی کرتے رہیں۔ ان ناسوروں کو اذیت ناک اور تکلیف دہ بناتے رہیں۔‘‘

فرقہ واریت دین کے لئے زہر قاتل ہے۔ اسلام اس کی شدید مذمت کرتا ہے۔ جو شخص اسلام میں کوئی فرقہ بناتا ہے، قرآن مجید اُسے مشرک گردانتا ہے جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ ترجمہ: ’’(اے غلامانِ مصطفیﷺ تم بھی اپنا رُخ اسلام کی طرف کرلو) اﷲ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ڈرو اس سے اور قائم کرو نماز کو اور نہ ہو جاؤ (ان) مُشرکوں میں سے، جنہوں نے پارہ پارہ کر دیا اپنے دین کو اور خود فرقہ فرقہ ہوگئے۔ ہر گروہ جو اس کے پاس ہے، وہ اسی پر خوش ہے۔‘‘(الروم: 31، 32)

دوسری طرف قرآن و سنت کی روشنی میں کسی مسئلہ میں تحقیق و اجتہاد کے نتیجہ میں فقہا و علمائے کرام کے درمیان اختلاف کو جائز کہا گیا ہے بلکہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تحسین بھی فرمائی ہے۔ اس لیے کہ وہ اختلاف خود اس بات کا پتا دیتا ہے کہ اکابرین امت میں غورو فکر، تحقیق و تجسس اور فہم وادراک کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ ان کی ذہانتیں مسائل زندگی کا حل قرآن و سنت سے باہر نہیں بلکہ اس کے اندر سے ہی تلاش کرتی ہیں۔ حضور نبی کریمﷺکا ارشاد گرامی ہے: ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘۔ اس میں ایک فریق دوسرے فریق کا اختلافی نقطہ نظر خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے۔ جنگ و جدال کا منظر پیش نہیں کرتا اور نفرت و عداوت کا ماحول پیدا نہیں کرتا۔ اختلاف اُس وقت مذموم بنتا ہے جب ایک فریق اپنی رائے کو دوسروں پر مقدم رکھتا ہے اور دوسروں کو گمراہ سمجھتا ہے۔ یہیں سے اصل خرابی پیدا ہوتی ہے۔ عدالت میں کھڑے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے دلائل دینے والے وکلا کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ اختلاف…… ایک ہی واقعے اور ایک ہی قانون کی تشریح اور اطلاق پر معزز عدالت کے ججز صاحبان فیصلہ دیتے وقت کیا کر رہے ہوتے ہیں؟ اختلاف…… پارلیمنٹ کے اندر سالہا سال قانونی مسودوں پر حکومت اور اپوزیشن میں کیا بحث و تمحیص ہو رہی ہوتی ہے، اختلافی آرا کا اظہار…… ایک ہی مریض کی بیماری کے بارے میں تمام مصدقہ میڈیکل رپورٹوں کی روشنی میں بڑے بڑے ڈاکٹروں کی آرا میں اختلاف ہوتا ہے…… اور تو اور، تین چار دوست آپس میں چند لمحے بیٹھ کر گفتگو کرنے لگیں تو اختلاف و اتفاق کی کئی صورتیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ ہماری سماجی زندگی میں قدم قدم پر اختلاف کا پایا جانا ایک ناقابل تردید و ناگزیر حقیقت ہے…… غور کیجیے تو خود سماجی ارتقا بھی بڑی حد تک اختلاف کا مرہون منت ہے۔ اگر لوگ ایک ہی طرح سوچتے اور پہلے سے مروج موقف، نظریے اور فکر سے مختلف فکر، زاویہ نظر اور خیال کو نہ پیش کرتے تو انسان اتنی ترقی کبھی نہ کر پاتا…… اصل بات یہ ہے کہ اختلاف مذہبی ہو یا دیگر نوعیت کا، ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر منتج نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے ان مسلکی اختلافات سے فائدہ اٹھا کر سیکولر اور بے دین لوگ اپنے زہریلے پروپیگنڈے سے ہماری نوجوان نسل کی برین واشنگ کر رہے ہیں۔ یوں نوجوانوں کی اکثریت تیزی سے اسلام سے متنفر اور برگشتہ ہو رہی ہے۔ یہ ایک ایسا نقصان ہے جس کی شاید کبھی تلافی نہ ہو سکے۔ نئی نسل پریشان ہے کہ حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے بلاوے پر کس مسلک کی مسجد میں جائے جبکہ مساجد تو اﷲ کے گھر ہیں۔ ہمارے اِس باہمی انتشار و خلفشار پر ابلیس شاداں و فرحاں ہے جبکہ حضور نبی کریم ﷺ بے حد افسردہ ہیں۔ کوئی ہے جو اس پر سوچے۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب میں انہیں تلقین کرتے ہوئے خصوصی تاکید فرمائی: ’’اپنے آپ کو فروعی اختلافات میں نہ الجھانا۔ اتحاد کی دعوت دیتے رہنا۔ مجھے امت کا ہر وہ شخص پسند ہے جو اتحاد کا داعی ہو۔‘‘

امام الاولیا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنے کسی مرید کو خلافت عطا کر کے تبلیغ دین کے لیے بھیجنے لگے تو اسے اس بات کی وصیت فرمائی کہ خدائی اور نبوت کا دعویٰ مت کرنا۔ اس نے حیرت سے پوچھا: ’’حضرت! سالہا سال تک آپ کی صحبت کا فیض پایا ہے۔ کیا اب بھی اس بات کا امکان ہے کہ میں خدائی اور نبوت کا دعویٰ کرنے لگوں گا؟ انہوں نے فرمایا: ’’خدا وہ ہے کہ جو وہ کہہ دے، وہی اٹل ہو اور اس کے خلاف ممکن نہ ہو۔ پس جو انسان اپنی رائے کو یہ حیثیت دے کہ اس سے اختلاف ناممکن ہو تو اس سے بڑھ کر خدائی کا دعویٰ اور کیا ہو گا؟ اسی طرح نبی وہ ہے کہ جو بات وہ کہے، وہی سچ ہو اور اس میں جھوٹ کا احتمال نہ ہو، پس جو شخص اپنے قول کے بارے میں یہ دعویٰ کرے کہ یہی سچ ہے اور اس کے خلاف ممکن نہیں تو اس سے بڑھ کر نبوت کا دعویٰ اور کیا ہوگا۔‘‘

اختلاف رائے کے باوجود خیر خواہی اور روا داری کی سب سے عمدہ مثال حضرت امام شافعیؒ کی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے مقبرے کے قریب فجر کی نماز ادا کی اور دعائے قنوت پڑھنی قصداً چھوڑ دی۔ جب ان سے وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا: ’’بعض اوقات ہم اہل عراق کے مسلک پر بھی عمل کر لیتے ہیں‘‘۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام صاحب نے فرمایا: ’’صاحب قبر کے لحاظ نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔‘‘ حضرت امام ابوحنیفہؒ وہ عظیم المرتبت شخصیت تھے جن کی دوربینی اور نکتہ شناسی کی مثال صحابہ کرامؓ کے بعد کی تاریخ آج تک دکھانے سے قاصر ہے۔ ان کے جلیل القدر شاگرد امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ نے مسائل کے استنباط میں اپنے استاد کی آرا سے بے تکلف اختلاف کیا۔ اسی طرح امام شافعیؒ، امام مالکؒ کے اور امام احمد بن حنبلؒ، امام شافعیؒ کے شاگرد تھے۔ اس کے باوجود ان شخصیات نے مختلف مسائل میں ایک دوسرے سے مکمل اختلاف کیا۔ تمام تر اختلافات کے باوجود کسی ایک امام نے بھی دوسرے امام کی توہین یا تنقیص نہیں کی۔ انہوں نے انتہائی خلوص کے ساتھ اپنا فرض ادا کیا۔ دوسروں کی رائے کو احترام کے ساتھ سنا اور اس کی تردید بھی احترام سے کی اور بعض اوقات اپنی رائے سے رجوع بھی کیا اور اپنی رائے کو چھوڑ کر دوسروں کی رائے کو ترجیح بھی دی۔ ان مخلصین نے کہیں بھی اپنی ذاتی رائے کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ ہمیں اختلافات کے ساتھ زندہ رہنے کا فن سیکھنا ہے۔ یہی ہماری آزمائش ہے اور اِسی میں ہماری بقا اور سلامتی ہے۔

ملتِ اسلامیہ اپنی تاریخی شخصیات، اکابرین امت، فقہائے امت اور آئمہ تصوف پر آج تک ناز کرتی چلی آئی ہے۔ یہ سبھی بزرگ اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے سے مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے تھے لیکن اِن سب کا احترام امت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ سلسلہ تصوف میں قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ، اویسیہ وغیرہ معروف سلاسل ہیں۔ ان سلاسل کے ایک دوسرے سے کئی اختلافات ہیں مگر ان کے بزرگوں کا احترام ہر مسلمان کرتا ہے۔ کوئی سلسلہ کسی دوسرے سلسلہ کی توہین و تضحیک نہیں کرتا، کسی دوسرے بزرگ کی پگڑی نہیں اچھالتا۔ یہی وہ طرز عمل ہے جس سے پورا معاشرہ امن و محبت کا گہوارہ بن جاتا ہے۔

قارئین کرام! یہاں ایک بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ امام اولیا، غوث اعظم، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی محبوبِ سبحانی ؒ کے عقیدت مند پوری دنیا بالخصوص پاکستان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اِن کی اکثریت کا تعلق حنفی مسلک سے ہے۔ آپؒ کا وصالِ مبارک 11 ربیع الثانی 561ھ کو ہوا۔ اِس دن کی مناسبت سے حضرت شیخؒ سے عقیدت رکھنے والے ہر ماہ باقاعدگی سے ’’گیارہویں شریف‘‘ کا ختم دلاتے ہیں اور کھانے پینے کا سامان غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہر سال 11ربیع الثانی کو جلوس نکالتے ہیں اور بڑی بڑی کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کرواتے ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ حنبلی مسلک کے پیرو کار تھے۔ آپ اپنی کتابوں خصوصاً ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں جا بجا اُنہی کے حوالے دیتے ہیں اور اکثر جگہ حضرت امام حنبلؒ کو ’’ہمارے امام‘‘ کے الفاظ سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ حنبلی مسلک میں نماز سمیت دیگر عبادات کا طریقہ کار حنفی مسلک سے قدرے مختلف ہے۔
پاکستان میں مسلمانوں کے کئی مسالک ہیں۔ بعض اوقات ان مسالک کے لوگ معمولی اختلاف رائے پر آپس میں دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ بغیر کسی تحقیق کے ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کر باہمی نفرتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ جبکہ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ ’’جو لوگ دین میں تفرقہ پیدا کرتے ہیں اور مختلف ٹولیوں میں بٹ جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اہل بدعت ہیں اور اپنی خواہشات کے بندے۔ ان کی توبہ قبول نہیں۔ میں اُن سے اور وہ مجھ سے بری ہیں۔‘‘ اس تقسیم در تقسیم نے پاکستان کو قعر مذلت میں گرا دیا ہے۔ ان حالات میں اسلام سے سچی محبت رکھنے والا ہر شخص تڑپ اٹھتا ہے اور اتحاد امت کے لیے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا ہے۔ یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم حضرت محمد مصطفیﷺ کی ایک ایک ادا کو قیامت تک محفوظ رکھنا ہے۔ ہر مسلک نے اپنے علم و فہم کے مطابق قرآن و حدیث سے استنباط کر کے آپ ﷺ کی مختلف اداؤں کو اپنایا ہوا ہے اور یہ سارے راستے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں محبت رسولﷺ کی شاہراہ سے گزرتے ہوئے اُخروی نجات اور جنت کی طرف جاتے ہیں۔ یاد رکھیے! اسلام فتویٰ سے نہیں، تقویٰ سے پھیلا ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا: ’’کوئی تمہاری راہ میں کانٹے بچھائے تو تم جواب میں کانٹے مت بچھاؤ، ورنہ دنیا میں کانٹے ہی کانٹے رہ جائیں گے، پھولوں کا نام و نشان تک مٹ جائے گا‘‘۔ ایک مرتبہ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کی خدمت میں ان کے ایک عقیدت مند نے بطور نذر قینچی پیش کی تو آپؒ نے فرمایا: ’’مجھے قینچی نہ دو میں کاٹنے والا نہیں ہوں مجھے سوئی دو کہ میں جوڑنے والا ہوں‘‘۔

ہمارے زوال کا اصل سبب آپس میں تفرقہ بازی اور گروہ بندی ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے علمائے کرام کو آپس میں لڑوا یا جائے تاکہ اِن کی قوت مضبوط نہ ہو سکے۔ اس سلسلہ میں اسلام دشمن طاقتیں غیر مرئی طریقے سے ہر قسم کے وسائل بروئے کار لاتی ہیں۔ چنانچہ جب مسالک کے درمیان نفرت و عداوت کی آگ بھڑکتی ہے تو اِن کے درمیان اتحاد و اتفاق ختم ہو جاتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے سرپٹھول پر اتر آتے ہیں۔ اِس صورت حال کا فائدہ اٹھا کر اسلام کے خلاف نئے نئے فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں جس میں سراسر نقصان صرف اسلام اور مسلمانوں کا ہوتا ہے۔ کاش تفرقہ بازی کی تعلیم دینے والوں کو معلوم ہوتا کہ کسی کو مسلمان بنانا کتنی محنت، مشقت، ریاضت اور دلسوزی کا کام ہے اور پل بھر میں کسی کو کافر بنا دینا کتنی بڑی جسارت ہے۔ انسان کانپ اٹھتا ہے کہ حضرات انبیا و رسل علیہم السلام نے جانیں کھپا دیں لوگوں کو مسلمان بنانے میں اور ہم زبان کی ایک ہی حرکت سے لاکھوں مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں۔ کاش! ہم میں سے کسی نے اپنے کردار، اخلاق، علم، عمل اور محبت کے ساتھ کسی غیر مسلم کو حلقہ بگوش اسلام کیا ہوتا تو ہمیں اُس کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا۔ فرقہ واریت کا ناسور ہمارے معاشرے میں کس قدر سرایت کر چکا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کا مسلمان…… خود کو مسلمان کہلوانے کے بجائے اپنے مسلک کو ترجیح دیتا ہے اور اس پر فخر کرتا ہے حالانکہ قرآن مجید نے ہمارا نام مسلمان رکھا ہے۔ افسوس! فرقہ واریت کا ناسور آج غیر مسلموں کے اسلام میں داخلے کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

ہندو ازم چھوڑ کر دین اسلام قبول کرنے والے معروف سکالر، دانشور اور مجاہد اسلام جناب غازی احمدؒ (سابق کرشن لعل) کے حالاتِ زندگی نہایت ایمان افروز اور عزیمت سے بھرپور ہیں۔ ان کا تعلق میانی بوچھال کلاں ضلع چکوال سے تھا۔ انہیں یہ اعزاز اور سعادت حاصل ہے کہ انہوں نے عالم رؤیا میں سید المرسلین، حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں اپنے سینے سے لگایا اور نہایت شفقت فرمائی۔ وہ اپنے ہر خطاب میں عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فتنۂ قادیانیت کا رد بھی کرتے۔ آئیے! ایک دلخراش واقعہ ان کی زبانی سنتے ہیں: ’’ایک دفعہ مجھے ملتان سے ایک نو مسلم عیسائی کا خط موصول ہوا جس میں اُس نے لکھا کہ وہ میری کتاب ’’من الظلمات الی النور، کفر کے اندھیروں سے نور اسلام تک‘‘ پڑھ کر مسلمان ہو گیا ہے لیکن اب پریشانی یہ ہے کہ مجھے کس مسلک میں جانا چاہیے کیونکہ ہر مسلک دوسرے کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج گردانتا ہے۔ میں اُس کا خط پڑھ کر شدید صدمے میں مبتلا ہوا۔ کچھ دنوں بعد ملتان میں اپنے ایک دوست کو خط لکھ کر اس نومسلم سے رابطہ کرنے کو کہا جس نے جواب میں دل ہلا دینے والی بات بتائی کہ وہ نو مسلم مسلمانوں کے مختلف مسالک کی آپس میں لڑائی سے دلبرداشتہ ہو کر واپس عیسائی ہو گیا ہے۔ اس بات سے مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ میں تمام علمائے کرام سے پوچھتا ہوں کہ خدارا بتایا جائے کہ اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟
؂ شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے!

علما کرام و مشائخ عظام سے درخواست ہے کہ وہ تحفظ ختم نبوت کی خاطر اتحاد امت کے لیے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالیں۔ حضور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت و ناموس کے لیے خلوص و یگانگت کا اظہار کریں۔ اختلافی مسائل سے اجتناب کیا جائے۔ کسی فروعی مسئلہ کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔ ’’اپنے مسلک کو چھوڑو نہ اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑو نہ‘‘! کے اصول پر عمل کیا جائے۔ مسلمانوں کی تکفیر سے گریز کیا جائے۔ زبان اور قلم سے کوئی ناشائستہ اور دل آزار جملہ نہ ادا کیا جائے۔ دینی مدارس کے مہتمم حضرات، مسالک کے خلاف منافرت کے پھیلانے کے رجحان کو سختی سے روکیں۔ مسلک کی تنگ نظر چار دیواری کو توڑ کر قرآن کی تعلیم ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ کا عملی ثبوت پیش کیا جائے:
؂ فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں

گولڑہ شریف (راولپنڈی) کی سرزمین حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑویؒ ایسی نابغہ عصر ہستی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور و معروف ہے۔ حضرت پیر صاحبؒ کو قدرت نے تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے بطور خاص تیار کیا تھا۔ آپ نے اس سلسلہ میں بے حد علمی اور عملی جدوجہد کی جس کی وجہ سے کروڑوں مسلمان قادیانیت کے ارتداد کا شکار ہونے سے بچ گئے۔ آپ کی یہ خدمت تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ حضرت پیر صاحب اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مسالک کے لوگ اِن کا دلی احترام کرتے ہیں۔ 1900 ء میں جھوٹے مدعی نبوت آنجہانی مرزا قادیانی نے حضرت پیر مہر علی شاہؒ کو مباحثہ کا چیلنج دیا تو آپ نے اِسے فوری قبول کرتے ہوئے (مرزا قادیانی کی شرائط پر) 25 اگست 1900ء کو لاہور آنے کا وعدہ کیا۔ جس پر مرزا قادیانی اور اُس کے پیروکاروں کو سانپ سونگھ گیا اور مباہلہ، مناظرہ اور مباحثہ سے راہِ فرار اختیار کر لی۔ مہر منیر (سوانح حیات حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ) میں لکھا ہے: ’’اس معرکہ میں تمام اسلامی مسالک کے رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے۔ سنی، اہل حدیث اور اہل قرآن کے علاوہ لاہور اور سیالکوٹ کے شیعہ مجتہدین نے بھی قادیانیت کے محاذ پر حضرت پیر صاحبؒ گولڑہ شریف کو اپنا سربراہ و نمائندہ ہونے کا اعلان کیا۔ بالکل وہی صورت حال پیدا ہوئی جو پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت ہندو کفر کے مقابلے میں اسلامی سیاسی پلیٹ فارم پر پیدا ہو گئی تھی اور یہی صورت آج سے تیرہ سو سال قبل قیصر روم کے اسلامی ممالک پر حملہ کے خطرہ کے وقت بھی پیدا ہوئی تھی۔ جب حضرت امیر معاویہؓ نے رومی سلطنت کو خبردار کیا تھا کہ اگر اندرونی اختلاف کے پیش نظر اسلامی سلطنت پر حملہ کیا گیا تو سب سے پہلا سپاہی جو حضرت علیؓ کے لشکر سے تمہارے مقابلہ کے لیے نکلے گا، وہ معاویہؓ بن ابو سفیانؓ ہو گا‘‘۔
؂ اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی ﷺ

چنانچہ پیر صاحب وعدہ کے مطابق 24 اگست 1900ء کو لاہور پہنچ گئے اور کئی دن مرزا قادیانی کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ آیا۔ یوں چشم فلک نے ’’جآء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زھوقا‘‘ کا عظیم الشان نظارہ ملاحظہ کیا۔ 27 اگست کو بادشاہی مسجد لاہور میں حضرت پیر صاحبؒ کی صدارت میں مسلمانوں کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں تمام مسالک کے علمائے کرام و مشائخ عظام نے شرکت کی۔ چنانچہ اِس عظیم الشان فتح کی یاد میں گولڑہ شریف میں ہر سال باقاعدگی سے ’’عالمی خاتم النبیین کانفرنس‘‘ منعقد ہوتی ہے جس میں ملک بھر سے تمام مسالک کے جید علما و مشائخ اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو شرکت اور خطاب کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ اجتماع اتحاد بین المسلمین کا فقید المثال مظاہرہ ہوتا ہے۔ 114ویں سالانہ عالمی خاتم النبیین کانفرنس منعقدہ 25 اگست 2014ء بمقام گولڑہ شریف کے اعلامیہ میں کہا گیا : ’’ہمیں تمام تر مسلکی فرقہ واریت، سیاسی اختلافات، گروہی و لسانی تعصبات کو ترک کر کے باطل قوتوں کے سامنے ملی وحدت کے ساتھ سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے‘‘۔

بعض شر پسند فرقہ باز جن کا روزگار صرف فرقہ واریت کے فروغ سے ہی وابستہ ہے، ایک وفد کی صورت میں سجادہ نشینان گولڑہ شریف کی خدمت میں حاضر ہوا اور کانفرنس میں مخالف مسالک کے علما و مشائخ اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خطابات پر شدید اعتراض کیا۔ گولڑہ شریف کے بزرگوں نے نہایت تحمل اور برداشت سے اُن کی بات سنی اور فرمایا کہ ہمارے اور دوسرے مسالک کے درمیان فروعی اختلافات موجود ہیں اور شاید ہمیشہ موجود رہیں لیکن حضور نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ختم نبوت اور عزت و ناموس کی خاطر تمام فروعی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ختم نبوت کی حفاظت سب مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے۔ معمولی اختلافات کی خاطر سب سے بڑے مقدس مشن کو نہیں چھوڑا جا سکتا ورنہ منکرین ختم نبوت قادیانیوں کو اپنی مذموم سرگرمیوں کے لیے کھلا میدان مل جائے گا اور گمراہی و ارتداد کا ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ اس پر فرقہ باز گروہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور اب یہ لوگ اپنے جلسے جلوسوں میں گولڑہ شریف کے پیر صاحبان کے متعلق اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں:
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے تیری آرزو بدل جائے!

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہب کے نام پر منبر و محراب سے تفرقہ بازی کا درس دینے والے نام نہاد علما جب امن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گورنر، وزیر اعلیٰ، ڈی سی او یا ڈی پی او کے دفتر میں جمع ہوتے ہیں تو سب اپنے اپنے اختلافات بھلا کر آپس میں شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مصافحہ بلکہ معانقہ کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں کے بچھڑے ہوئے بھائی اب ملے ہیں۔ ایک ہی میز کے اردگرد بیٹھ کر سب مل کر چائے پیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو بسکٹ پیش کرتے ہیں۔ اپنی اپنی تقاریر میں پرجوش انداز میں امن و امان اور مسلمانوں کے درمیان محبت و اخوت اور اتفاق و یگانگت کے فروغ کے لیے اپنی اپنی قیمتی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ انتظامیہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ ایسا ناقابل یقین منظر پیش ہوتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحبانِ جبہ و دستار میں کبھی دوری تھی نہ رنجش، سب ایک ہی فیملی کے ممبر معلوم ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال رویت ہلال کمیٹیوں کے اجلاسوں میں ہوتی ہے۔…… لیکن افسوس! صد افسوس!! جونہی یہ حضرات واپس اپنے اصل مقام پر پہنچتے ہیں تو پھر وہی پرانا گورکھ دھندا، وہی طعن و تشیع، وہی تفرقہ بازی، وہی مسلکی مناقشات۔ کیا یہ مذہب کے نام پر جھوٹ، ملمع کاری اور منافقت کا مظاہرہ نہیں؟
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے متعلق سب سے پہلے 1953ء میں تحریک ختم نبوت چلی جس کی قیادت حضرت مولانا سید ابو الحسنات شاہؒ نے کی جبکہ امیر شریعت سید عطا اﷲ شاہ بخاریؒ،مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ وغیرہ نے اُن کی قیادت و صدارت میں بھرپور کام کیا۔یہ بھی یاد رہے کہ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کے فرزند ارجمند سید غلام محی الدین شاہؒ المعروف ’’بابو جی‘‘ 1953ء کی تحریک میں تمام مسالک کی یکجہتی کے لیے مجلس مشاورت کے ایک اہم ترین اجلاس میں لاہور تشریف لائے۔ تمام مسالک کے علماء نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا۔ یہ حضرت بابو جیؒ ہی کا فیضان تھا کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر جو بعض فروعی جھمیلوں کے باعث کبھی اکٹھا نہ ہوتے تھے، اس تحریک میں اکٹھے ہو کر قادیانیت سے ٹکرا گئے۔ یہ دوسرا موقعہ تھا کہ اس تحریک میں دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث ایک ہوکر قادیانیت کے خلاف متحد العمل ہوئے۔ اِسی طرح 1974ء کی تحریک ختم نبوت جس کے نتیجہ میں ملک کی منتخب اسمبلی نے قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا، اس کی قیادت حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے کی جبکہ حضرت علامہ سید محمود احمد رضویؒ، حضرت میاں جمیل احمد شرقپوریؒ اور مولانا عبدالقادر روپڑیؒ وغیرہ نے ان کی قیادت و صدارت میں بھرپور کام کیا۔ اِسی طرح 1984ء میں جب تحریک ختم نبوت چلی جس کے نتیجہ میں قادیانیوں کو خود کو مسلمان کہنے، اپنے مذہب کو اسلام کہنے اور شعائر اسلامی استعمال کرنے سے قانونی طور پر روک دیا گیا۔ اُس کی قیادت شیخ المشائخ حضرت خواجہ خان محمدؒ نے کی جبکہ مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازیؒ نے اُن کی قیادت میں بھرپور کردار ادا کیا۔ قائد اہل سنت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒ ہر سال ختم نبوت کانفرنس چناب نگر (ربوہ) میں خطاب کے لیے تشریف لاتے جس سے قادیانیوں کے ہاں صف ماتم بچھ جاتی۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ختم نبوت کے محاذ پر اُس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوگی جب تک مسلمان اپنے تمام اختلافات بھلا کر متحد و متفق نہ ہونگے:
؂ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

ملت اسلامیہ کے بدترین دشمنوں میں سے قادیانی جماعت ایک خطرناک سازشی سیاسی گروہ ہے۔ قادیانیوں کا بھارت، اسرائیل اور امریکہ سے براہِ راست رابطہ ہے۔ وہاں ان کے مشن قائم ہیں جہاں سے وہ باقاعدہ ٹریننگ حاصل کرکے پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتے ہیں۔ عرصہ ہوا قادیانی جماعت کے چوتھے سربراہ مرزا طاہر نے دھمکی دی تھی کہ ’’عنقریب پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور یہاں افغانستان جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔‘‘ قادیانیوں نے اپنے سربراہ کی ’’پیش گوئی‘‘ کو سچ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پاکستان کو مسلسل عدم استحکام کا شکار بنائے رکھنے کی مذموم کوششیں کرتے رہے۔ اس سلسلہ میں وہ پاکستان کے امن و امان کو تباہ کرنے کے لیے فرقہ ورانہ فسادات پیدا کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ قادیانی خلیفہ کے حکم پر ہر سال قادیانی بجٹ میں کروڑوں روپے کی رقم مختص کی جاتی ہے۔ کراچی، کوئٹہ، لاہور اور ملتان ان کے خاص ٹارگٹ ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز قادیانی افسران کی وجہ سے یہ منصوبے آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔محرم الحرام اور ربیع الاوّل کے مقدس مہینوں میں قادیانی وسیع پیمانے پر شیعہ سنی اور بریلوی، دیوبندی فساد کا خطرناک منصوبہ بناتے ہیں۔ گذشتہ سال انہی مواقع پر ’’کافر کافر شیعہ کافر ‘‘، ’’بریلوی مشرک اور کافر ہیں‘‘، ’’دیوبندی گستاخ رسولؐ ہیں‘‘ نامی پمفلٹ کثیر تعداد میں شائع کرواکر تقسیم کیے گئے جس کا مقصد ملک میں بدامنی اور اشتعال پیدا کرنا تھا۔ قادیانیوں کی پوری کوشش تھی کہ اس کی آڑ میں شیعہ، سنی اور دیوبندی، بریلوی فساد ہو جائے تاکہ یہ مسالک تحفظ ناموسِ رسالتﷺ اور تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر الگ الگ ہوجائیں۔ علمائے کرام کو قادیانیوں کی بھیانک سازش کا نہ صرف بروقت علم ہوگیا بلکہ ان کی دور اندیشی اور نور بصیرت سے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر فساد پھیلنے سے رک گیا۔ 1989ء میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں QSF کے صدر انس احمد قادیانی طالب علم کے کمرے سے ایسے ہزاروں پمفلٹ برآمد ہوئے۔ پولیس تفتیش میں اس نے اعتراف کیا کہ یہ سارا لٹریچر ربوہ سے لاہور میں قادیانیوں کی مرکزی عبادت گاہ دارالذکر واقع گڑھی شاہو میں آیا جو شہر میں تقسیم کرنے کے لیے سرگرم قادیانی نوجوانوں کو دیا گیا۔

فروری 1997ء میں شانتی نگر خانیوال میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بڑا تصادم ہوا جس کے نتیجہ میں دونوں فریقوں کا نہ صرف بھاری مالی نقصان ہوا بلکہ پورے ملک میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ حکومت پنجاب نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج جناب جسٹس تنویر احمد خاں کی سربراہی میں یک رکنی تحقیقاتی ٹربیونل قائم کیا جس نے ستمبر 1997ء میں پنجاب حکومت کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس سانحہ کا ذمہ دار قادیانی جماعت خانیوال کا صدر نور احمد ہے جس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلم عیسائی تصادم کروایا۔ افسوس! حکومت نے اس سانحہ کے ذمہ دار قادیانی شر پسند کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

آج کل قادیانی پوری قوت کے ساتھ ختم نبوت پر حملہ آور ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کی شان اقدس میں بے شمار گستاخیوں پر مشتمل لٹریچر باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے، اور پوری آزادی کے ساتھ مسلمانوں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ قادیانی اپنی مذموم کارروائیوں کے ساتھ ملت اسلامیہ کو ختم اور شمع اسلام کو بجھانا چاہتے ہیں…… جبکہ ہم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں…… خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں…… سوچیے! شافعِ محشر حضور نبی کریمﷺ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے ہم کب بیدار ہوں گے؟ اسلام کی غیرت اور لاج کے لیے کب متحرک ہوں گے؟ عقیدۂ ختم نبوت پر پے در پے حملوں سے بچاؤ کے لیے کب میدان کارزار میں اتریں گے؟ نبی کریمﷺ ، صحابۂ کرامؓ اور اہل بیت عظامؓ کی بے حرمتی اور ان کی عزتوں کو پامال کرنے والے بدبختوں کے خلاف کب ایک آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے؟ یاد رکھیے! جس جگہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ختم نبوت پر شب خون مارا جا رہا ہو، وہاں ختم نبوت کی حفاظت کرنا آپ کا فرض عین ہے، اس سے ذرا سا بھی اعراض کرنا خود کو حضور نبی کریمﷺ کی شفاعت سے محروم کرنے کے مترادف ہے:
؂ قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اُجالا کر دے

ہمیں غور و فکر سے کام لے کر سوچنا چاہیے کہ کیا قبر میں ہمیں ہمارے مسلک کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ کیا محشر میں فروعی اختلافات کے بارے میں دریافت کیا جائے گا؟ اگر شفیع المذنبین حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں محشر میں پوچھ لیا کہ میری ختم نبوت پر حملے ہو رہے تھے، میری عزت و ناموس پر کتے بھونک رہے تھے، تم نے کیا کیا؟ ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ آئے روز دنیا بھر میں اسلام، قرآن اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توہین و تضحیک کی جاتی ہے مگر ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں کام کرتا ہے تو اس پر مخالف مسلک کے آدمی ہونے کا الزام لگا کر اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اس کی نیت پر شک کیا جاتا ہے۔ افسوس! ہم نے تحفظ ناموس رسالت ﷺ کا محاذ دشمنانِ اسلام کی یلغار کے لیے خالی چھوڑ دیا۔ ہمیں لڑنا کسی اصل محاذ پر چاہیے تھا جبکہ ہم نے طاقت کسی اور محاذ پر لگا دی۔ معمولی فروعی اختلافات کی حدود توڑ کر جنگ و جدال اور نفرت و عداوت تک پہنچ جاتے ہیں۔ افسوس! یہ سب کچھ خدمت اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ مسلکوں کی لڑائی کو جہاد کہا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں بات ماننا تو کجا، کوئی سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اس رویے کو صحیح احادیث میں قوموں کی گمراہی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ ہمیں ایک منٹ کے لیے تنہائی میں بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ کیا یہ وہی مسائل ہیں جن کے لیے قرآن مجید نازل ہوا؟ کیا حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم انہی مسائل کے لیے مبعوث ہوئے تھے؟ کیا صحابہ کرامؓ نے ان مسائل کے لیے عظیم الشان قربانیاں دی تھیں؟ کیا اولیا کرامؒ نے ان مسائل کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں؟ جس ملک میں قادیانی اور عیسائی اپنی پوری قوت اور وسائل کے ساتھ اس پر حکمرانی کے خواب دیکھتے ہوں، کھلے بندوں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی توہین ہو رہی ہو، اسلام اور قرآن کی تعلیمات کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، وہاں فروعی اختلافات میں الجھ کر رہ جانا بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ جب ہم ان معمولی اختلافات سے بالاتر ہو کر سوچیں گے تو ہمیں سخت ندامت ہوگی۔ ہم اپنی سوچ کا رخ بدلنے کی کوشش کریں گے۔ اس سے نہ صرف امت کی بہت سی مشکلات حل ہو جائیں گی بلکہ پورا معاشرہ جن مہلک خرابیوں کے غار میں جا چکا ہے، ان سے نجات مل جائے گی:
ہوا کرتی ہے اپنا کام اور شمعیں بجھاتی ہے
ہم اپنا کام کرتے ہیں، نئی شمعیں جلاتے ہیں

معروف روحانی بزرگ حضرت صوفی برکت علیؒ (سالار شریف والے) اتحاد امت کے بارے میں بڑی دلسوزی اور درد مندی سے فرماتے ہیں: ’’اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم پکار ہے۔ اے مسلمان! اے میری جان! اتحاد وقت کی اہم ترین پکار ہے۔ قومیت و فرقہ وارانہ کشیدگی سے بالاتر ہو کر ملتِ اسلامیہ کے مابین اتحاد و اخوت کو فروغ دینے کے لیے متحد ہو جا۔ ظلم و جارحیت کو مٹانے کے لیے متحد ہو جا۔ مظلوم و مجبور کی حمایت کے لیے متحد ہو جا۔ اﷲ کے دین اسلام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے متحد ہو جا اور ضرور ہو جا۔ یہ اختلافات بھی کوئی اختلافات ہیں۔ ان سب کو بالائے طاق رکھ کر اﷲ کے برکت والے نام پہ، اﷲ کے پسندیدہ دین اسلام کے وقار کو بلند تر کرنے کے لیے متحد ہو جا اور ضرور ہو جا، ہر قیمت پہ ہو جا۔ جس طرح بھی ہو سکے ہو جا۔ اگر اس راہ میں تیری جان کی بھی ضرورت پڑے تو گریز نہ کر‘‘۔
؂ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
Mateen Khalid
About the Author: Mateen Khalid Read More Articles by Mateen Khalid: 17 Articles with 27956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.