اسلام میں بے گناہوں کا قتل قرآن والسنۃ کے واضع دلائل سے
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ارشاد باری تعالی ہے:
"ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزآؤہ جھنم خالدا فیھا وغضب اللہ علیه ولعنه وأعد
له عذابا عظیما"
(حواله: سورۃ النساء سورۃ نمبر: 4 آیت: 93)
مفہوم: جس نے کسی (بے گناہ) مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کیا تو اس کا ٹھکانا
جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس (قاتل) پر اللہ کا غضب ہوا، اللہ نے اس
پر لعنت کی اور اس کے لۓ بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے
"عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " اجْتَنِبُوا السَّبْعَ
الْمُوبِقَاتِ ..وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ
بِالْحَقِّ.."
نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم نے ہلاک وتباہ کرنے والے سات کبیرہ گناہوں میں
ناحق قتل کو بھی شمار کیا ہے
(حواله: صحیح البخاری: 2766، صحیح مسلم: 89)
الْكَبَائِرُ الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ
النَّفْسِ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ "
بلکہ یہ اکبر الکبائر (کبیرہ گناہ) میں سے ہے
(حوالہ:صحیح بخاری: 6675)
بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ كُلُّ
الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ"
اسی طرح حدیث میں ہے، مفہوم: ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان
پر حرام ہے
(حواله: صحیح مسلم: 2564، ترقیم دارالسلام: 6541)
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ وَلَا
يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا
يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا
اللہ تعالی نے اہل ایمان کی یہ نشانی بھی بیان فرمائ ہے کہ وہ اس جان کو
ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے
(سورۃ الفرقان، سورۃ نمبر:25 آیت نمبر: 68)
رب العالمین کا ارشاد ہے:
أنه من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكانما قتل الناس جميعا.."
(حواله: سورۃ ألمائده سورۃ نمبر: 5 آیت نمبر: 32)
مفہوم:"کہ جس نے بدلہ قتل یا زمین میں فساد کے بغیر کسی جان کو قتل کیا
گویا اسنے تمام انسانوں کو قتل کیا"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ " لَزَوَالُ الدُّنْيَا
أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ "
مفہوم:
کسی مسلمان کے (بے گناہ) قتل سے اللہ کے نزدیک ساری دنیا کا خاتمہ اور
تباہی کمتر ہے
(سنن الترمذی: 1395 وسند حسن، عطاء العامری وثقہ ابن حبان والحاکم والذھبی
فھوحسن الحدیث)
یعنی اس روایت کے راوی عطاء العامری کو حافظ ابن حبان، امام حاکم اور حافظ
ذھبی کی راۓ میں ثقہ اور حسن الحدیث ہیں.
"يَجِيءُ الْمَقْتُولُ بِالْقَاتِلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ نَاصِيَتُهُ
وَرَأْسُهُ بِيَدِهِ وَأَوْدَاجُهُ تَشْخُبُ دَمًا يَقُولُ يَا رَبِّ هَذَا
قَتَلَنِي حَتَّى يُدْنِيَهُ مِنَ الْعَرْشِ "
ایک اورحدیث کا مفہوم ہے:
قیامت کے دن مقتول قاتل کو پیشانی سے پکڑ کر (اللہ کے پاس) لاۓ گا، اور کہے
گا کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا اور اسکے زخموں سے خون بہ رہا ہوگا
((الترمذی 3029 قال:ھذا حدیث حسن
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ
اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ " مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا
فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلاَ
عَدْلاً "
أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
يَقُولُ " كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلاَّ مَنْ مَاتَ
مُشْرِكًا أَوْ مُؤْمِنٌ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
"جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور اپنے اس فعل پر خوش ہوا ۔ اللہ تعالیٰ اس
کے نہ فرض قبول کرے گا اور نہ کوئی نفل‘‘۔ اسی روایت میں ابو دردا سے روایت
کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
ہر گناہ کی توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا سوائے اس آدمی کے جو
حالت شرک میں مر جائے یا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے"
(سنن ابوداود۔4270 وسندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: " أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ
النَّاسِ بِالدِّمَاءِ "
مفہوم:
قیامت کے دن لوگوں میں سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔"
(صحیح بخاری: 6533۔ صحیح مسلم: 1678)
کسی مسلمان کا قتل قصاص یا حدود یا تعزیرات کے اعتبار سے صرف وقت کا مسلمان
حاکم یا اس کا نائب کر سکتا ہے۔ انفرادی طور پر کسی مسلمان کو یا کسی تنظیم
کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو قتل کرے۔ ورنہ مذکورہ وعیدوں کا وہ
مستحق بنے گا۔
سیدنا عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ،صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: " مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا
السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا "
مفہوم:
جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھاۓ وہ ہم میں سے نہیں
صحیح بخاری، رقم الحدیث: 6874 صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من
حمل علینا السلاح فلیس منا رقم الحدیث: 98
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة
(حواله: البخاري رقم: 3166)
مفہوم: جس نے کسی معاہدہ کرنے والے (ذمی کافر یا وہ کافر جس کے ساتھ
مسلمانوں کا معاہدہ ہے) کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا.
اسی طرح حدیث ہے:
كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ إِلاَّ الرَّجُلُ يَقْتُلُ
الْمُؤْمِنَ مُتَعَمِّدًا أَوِ الرَّجُلُ يَمُوتُ كَافِرًا "
مفہوم:
قریب ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف کر دے سواۓ اس آدمی کے جس نے جان بوجھ کر کسی
مؤمن کو قتل کیا یا وہ آدمی جو کافر مرتا ہے
(حوالہ: سنن النسائ 3984 وسندہ صحیح)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"سباب المسلم فسوق و قتاله كفر"
مفہوم: مسلمان کو گالی دینا فسق (کبیرہ گناہ) ہے اور اس سے قتل وقتال کرنا
کفر ہے
(حوالہ:بخاری 48 و مسلم:64)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ،
وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ مَا نَهَى اللَّهُ عَنْهُ "
مفہوم:
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر
وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں سے دور رہے"
((حوالہ: صحیح بخاری:10، صحیح مسلم: 40
جب دو مسلمان ایک دوسرے کو (ناحق) قتل کرنے کے لۓ آمنے سامنے آجائیں تو
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قاتل اور مقتول دونوں کو جہنمی قرار دیا
ہے. پوچھا گیا کہ مقتول کیوں جہنمی ہے؟ تو آپ علیه الصلوۃ والسلام نے
فرمایا:
إنه كان حريصا علي قتل صاحبه
مفہوم: بے شک وہ اپنے ساتھی (مسلمان بھائ) کو قتل کرنا چاہتا تھا
(حواله: صحیح بخاری 31 و صحیح مسلم 2888)
ذہن میں رہے کہ یہ وعید اسکے لیے نہیں جو اپنے مال و اسباب اور اہل و عیال
اور دین و ایمان کی حفاظت میں کسی مسلمان یا کافر چور یا ڈاکو یا حملہ آور
سے مقابلہ کرے.
اس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اسکے والدین اسے یہودی یا نصرانی
یا مجوسی بنا دیتے ہیں
(متفق علیہ روایت)
گویا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہونے سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچے معصوم ہوتے
ہیں جسکی دلیل یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ایک صحیح سند سے قول ہے،
مفہوم:
"...اس وقت تک اس بچہ کے اعمال نہیں لکھے جاتے جب تکہ کہ وہ سن بلوغت تک نہ
پہنچ جاۓ."
أَخْبَرَهُ أَنَّ امْرَأَةً وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي النَّبِيِّ صلى
الله عليه وسلم مَقْتُولَةً، فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه
وسلم قَتْلَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ
سیدنا عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غزوہ
(غزوہ فتح) میں ایک عورت مقتول پائ گئ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں
اور بچوں کے قتل پر انکار فرمایا
(صحیح بخاری: 3014)
عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
" مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ
أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ
وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ "
سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے نے فرمایا، مفہوم:
جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوۓ قتل ہوا وہ شہید ہے، اور جو اپنے اہل کی
حفاظت کرتے ہوۓ قتل ہوا وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوۓ قتل ہوا
وہ شہید ہے، اور جو اپنی حفاظت کرتے ہوۓ قتل ہوا وہ شہید ہے
(حوالہ: سنن النسائ، طبع دار السلام رقم:4095 وسندہ صحیح)
بچوں کے علاوہ اس میں وہ بڑے شامل ہیں جو قتل ہوتے وقت اسلام اور صحیح
عقیدہ پر بھی ہوں. کس کس موقع پر قتل ہونے والا شہید ہے اس باب میں بہت سی
صحیح اور حسن روایات موجود ہیں، فی الوقت صرف ایک ہی روایت پر اقتفی کیا
جاتا ہے. یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کسی غیر مسلمان کو یا مسلمان
کو بغیر شرعی عضر کے قتل کیا جاۓ تو یقینا ظلم تو ظلم ہے اور اللہ اسکی
بابت قیامت کے دن ضرور سوال فرماۓ گا اور سخت حساب لے گا.
اللہ تمام ان معصوم بچوں اور اساتذہ جو پشاور کے اسکول یا باجوڑ کے مدرسہ
پر ڈرون حملہ میں شہید کیے گۓ، ان معصوموں پر ظلم کرنے والوں کو انکے ظلم
پر سخت ترین پکڑ فرماۓ. چاہے یہ قتل عام اور ظلم کسی تنظیم نے کیا ہو یا را
اور موساد کے ایجینٹوں نے یا کسی اور نے کیا ہو. اور اللہ قتل ہونے والے
اور شہید ہونے والوں کے ورثا کو صبر جمیل عطا فرماۓ. اس مشکل وقت میں ہمیں
یہ بھی چاہیے کہ اپنا رخ دین اسلام اور قرآن والسنۃ کی طرف موڑ لیں اور
اللہ سے ہر روز خالصتا دعا کریں، اللہ ہمیں ھدایت دے، آمین
یہ ارٹکل تھوڑا دیر سے بھیج رہوں کیونکہ مختلف دلائل جمع کرتے وقت ٹائم لگ
گیا.
اور اللہ ہی ھدایت دینے والا ہے. اللہ مجھے اور آپ کو اپنے دین پر ثابت قدم
رکھے اور اپنے دین کو صحابہ اور سلف الصالحین کے منہج پر صحیح اور حسن
روایت کی روشنی میں اٹھانے، عمل کرنے اور پھیلانے کے توفیق عطا فرماۓ،
آمین، اللھم آمین.
|
|