زندہ زخموں پر مرہم کون رکھے گا؟

سانحہ پشاور میں ا س ملک کے ایک سو اکتالیس قیمتی انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جن میں 131معصوم چہرے شامل تھے۔یہ وہ سانحہ ہے جس نے سقوط مشرقی پاکستان کے دن جنم لیا ‘سقوط مشرقی پاکستان میں بھی ہزاروں افراد بے گناہ مارے گئے ۔ مکتی باہنی نے پاک فوج کا روپ دھار کر مظالم کے پہاڑ توڑے ۔ مختصریہ کہ اس دن بھی پاکستانی شہید ہوئے اور سانحہ پشاورمیں بھی۔شہدا کے والدین کا غم کوہ گراں ہے ۔ دکھ درد اور غم والم کی تصویر بنے ان بہن بھائیوں کے دل میں دہشت گردی کا نشتر گہرا گھاؤ لگا گیا ۔ان کا دکھ بھی کسی سے کم نہیں ۔لیکن انہیں کوئی آس نہیں جو مزید ان کی روح کو زہر بھرے خنجر سے زخمی کرے ۔ ان کے پیارے دلارے چلے گئے ‘انکی قیمتی متاع لٹ گئی ‘خواب بکھر گئے ‘خیالات ہمیشہ کیلئے منتشر ہو رکررہ گئے ۔ اب انکی تھوڑی بہت تسلی وتشفی دہشت گردوں کو سزائے کامل دے کر کی جاسکتی ہے ۔ وہ نہیں جانتے اچھے اور برے طالبان کیا ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ غیر ملکی ایجنسیاں کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہیں ۔وہ تو اپنی حکومت سے انصاف کی اپیل کر رہے ہیں اور قوم کے باقی بچوں کی حفاظت کیلئے زخمی دل سے دعامانگ رہے ہیں۔

اسی سانحہ کا ایک اور کربناک رخ وہ بچے ہیں جن کی سانسیں تو سلامت ہیں لیکن ان کے چہرے بگڑ چکے ہیں۔ان ظالمانِ انسانیت نے معصوم بچوں کے چہروں کو تاک کرنشان بنایا تاکہ انکی بربریت کا عملی ثبوت رہتی دنیا تک قائم رہے۔ایسے بچوں کی کل تعداد 65ہے جس میں سے پچاس بچے سی ایم ایچ اور پندرہ بچے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔۔ان کے والدین متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ان کے بچوں کی سانسیں تو قائم ہیں مگر یہ معصوم بچے اپنے رب کے دیئے ہوئے حسن سے محروم ہو چکے ہیں اور کچھ بچوں کو بیرون ملک بھی علاج کیلئے جاناپڑے گا۔۔چہرے کی سرجری کے اخراجات ان والدین کی روح کو ایک ایسے کرب میں مبتلا کیئے ہوئے ہیں جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ۔تھوڑی دیر کیلئے آپ اپنے آپ کو ان والدین کی جگہ رکھے جن کے پھول بقید حیات ہیں مگر ان کے پاس ان کے مہنگے اور لمبے علاج کے لیئے پیسے نہیں ہیں اور ان کی معصوم کلیوں کے چہرے اس قدر زخمی ہیں کہ انھیں دیکھ کر ان کی روح ہمہ وقت ماہی بے آب کی مانند تڑپتی رہتی ہے‘ ‘یقین کیجئے ایسا تصور کرنے سے روح کانپ جاتی ہے‘حواس جواب دے دیتے ہیں ۔حکومت وقت ‘اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کا فرض ہے ان بچوں کے علاج کا مناسب بندوبست کرے۔مخیر حضرات اس ضمن میں کردار اداکریں ۔طاہرالقادری‘عمران خان ‘میاں برادران‘سابق صدرآصف زرداری‘اور ملک کے صاحب ثروت افراد کا فرض ہے کہ حسب استطاعت‘حکومتی خزانے اور عوامی مدد سے ان معصوم پھولوں کو مرجھانے سے بچائیں تاکہ وہ ایک احساس کمتری کی زندگی گزارنے سے بچ جائیں اور انکے والدین سکھ کا سانس لیں۔

اسکے ساتھ ساتھ ہمیں تھر کے معصوم بچوں کے بارے میں بھی سوچناچاہیئے ؟ کہ یہ معصوم جانیں بھی لاپرواہی وبے حسی کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی؟ ۔ کیا تھر کے بچے ملک کا مستقبل نہیں ہیں؟ کیا وہ اپنے والدین کے پھول نہیں ہیں؟ایوان اقتدار کب تک انھیں نظر انداز کرے گا؟ کیا تھر کے بچوں کی سانسیں مذہبی انتہاپسندی روک رہی ہے؟ وہاں صحت کی سہولیات کی راہ میں نام نہاد طالبان رکاوٹ ہیں ؟کیا وہاں میٹھے وصاف پانی کا بندوبست کسی مولوی ‘علامہ یا ملا نے روک رکھاہے؟ اگر نہیں تو پھر جو اس کا ذمہ دار ہے وہ بھی انتہاپسند ہے ۔ذات پسند ہے۔ بے حس ہے ۔ظالم ہے ۔ جس طرح سانحہ پشاور کے ذمہ داروں کے خلاف بھرپوری کاروائی کی جارہی ہے اسی سرعت کے ساتھ تھر کے مجرموں کو بھی کیفرکردار تک پہنچایا جایااور آئین پاکستان کے مطابق جو انکی سزابنتی ہو اسے لاگوکیاجائے۔ تھر کے بیمار اور بھوک سے بلکتے بچے اور پشاورکے معصوم زیرعلاج بچے اس قوم کے زندہ زخم ہیں جو مرہم رکھے گاوہی مسیحاکہلائے گا۔زخم کا علاج بھی ہوناچاہیئے اورزخم دینے والے کوسزابھی ملنی چاہیئے۔آخرمیں دعا ہے کہ اﷲ میرے پاک وطن کو ہمہ قسم کی دہشت گردی سے محفوظ رکھے اورہمیں سندھی ‘بلوچی‘پٹھان اور شیعہ سنی کے بجائے مسلمان اور پاکستانی بننے کی توفیق عطاء کرے۔آمین۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174735 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.