سیکورٹی فورسز کا رویہ اور عوام
(Musarrat Ullah Jan, peshawar)
وی آئی پی کلچر کے خاتمے اور
تبدیلی کا اعلان لانے والے عمران خان نے پشاور میں لائو لشکر کے ساتھ دورے
کے بعد وزیراعلی ہائوس میں یہ اعلان کردیا کہ اگست میں انٹیلی جینس اداروں
نے رپورٹ دی تھی کہ آرمی پبلک سکولوں کو خطرہ ہے اور یہ پورے پاکستان کو ہے
تاہم اس میں زیادہ خطرہ خیبر پختونخواہ کو ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ
خطرہ پشاور میں آرمی پبلک سکول کو ہے-پھر ساتھ میں یہ بھی فرما دیا کہ سکول
میں کتنے فوجی تعینات کئے جاسکتے ہیں- یعنی انٹیلی جینس ادارے حکومت کو یہ
بتا دیا کریں کہ فلاں تاریخ کو فلاں سکول پر حملے کا خطرہ ہے اس لئے
سیکورٹی سخت کی جائے - موصوف نے یہ بتانے کی بھی کوشش نہیں کی کہ اگست کے
بعد سیکورٹی اقدام کے طور پر کنٹونمنٹ بورڈ طبقہ اشرافیہ اور نچلے درجے کے
شہریوں کے بچوں کی سیکورٹی کیلئے کیا اقدامات کئے گئے- یہ وہ سوال ہے جو ان
سمیت اس ملک پر حکمرانی کرنے والے سیاسی و فوجی حکمرانوں سمیت پولیس حکام
سے بھی کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر آپ کس مرض کی دوا ہے-کیونکہ سیکورٹی کے نام
پر پشاور شہر میں تو ہر جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں اور کسی کی عزت تک محفوظ
نہیں-
ورسک روڈ پر ہونیوالے سانحے سے ایک ہفتے قبل میں دفتر کی گاڑی میں جس پر
بڑے بڑے الفاظ میں ادارے کا نام لکھا ہوا تھا اور گاڑی کی مخصوص ساخت سے
پتہ چلتا تھا کہ یہ نشریاتی ادارے کی گاڑی ہے تاہم صدر میں سیکورٹی ناکے پر
سیکورٹی فورسز کے ایک اہلکار نے گاڑی میں موجود تمام افراد سے شناختی کارڈ
مانگے -یہ ناکہ بھی ہمارے دفتر کے باہر ہی ہے دس قدم کے فاصلے پر روڈ پر
ہمارے ساتھیوں نے اپنے شناختی کارڈ دکھا دئیے کچھ کے پاس فوٹو کاپی تھی
تاہم انہوں نے دفتر کے کارڈ دکھا دئیے جس پر متعلقہ آفیسر غصے میں آگئے اور
کہا کہ کیونکہ شناختی کارڈ نہیں ہے تو لائن میں کھڑے ہو جائو اور اگر کسی
نے گاڑی سے اترنے کی کوشش کی تو میں گولی ماردو نگا اور ساتھ ہی کلاشنکوف
بھی آگے کردی-اور یوں تقریبا بیس منٹ ہم اپنی دفتر کے سامنے گاڑی میں محبوس
بیٹھے رہے بعدمیں آئی ایس پی آر سے رابطے پر جان چھوٹ گئی - لیکن پھر بھی
ڈیوٹی پر موجود اہلکار بری طرح دیکھتا رہا -ان حالات میں کنٹونمنٹ کے ایریا
میں داخل ہونے والے دہشت گردوں کی کارروائی ایک سوالیہ نشان ہے-
اس سانحے کے ساتویں روز میری بیگم اور بہنیں صدر میں خریداری کرنے کے
بعدگھر واپس جارہی تھی کہ تھانہ شرقی کی حدود میں سیکورٹی اہلکاروں نے رکشے
میں بیٹھی تینوں خواتین کو روک دیا بڑی بہن نے شناختی کارڈ دکھایا تاہم
وہاں پر موجود سیکورٹی اہلکاروں نے خواتین کو رکشے سے اتار دیا اور کہہ دیا
کہ ہمیں اطلاع ہے کہ تین خواتین خودکش حملہ آورآرہی ہیں اس لئے گاڑی سے اتر
جائیں - گھر والوں نے انکو بتا دیا کہ جو خودکش حملہ آور ہوتی ہیںوہ شاپنگ
کرکے نہیں جاتی ہمارے پاس شاپنگ ہے جو ابھی ہم صدر بازار سے کرکے آرہی ہیں
اور اس میں سب بچوں کا سامان اور کپڑے پڑے ہوئے ہیںلیکن موقع پر تعینات
سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں کہا کہ خودکش حملہ آوروں کے چہرے پر نہیں لکھا
ہوتا اور آپ سائیڈ پر کھڑے ہوجائیں ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ہم شاپنگ
بیگ کو چیک بھی نہیں کرینگے- پندرہ منٹ انتظار کروانے کے بعدمیری بڑی بہن
نے غصے میں آکر کہہ دیا کہ جو لوگ کرنے والے ہوتے ہیں وہ آکر چلے جاتے ہیں
اور ہماری طرح لائنوں میں کھڑے نہیں ہوتے اور اگر شناخت ہی کروانی ہے تو
پھر میں اپنے شوہر یا بھائی کو بلواتی ہوں جو آپ کو بتا دینگے کہ ہم
پاکستانی ہیں کوئی افغان مہاجر نہیں-جس کے بعد سیکورٹی اہلکاروں نے انہیں
جانے دیدیا-تاہم انہیں بیس منٹ بغیر کسی وجوہات کے سڑک کنارے کھڑا کرکے
رکھا گیا -یہ ہے ہمارا نیا خیبر پختونخواہ- عمران خان کا نیا پاکستان
دوسروں کے بیٹیوں/ بیٹیوں کے ناچ گانے پر خوش ہونے والوں کیلئے پختون
معاشرے میں کسی خاتون کو سڑک کنارے کھڑا کرنا کیسا لگتا ہے اس کا اندازہ
اگر نام کے پٹھان عمران خان کو نہیں تو پرویز خٹک کو ضرور ہونا چاہئیے کہ
یہ چیزیں نفرت پیدا کرتی ہیں-ایسی نفرت جسے قابو نہیں کیا جاسکتا اور پھر
فوجی آپریشنوں کے ذریعے بھی حالات کنٹرول نہیں رہتے -
ہمارے کچھ ساتھی جن کا تعلق قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع سے ہیں کبھی
کبھار اپنے اور عام لوگوں کیساتھ ہونیوالے واقعات کے بارے میں بتاتے کہ ان
کے ساتھ سیکورٹی فورسز کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا نہ ہی تمیز سے بات کرتے ہیں-
اور کبھی کبھار اتنی توہین محسوس ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے
پر بھی غصہ آتا ہے لیکن ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ ایویں باتیں ہے لیکن پشاور
کے کنٹوننمنٹ بورڈ میں تعینات سیکورٹی اہلکاروں کی رویہ ایک سوال نشان ہے
-۔ یہی سوچ ہی ہوتی ہے جو محبت اور نفرت پیدا کرتی ہیں-کسی کو اندازہ نہیں
تو پھر حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ہی پڑھ لیں جس میں بتایا گیا کہ ہماری
سیکورٹی فورسز نے بہادری سے بنگلہ دیش میں جنگ لڑی لیکن ایک طرف تو انہیں
مقامی لوگوں کا تعاون حاصل نہیں تھا اور دوسری طرف وہاں پر مکتی باہنی کام
کررہی تھی ساتھ میں جنرل نیازی جیساشخص مشرقی پاکستان میں تعینات فوج کی
کمانڈ کررہا تھا جس کے کہے ہوئے الفاظ کی وجہ سے ایک حاضر سروس بنگالی
آفیسر نے میٹنگ کے دوران واش روم میں جا کر اپنے آپ کو گولی مار دی تھی-اور
پھر بنگلہ دیش علیحدہ ہوگیا-غلطی سیاسی ہو یا فوجی تاریخ اور عوام کسی کو
بھی نہیں بخشتے- |
|