ثانی زہرہ زینب بنت علی سلام اللہ علیہا کا دربار یزید میں انقلاب آفرین خطبہ

حضرت بی بی زینب سلام اللہ علیہا امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بڑی بیٹی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی ہیں۔ 5 جمادی الاول 6ہجری کو مدینہ میں پیدا ہونےوالی یہ پاک ہستی جسے ثانی زہرا بھی کہا جاتا ہے۔ واقعہ کربلا کی سب سے نمایاں خاتون تھیں۔ تاریخی کتابوں میں آپ کے ذکر شدہ القاب کی تعداد 61 ہے۔ ان میں سے کچھ مشہور القاب” عالمہ غیر معلمہ، نائب الزھراء، عقیلہ بنی ہاشم، نائب الحسین، صدیقہ صغریٰ، محدثہ، زاہدہ، فاضلہ، شریکة الحسین، راضیہ بالقدر والقضاء ہیں۔ آپ سلام اللہ علیہا نے بھی اپنے بھائیوں سرداران جوانان جنت حسنین شریفین علیہ السلام کی طرح رسول خدا نانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آغوش میں تعلیم و تربیت پائی ۔ جب آپ 7 سال کی تھیں کہ نانا جان (ص) جہان فانی سے پردہ فرما گئے جبکہ اس کے تقریباً تین ماہ بعد والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی انتقال فرما گئیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شادی حضرت عبداللہ بن جعفر طیار علیہ السلام سے ہوئی۔ ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے حضرت عون اور حضرت محمد کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہو گئے۔

واقعہ کربلا اور اس کے بعد آپ سلام اللہ علیہا کا کردار بہت اہم ہے اور اگر یوں کہا جائے تو بجا نہ ہو گا کہ آج اگر دنیا اس معرکہ حق وباطل سے آگاہ و آشنا ہے تو وہ آپ پاک بی بی ہی کے سبب ہی ممکن ہوا کیونکہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں کی 10محرم الحرام 61ہجری کو کربلا میں شہادت کے بعد یزیدی فوج نے اہل بیت اطہار کے خیموں کو آگ لگا دی اور رسول زادیوں کی چادریں چھین لیں اور انہیں بچوں سمیت اسیر بنا کر گورنر ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچایا۔ یہ سیاہ بخت انسان اس خستہ حالت میں بھی افراد اہل بیت سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آیا۔ نواسہ رسول خدا حسین بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ ہر خاص و عام کو محل میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ابن زیاد سر مبارکہ کو دیکھ کر آپ کے لبوں پر بار بار چھڑی مارتا اور مسکراتا۔

صحابی رسول زید بن ارقم وہاں ایک کونے میں موجود تھے ان سے رہا نہ گیا تو فرمایا” ان لبوں سے چھڑی ہٹا لو٬ اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سواء کوئی معبود نہیں میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے تھے۔ “یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ لیکن یہ سن کر ابن زیاد پلید کے غضب کی کوئی حد نہ رہی اور بولا۔ ”اللہ تعالیٰ دونوں آنکھیں رلائے۔ واللہ ! اگر تو بوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا اور تیری عقل ماری نہ گئی ہوتی تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ “ ان جملوں کا سننا تھا کہ زید بن ارقم مجلس سے اٹھ گئے اور جاتے جاتے کہا ” اے لوگوں! آج کے بعد تم غلام بن گئے کیونکہ تم نے رسول زادی فاطمہ زہرہ علیہا السلام کے لخت جگر کو قتل اور ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا اور شریروں کو نوازتا ہے “

کوفہ سے ابن زیاد نے حضرت امام حسین کا سر مبارک اور قافلہ اہل بیت کو دمشق بھجوا دیا۔ اہل بیت اطہار کا یہ لٹا پٹا قافلہ بے پلان اونٹوں پر پابند رسن اور بے پردہ دمشق لے جایا گیا تو یزیدبن معاویہ نے بھی دربار میں جگر گوشہ خاتون جنت فاطمة الزہرہ امام حسین علیہ السلام کے چہرہ و سر مبارک کو چھڑی سے چھیڑا اور فخر کا اظہار کیا۔ جس پر شریکة الحسین بی بی زینب نے لہجہ پدر گرامی مولود کعبہ امیرالمو منین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں وہ تاریخ ساز خطبہ دیا جو رہتی دنیا تک نہ صرف اموی خلافت کی اسلام و اہل بیت دشمنی سے پردہ چاک کرگیا بلکہ آئندہ نسلوں کو پیغام حریت دے گیا جس پر آج بھی غیور امت مسلمہ قائم ہے ۔

نواسی رسول اللہ، ثانی زہرہ ،شریکةالحسین حضرت بی بی زینب بنت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے دربار میں یزید بن معاویہ پلید کو مخاطب کر کے فرمایا ”سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت پر۔اما بعد ! بالاخر برا ہے انجام ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور ان کا مذاق اڑایا۔

اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے تنگ کر دئیے ہیں اور کیا آلِ رسول (ص) کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز اور ہم رسوا ہوئے ہیں۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے اور ناک بھوں چڑھاتا ہوا مسرت و شاد مانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے اور زمامداری کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ذرا دم لے۔

کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے جو انہیں مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے بلکہ ہم نے اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین و مقرر کیا جا چکا ہے۔

اے طلقاء کے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا۔ تیرے حکم پر اشقیاء نے رسول زادیوں کو بے پردہ کر کے شہر بہ شہر پھرایا۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا واہل بیت رسول (ص) کی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے اور لوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں اور ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں اور رسول زادیوں کےساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں۔آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے۔ اس شخص سے بھلائی کی توقع ہی کیا ہو سکتی ہے جو اس خاندان کا چشم و چراغ ہو جس کی بزرگ خاتون(یزید کی دادی ہندہ)نے پاکیزہ لوگوں کے جگر چبا کر تھوک دیا۔۔۔ ( یزید کی دادی ہندہ کو تاریخ میں آکلیالاکباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہیں جگر چبا کر کھانے والی کیونکہ جنگ احد میں جب حضرت حمزہ شہید ہو گئے تو یہ ظالم عورت ہاتھ میں خنجر لے کر حضرت حمزہ کی لاش پر آئی اور ان کا سینہ چاک کر کے ان کا جگر نکالا اور چبانے کےلئے منہ میں رکھا مگر وہ معشیت ایزدی سے پتھر کی طرح سخت ہو گیا اور وہ اسے نہ چبا سکی۔ لیکن اس کے بعد ہندہ جگر خور کے نام سے مشہور ہو گئی )۔۔۔ بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے فرمایا اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس کا گوشت پوست شہیدوں کے خون سے بنا ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کےساتھ ہمیں دیکھتا ہے۔

اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ میرے اسلاف اگر موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔ کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین بن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے۔

اے یزید تو کیوں نہ خوش ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناؤنے جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ تو نے اولاد رسول (ص) کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں۔ تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں۔ آج تو آلِ رسول (ص) کو قتل کر کے اپنے بد نہاد اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔ تو عنقریب اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ مل جائے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے میں باز رہتا۔

اس کے بعد زینب سلام اللہ علیہا نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کی !!!۔۔۔۔۔۔اے ہمارے کردگارِ حق تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے۔ اے پروردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا۔

اے یزید ! تو نے جو ظلم کیا ہے اپنے ساتھ کیا ہے۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناؤنے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو دربدر کیوں پھرایا۔ نیز رسول (ص) کے جگر پاروں کےساتھ ظلم کیوں روا رکھا۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا آلِ رسول (ص) کاتجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر مٹ چکے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی میں سے روزی پا رہے ہیں۔

اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا عدالت ِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے اور جبرائیل امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعے تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے۔ عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں۔

اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد سے ہم کلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے۔ میری اس جرات سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقلال اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بد سلوکی میرے عزم و استقلال پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔

اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنواؤں اور بدنام لوگوں نے رحمن کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں، صحرا کے بھیڑئے ان پاکباز شہیدوں کے مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔

اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہوگا۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے۔

اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔ تو یہ خیال بھی اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔ تو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو سکتا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔ تیری حیات اقتدار میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن کےلئے حسرت و پریشانی کے سواء کچھ بھی نہیں جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کےلئے خدا کی لعنت ہے۔
خطبہ بنت علی علیہ السلام کے انقلاب آفرین اثرات

سیدہ زینبِ کبریٰ کا حقیقت آمیز مگر آتشیں خطبہ سن کر یزید کانپنے لگا اور اپنے جرائم کے تمام راز فاش ہونے اور اپنے برے انجام کا سن کر اس کے حواس باختہ ہو گئے اسے کچھ نہیں سوجھتا تھا کہ کیا کرے اور کیا کہے جس سے اس کی بد اعمالیوں اور گھناؤنے کردار پر پردہ پڑ سکے۔ اپنے انجام کا تصور کر کے کہنے لگا !

جنابِ زینب سلام علیہا نے اپنے اس خطبے میں حقائق کے اظہار کا جو انقلاب آفریں انداز اختیار کیا اس کی نظیر کہیں عالم میں نہیں ملتی اور حق و حقیقت کی ترجمانی کر تے ہوئے فطرت کی رعنائیوں کو آزادی و حریت سے ہم آہنگ کرکے جرات بیان کا جو مقدس نمونہ پیش کیا وہ ہر صاحب فکر و دانش کےلئے قابل تقلید ہے۔جنابِ زینب نے اپنے مقدس بیان کی روشنی میں دنیائے انسانیت کو حقائق کے اظہار کا فطری طریقہ فطری حقوق کے تحفظ کا سلیقہ اور حقیقت و عقیدت کے امتزاج کا ڈھنگ سکھایا ۔

سیدہ زینب نے بتلایا کہ ظالم و ستمگر کے سامنے کلمہ حق کس طرح کہا جاتا ہے اور زبان و بیان کی قوت کو شمشیر و سناں سے زیادہ تیز اثر دے کر کس طرح لوگوں کے دلوں میں اترا جاتا ہے۔علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی بیٹی نے اپنے خطبے کے بل بوتے پر مظلوم انسانوں کا استحصال کرنے والوں کےخلاف قیام کرنے کے آداب سکھائے۔

بی بی زینب عالیہ سلام علیہا نے جس پاکیزہ انداز میں بنی امیہ کی نخوت کا کاخِ مرمر اپنے بیان کی قوت سے ریزہ ریزہ کیا اس کے سامنے یزید کا سر ندامت و شرمندگی سے جھک گیا اور اسے رسول زادی کا استدلال اس طرح رسوا کر گیا کہ وہ سوچنے لگا کہ کاش ! زمین کا منہ کھل جائے اور وہ اس میں چھپ کر اپنی رہی سہی عزت بچا سکے مگر اب وقت گزر چکا تھا۔ افسوس و ندامت کی گھڑیاں بیت چکی تھیں اور اموی خاندان کی طاغوتیت اور فرعونیت کا بت پاش پاش ہو چکا تھا اور ان کی سطوت و آمریت کے چراغ گل ہو چکے تھے اور اب یزید کے ایوانِ اقتدار پر مایوسی، پریشانی، اضطراب اور ندامت کے سائے محیط تھے۔

زینبِ سلام اللہ علیہا کبریٰ کے تاریخی خطبے کی انقلاب آفرین تاثیر رہتی دنیا تک بنی ہاشم کی شجاعت کا پرچم سربلند رکھے گی اور فطرت کی رعنائیوں اور زیبائیوں کے مشتاق علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی بیٹی کے عصمت شعار خطاب کی روشنی میں شعور نظر، شعارِ حقیقت، احساس عظمت و قوت ارادہ، حسن اخلاق اور کسب کمال کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتے رہیں گے۔ ہر دور میں ظالم و ستمگر حکمرانوں کے ایوانِ اقتدار لرزتے رہیں گے۔ مالی طاقت کے بل بوتے پر انسانیت کا خون کرنےوالے طاغوت، علی کی بیٹی کے اس تاریخی خطاب کی انقلاب آفرینی سے نہ بچ سکیں گے اور جب بھی کربلا کے خونیں واقعہ کا تذکرہ ہو گا تو ثانی زہرہ ،شریکة الحسین جنابِ زینب بنت علی ابن ابی طالب سلام علیہا کے خطبوں کی یاد تازہ ہو جائے گی۔
ایمان کی منزل کفِ پا چوم رہی ہے۔۔۔۔۔۔ملت کی جبیں نقشِ وفا چوم رہی ہے
اے بنت مولاعلی عارفہ لہجہ قرآن۔۔۔۔۔۔خطبوں کو ترے وحیِ خدا چوم رہی ہے

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہوگیا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کے ابتداء تھی۔ آپ علیہا السلام اپنے بھائی امام حسین کی شہادت کے تقریباً ” ڈیڑھ سال بعد 15رجب المرجب 62 ہجری کو دوسری مرتبہ سفر شام کے دوران درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔ آپ کا روضہ اقدس شام کے دارالحکومت دمشق میں آج بھی مرجہ خلائق ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری خواتین کو سیرت بی بی زینب بنت علی ابن ابی طالب سلام اللہ علیہا پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔آمین ثمہ آمین

(نوٹ)۔۔۔۔۔۔محترم قارئین آپ کی تجاویز و آراء میری عزت افزائی ہوں گی۔ طالب دعا
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 119440 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More