تاریخ انسانی کا ایسا واقعہ کہ
جس پراگر آسمان بھی خون کے آنسو روئے تو کم ہے۔ شہداء پشاور کے معصوم خون
سے جو دھرتی رنگین ہوئی ہے اس کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں۔ اس ظالمانہ
اور انسانیت سوز کاروائی کرنے والے بد بخت گروہ کے ترجمان خالد خراسانی کے
اس کا جواز بخاری جلدپانچ کی روایت ایک سو اڑتالیس کی روشنی میں پیش کرنے
سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ان انسانیت کے دشمنوں کو کس قسم کی تعلیم دی
گئی ہے۔ ان کے مائنڈ سیٹ کو کس طرح بدل دیا گیا ہے۔ قرآن و سنت کی کس قدر
غلط تعبیر و تشریح ان کے ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہے اور وضعی روایات اور
اپنی من مانی اسلام کی تشریح کرکے جہاں ایک طرف خود مسلمانوں کا بے دریغ
خون بہارہے ہیں وہیں عالمی سطح پر اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش میں وہ
اسلام دشمنوں کا پورا ساتھ دے رہے ہیں ۔ قابل غور یہ امر ہے کہ مسلمان
گھرانوں میں پیدا ہونے والے آج کیوں اس قدر سفاک ہوگئے ہیں کہ وہ مسلمانوں
کے خون کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ ان کی یہ ذہنیت کیے پیدا ہوئی۔اں کا دئنڈ سیٹ
کیسے بدلا ۔ انہیں کس نے حوروں اور جنت کے لالچ میں موت کے خوف بیگانہ
کردیا۔ یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں بلکہ یہ سب اس تعلیم و تدریس کی وجہ ہے جو
انہیں دی گئی ہے اور جس نے انہیں اس قدر متشدد بنا دیا کہ انہیں اپنے علاوہ
کوئی اور مسلمان نظر ہی آتا ور وہ اپنی خود ساختہ شریعت کو بندوق کے زور پر
نافذ کرنا چاہتے ہیں اور جو ان کے ساتھ متفق نہیں اسے یہود و نصاریٰ کا
ساتھی قرار دیتے ہوئے واجب القتل سمجھتے ہیں۔ چونکہ طالبان اور مذہبی دہشت
گردی میں ملوث تقریباََ تمام جماعتوں اور افراد کی تعلیم و تربیت اور فکری
تعلق دیوبند مسلک کے ساتھ ہے اس لیے اکابرین دیوبند کو ان کے ساتھ اپنی
لاتعلقی اور براٗت کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دہشت گرد اور اسلام
دشمن قرار دینا چاہیے۔ یہ خود مسلک دیوبند کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ عناصر
دیوبند مسلک کے لیے بد نامی کا باعث ہے اور اس مکتبہ فکر نے جو خدمات
سرانجام دیں ہیں ، اُن کو یہ ختم کرنے لے در پہ ہیں۔ امید ہے کہ اکابرین
دیوبند اپنا کردار ادا کرنے میں تاخیر نہیں کریں گے۔
مذہبی دہشت گردی اور جنونیت جس کا امت مسلمہ اور باالخصوص پاکستان شکار ہے
اسے ختم کرنے کے لیے چار اطراف سے بیک وقت یلغار کی ضرورت ہے۔ ایک حکومتی
اقدامات جو ایک مربوط پالیسی اور عزم مصمم کے ساتھ ہوں، دوسرا قوت بازو کا
استعمال کرتے ہوئے مسلح افواج اور سیکورٹی کے ادارے ایسے زہریلے سانپوں کا
سر کچل کر رکھ دیں۔ تیسری سطح پر مؤثر اور فوری عدالتی نظام کے تحت مجرموں
کے مقدمات کا فیصلہ اور اُن پر بلاتاخیر عمل۔ چوتھا اور سب سے اہم فکری
محاذ پر جنگ ہے جس میں ہر ایک کو شریک ہونا پڑے گا۔ اس سوچ کے خلاف لڑنا
ہوگا جو دہشت گرد پیدا کرتی ہے۔ ان مدرسوں، تعلیم اداروں اور بلکہ مساجد جو
کہ مسجد ضرار کی مثل ہوچکی ہیں عوام کو بائیکاٹ کرنا ہوگا۔ دہشت گروں کے
ساتھ نرم گوشہ رکھنے والی جماعتوں اورشخصیات سے لاتعلقی اور ان کا محاسبہ
کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کے حامیوں ، ہمدردوں اور نرم گوشہ رکھنے والوں کا
عوام کو بخوبی علم ہے۔ یہ وہی ہیں جو سانحہ پشاور پر نیم دلانہ تبصرے کررہے
ہیں۔ جو اس واقعہ کو تو المناک اور سانحہ قرار دیتے ہیں مگر ایسا کرنے
والوں کو دہشت گرد ، قاتل اور سلام دشمن قرار نہیں دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کے
ساتھی اور ہمدرد وہی ہیں ہیں جنہیں طالبان نے ھکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے
اپنے نمائندے مقرر کیا تھا۔ بدقسمتی کے ساتھ دہشت گروں کے نظریات کے حامی
ہر طبقہ میں سرایت کرچکے ہیں۔ یہ فتنہ خوارج کا تسلسل ہے اور جسے اسلام
دشمن ہر دور میں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے۔ لارنس آف
عریبیا ہو یا ایم ایچ ہمفرے اسلام دشمن ہر دور میں اسیے عناصر کی پشت پناہی
کرتے رہے اور جیسا کہ بار بار ہم اپنے کالموں میں لکھتے رہے کہ وہ
اسرائیلیات اور وضعی روایات کو بنیاد بنا کر اسلام کی غلط تعبیر و تشریح
کرتے ہیں جبکہ قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جہاد میں ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اسلام کی اصل تعبیرو
تشریح سے روشناس کروانا ہوگا جو انسانیت کے نام اﷲ کی آخری وحی میں موجود
ہے۔ ہمیں فکر اقبال کو عام کرنا ہوگا اور علامہ جو پیامبر قران اور دور
حاضر کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں دے گئے ہیں اسے اجاگر کرنا ہوگا۔
ہر تعلیم یافتہ طبقہ تک خطبات اقبال کا پیغام پھیلانا ہوگا۔ مذہبی انتہا
پسندی کے خلاف قرانی تعلیمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا ہوگا۔اسلام نے
اعتدال کا جو درس دیا ہے اسے عام کرنا ہوگا۔ قرآنی تعلیمات اور اقبالیات کو
تعلیم نصاب کا حصہ بنانا ہوگا۔ پہلے خو د فہم قرآن حاصل کرنا ہوگا اور پھر
اپنے بچوں کو بھی تعلیم دینا ہوگی۔ یاد رکھیں اگر آپ غفلت برتیں گے اور
بچوں کو اسلام نہیں سکھائیں گے تو پھر کوئی اور سکھائے گا اور یہ نہ ہو کہ
موقع ہاتھ سے نکل جائے اور وہ انہی دہشت گروں کے ہتھے چڑھ جائیں۔ اپنے بچوں
کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
ہر کام حکومت پر ہی نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ
دہشت گروں کے خلاف فکری جنگ میں فعال کردار ادا کرے اور ایسے اداروں جہاں
سے ایسے ظالم لوگ پروان چڑھتے ہیں ان پر نظر رکھیں۔ دہشت گروں کو کا مارنے
کے ساتھ ساتھ ان نرسیوں کو بھی ختم کرنا ہوگا جہاں سے یہ پیدا ہوتے ہیں۔
پنجابی کی کہاوت ہے کہ بُرے کی ماں کو مارو تاکہ بُراپیداہی نہ ہو۔ |