اسلام کا فروغ بزور تلوار……غلط تعبیر!

تحریر:ڈاکٹر عبدالحمید سیف الازہری

بہت سے لوگ ابھی تک اسلام کے فروغ سے متعلق غلط تعبیرو تفسیر پیش کرتے نظر آتے ہیں،اسلام دشمن ببانگ دہل یہ کہتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا جب کہ باعث حیرت امر یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مصدر اساسی قرآن پاک میں تلوار کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ہم نہیں جانتے کہ یہ لوگ کیوں مصر ہیں کہ اسلام نے جبر و زبردستی اور تلوار کے زور پر غلبہ حاصل کیا اور دنیا بھر میں پھیلا۔درحقیقت اس امر سے اسلام کی صحیح تصویر کو مجروح کرنے کی مشتبہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اسلام کے فروغ سے متعلق امر ماقبل تفسیر کے بالکل برعکس ہے ۔بہت سے مسلمانوں کو کفارمکہ و مشرکین کے ہاتھوں مصائب و مشکلات اور سزاؤں کا صرف اسلیے سامنا کرنا پڑا کیوں کہ انہوں نے برضا و رغبت اسلام کے دامن عافیت میں پناہ حاصل کی۔ بتایا جائے ان پہلے مسلمانوں پر تلوار کس نے اٹھائی جن میں ابوبکر و عمر ،عثمان و علی؟؟ ان کو کس بات نے مجبور کیا کہ وہ اسلام قبول کریں…………؟؟جبکہ دوسری جانب کمزور مسلمانوں کو جنہوں نے اسلام قبول کیا مشرکین مکہ نے زیر عتاب کرکے ان پر ظلم و جور کی انتہائی حدوں کو کراس کیا ،ان مظلوم صحابہ کرامؓ میں حضرت بلال بن رباحؓ،خاندان یاسر ؓ اور ان کی اہلیہ حضرت سمیہؓ پر کس قدر مظالم ڈھائے گئے۔جبکہ تصویر کا ایک اور رخ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ فتح مکہ کے بعد عرب قبائل اپنے شوق و رغبت سے اسلام میں جوق در جوق داخل ہوئے جبکہ ان پر تو کوئی قوت جبر کرنے والی یا ان پر تلوار اٹھانے والی نہ تھی۔ اسی طرح مدینہ کے گرد عرب قبائل نے بھی اسلام کو اپنا اوڑھنا پچھونا بنانا شروع کیا۔اسی سبب ۹ہجری کو عام الوفود کہتے ہیں کہ عرب قبائل پے در پے حضورﷺ کی دست حق پر بیعت کرنے حاضر ہوتے تھے۔

اسلام نے تلوار اٹھانے کی اجازت مشروط دی ہے کہ جب کوئی دین اسلام کی دعوت جو کہ عین فطرت ہے کے راستے میں رخنہ ڈالے یا پھر مسلمانوں پر کوئی دست درازی کرے۔اس کے سوا اسلام نے تلوار کو اختیار کرنے کی کوئی اجازت نہیں دی۔قرآن پاک کی سورۃ انفال ’’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان اﷲ علیٰ نصرھم لقدیر،الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اﷲ ولولا دفع اﷲ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع بیع وصلوات و مساجد یذکر فیھااسم اﷲ……‘‘میں جنگ کی اجازت سے متعلق امر ثابت ہے لیکن اس میں جس سبب کو بیان کیا گیاہے کہ مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ قتال کریں ان لوگوں سے جو ان کے اوپر ظلم ڈھاتے ہیں ،قتال کا حکم اس لیے دیا جاتاہے کیوں کہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے صرف اس لیے نکال دیاگیا کہ وہ اﷲ کو اپنا رب مانتے ہیں………………!اس آیت میں قتال یا جنگ کا حکم دیا گیا ہے اگر ہم اس کو دیکھیں تو اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اﷲ نے مسلمانوں کو قتال کی اجازت دی ہے مطلب یہ کہ جنگ یا قتال اسلام میں اصل نہیں ہے بلکہ ضرورت کے وقت اس کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ،ان کے مال و متاع سے ،ان کو اپنے وطن سے محروم کردیا گیااس کے ساتھ مسلمانوں پر گاہے بگاہے متعدد طرق سے مظالم ڈھائے جاتے تھے اور دعوت اسلام کے راستے کو مسدود کیا جاتاتھا تو ایسے میں اجازت قتال صرف نقصان و ضرر کو دور کرنے کے لئے اجازت دی گئی اوریہ نقصان و ضرر دور کرنے کا سوائے قتال و جنگ کے کوئی راستہ موجود نہ تھا۔

ہم کیسے مان لیں مان لیں کہ اسلام بزور تلوار کے فروغ پایا قرآن پاک کی سورۃ بقرۃ میں ارشاد ہے کہ’’لااکراہ فی الدین قد ربین الرشد من الغی‘‘کہ ’’دین میں اجبار نہیں تحقیق ہدایت کو بیان کیا جاتاہے گمراہی کے مقابل‘‘ہم کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلام صرف دورست و غلط،حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرتاہے اس کے بعدانسان کے سامنے اختیار چھوڑدیتاہے کہ چاہے تو وہ حق کو اختیار کرے اور اگر چاہے تو گمراہی کو اپنائے۔اسی بات کو دوسری آیت میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ’’قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن و من شاء فلیکفر‘‘ کہ’’کہہ دیجئے کہ حق اﷲ کہ پاس ہے چاہو تو ایمان لاؤ اور چاہوتو انکار کردو‘‘مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتاکہ مسلمان صرف دعوت اسلام کو بیان کرنے ظاہر و واضح طور پر بیان کرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اس کے بعد انسان کو اختیار دے دیا جاتاہے وہ چاہے تو اسلام کے پیغام کو قبول کرے اور چاہے تو انکار کرے۔

چلیں اگر مان لیا جائے کہ اسلام جزیرۃ العرب اور اس کے اطراف میں تلوار کے زور پر پھیلا تو بتائیں کہ مشرق و مغرب ،ایشیاء و افریقہ میں اسلا م کیسے پھیل گیا یہاں تو کوئی عرب لشکر قتال کی غرض سے نہیں آیا بلکہ یہاں تو عرب تاجر تجارت کرنے آتے تھے تو یہاں اسلام تاجروں کے ذریعہ پھیلا کیوں کہ ان کے اخلاق و کردار ان کے حسن معاملہ و امانت و دیانت جو کہ ان کو اسلام کے صدقے ملی تھی کو دیکھ کر ایشیائء و افریقہ کے لوگوں نے اسلام کو اپنے زندگی کا مقصد بنالیا۔اس کی دوسری مثال سے سمجھیں کہ حضرت عمروبن العاص ؓ نے جب مصر کو فتح کیا تو انہوں نے وہاں کے باشندوں کی اکثریت جو کہ عیسائی مذہب کے پیروکار تھے ان کو اسلام میں داخل ہونے کا کوئی حکم جاری نہیں کیا بلکہ جن لوگوں نے مصر میں اسلام قبول کیا وہ ان کی ذاتی رغبت و خواہش تھی اور یہ ان جزیرۃ العرب سے آنے والے داعیوں کی عملی دعوت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے۔اگر ایسانہ ہواہوتاتو آج مصر میں ایک بھی عیسائی قبطی موجود نہ ہوتااس سے واضح درس و پیغام ملتا ہے کہ اسلام نے مصر میں کسی پر جبرا اپنے پیغام کو مسلط نہیں کیا۔اسی طرح مسلمانوں نے جب عالم پر قیادت کی توکیسے مان لیں کہ وہ لوگوں پرقبول اسلام فرض یا لازم کرتے تھے کہ آپ اسلام کو قبول کرو جب کہ ان سے اسلام ان کی خدمت و حفاظت کی مد میں جزیہ یعنی ٹیکس وصول کیا جاتاتھااس سے ثابت وہوتاہے کہ وہ لوگ اپنے ادیان پر قائم تھے مسلمانوں کی مملکت کے رہنے کی وجہ سے جزیہ بھی دیتے تھے ان کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گای۔

مندرجہ بالا حقائق سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اسلام نہ تو تلوار کے بل پر پھیلا اور نہ ہی اسلام کسی کے خون ناحق کے بہانے کو جائز سمجھتابلکہ اسلام تو امن و سلامتی اور دائمی کامیابی و کامرانی کی طرف دعوت دیتاہے اور اسلام کے پیغام سے فطرت سلیم اتفاق کرتی ہے ،اسلام سوچنے و سمجھنے ،غور و فکر کرنے والے ذہنوں کو دعوت دیتاہے ،انسانیت کے مقام کو بلند کرتاہے اور اﷲ پاک نے جو قانون دنیا ترتیب دیا ہے اس کی جان صرف اسلام ہی ندا دیتا ہے۔
Khalid Fuaad
About the Author: Khalid Fuaad Read More Articles by Khalid Fuaad: 22 Articles with 18840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.