کریڈٹ کارڈ فراڈ

ہر سال ایک سو ملین امریکی کریڈٹ کارڈ فراڈ کا شکار ہوتے ہیں۔
امریکی صدر اوباما بھی اس فرڈ سے نہ بچ سکے۔

دنیا میں جہاں کمپیوٹر نے انسان کو سہولت دی ہے، وہاں ان کے لئے خطرات اور فراڈ کو بھی جنم دیا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ فراڈ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ہوتے ہیں۔ جن سے امیرکی صدر اوباما بھی نہیں بچ سکے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے تجارتی شہر لندن میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے فراڈ اس قدر زیادہ ہیں کہ یہ اب دنیا میں سرفہرست آگیا ہے،جبکہ مانچسٹر ،برسٹل اور کارڈف فراڈ کے معاملے میں سرفہرست 5 شہروں میں شامل ہیں-فراڈ کے معاملے میں سرفہرست 5 شہروں میں گزشتہ سال پلے متھ، کیمبرج اور بیلفاسٹ شامل تھے۔ لندن میں ہر پانچویں شخص کو ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے فراڈ کی شکایت ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ 40 فیصد افراد کو اس وقت تک فراڈ کا پتہ نہیں چلتا جب تک کہ بینک کا گوشوارہ ان کو موصول نہیں ہوتا- اگرچہ فراڈ کے واقعات بلاامتیاز ہوتے ہیں لیکن ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کی چوری کے سلسلے میں خواتین اور ضعیفوں کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سی پی پی میں کارڈ پروٹیکشن کے سربراہ زومینٹون کا کہنا ہے کہ کارڈ کا فراڈ انتہائی تشویشناک بات ہے جو کہ احتیاطی تدابیر کے باوجود اب بھی جاری ہے-اس اعلان کے باوجود کہ اپنے کھوجانے یا چوری ہوجانے والے کریڈٹ کارڈ کی اطلاع فوری دی جائے۔کارڈ کی چوری کی اطلاع اپنے بینکوں یا کارڈ کمپنیوں کودینے میں اوسطاً 10 گھنٹے کا عرصہ لگتا ہے۔ 2011 میں امریکا کی تاریخ کے سب سے بڑے کریڈٹ کارڈ فراڈ میں تیرہ بھارتی باشندوں ملوث تھے۔ نیویارک کی عدالت میں تیرہ ملین ڈالرکے اس فراڈ کوعالمی سطح پر سب سے منظم گروہ کا فراڈ قرار دیا گیا تھا۔ اس فراڈ کرنے والے گروہ میں ایک سو گیارہ افراد شامل تھے۔ گروہ میں روسی، چینی باشندوں کے علاوہ تیرہ بھارتی بھی شامل تھے۔ اسگروہ کے بارے میں عدالت کے جج نے کہا کہ تھا کہ یہ منظم گروہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا اور پیچیدہ گروہ ہے۔ انتظامیہ نے ان افراد کو چھیاسی چھاپوں کی دوران گرفتارکیا۔عدالت کو بتایا گیا کہ یہ افراد کسی اور کے کریڈٹ کارڈ پر ہنڈ بیگز خریدنے سے لے کر جیٹ طیارے تک چارٹرکرتے تھے۔امریکا میں کریڈٹ کارڈز استعمال کرنے والے صارفین کے ساتھ دھوکہ بازی میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔خود امریکی صدر بھی ایسی واردات کا نشانہ بنا دیے گئے۔ کریڈٹ کے کھاتے میں ایک سال کے دوران ایک سوملین امریکیوں کے ساتھ فراڈ ہو گیا۔امریکی صدر براک اوباما کا کریڈٹ کارڈ اس وقت کام نہ آسکا جب وہ پچھلے ماہ امریکی خاتون اول کے ساتھ نیو یارک کے ایک ہوٹل میں کھانے گئے تھے۔امریکی صدر نے کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں نہ آ سکنے پر کہا '' لگتا ہے میں نے اسے زیادہ استعمال نہیں کیا ہے، اس لیے یہ واپس باہر آ گیا۔''امریکی صدر کی ذمہ داریوں میں ایسے لمحات کم ہوتے ہیں کہ تعطیلات کے علاوہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوشگوار انداز میں نجی طور پر کہیں گھوم پھر سکیں۔ لیکن نیو یارک میں اس طرح کی ایک کوشش میں کریڈٹ کارڈ حائل ہوتا نظر آیا۔امریکی صدر اس مقصد کے لیے اپنی اہلیہ مشعل اوباما کے ساتھ'' بِگ ایپل'' پر عشائیے کے لیے آئے تھے۔ صدر نے کہا اچانک کریڈٹ کارڈ کے جواب دے جانے پر صارفین کے لیے قائم مالی تحفظ کے کے بیورو میں کہا '' لگتا ہے کچھ فراڈ ہو رہا ہے۔''امریکی صدر نے اس حوالے سے ڈیبٹ کارڈز کے استعمال کو محفوظ بنانے کے لیے کچھ مزید اقدامات کرنے کا بھی اعلان کیا۔ سال 2013 میں ایک سو ملین امریکی شہری ایسے کارڈز کی وجہ سے کسی نہ کسی واردات کا نشانہ بن چکے ہیں۔ صدراوباما نے کہا '' میں کھانا پیش کرنے والی خاتون کے سامنے وضاحت کر رہا تھا کہ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ میں اپنے بل خود ادا کرتا رہا ہوں، لیکن اس کے باوجود اس واقعے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔''امریکی صدر کو سالانہ چار لاکھ ڈالر تنخواہ ملتی ہے جبکہ پچاس ہزار ڈالر کی خریداری ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر کر سکتا ہے ۔ پاکستانمیں کریڈٹ کارڈ فراڈ کیس میں رکن پنجاب اسمبلی شمائلہ رانا کا بڑا چرچاہوا تھا۔ ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ شمائلہ رانا پر لاہور کی رہائشی زائرہ ملک نے الزام لگایا تھا کہ مسلم لیگ نواز کے رکن پنجاب اسمبلی نے کریڈٹ کارڈ چوری کر کے اس سے خریداری کی ہے۔ آج کل کے دورمیں کریڈٹ کارڈ ایک عالمی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا کے ہر کونے میں قابلِ قبول ہیں۔ امریکا کے کسی بینک کا جاری کردہ کریڈٹ کارڈ کراچی میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور پاکستان کے کسی بھی شہر میں موجود کسی بینک سے بنوایا گیا کریڈٹ کارڈ یورپ ہو یا امریکا، کہیں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کریڈٹ کارڈ حاصل کرنے کے لیے کسی بینک کا اکاؤنٹ ہولڈر ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ اپنی مالی حیثیت کے اعتبار سے اسے باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔کریڈٹ کارڈ دراصل ایک فوری نوعیت کا ’’قرضہ‘‘ ہوتا ہے جو کہ بینک آپ کو دیتا ہے۔ بینک آپ کی طرف سے رقم کی ادائیگی کرتا ہے اور آپ پھر یہ رقم بینک کو واپس ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ بینک کے مقرر کردہ وقت (جو 20 سے 55 دنوں تک ہوسکتا ہے) کے دوران رقم کی ادائیگی کردیتے ہیں تو بینک آپ سے کوئی سود طلب نہیں کرتا۔ لیکن اگر رقم کی ادائیگی مقررہ وقت کے دوران نہیں ہوتی تو بینک اپنی دی ہوئی رقم پر سود (مارک اَپ ) بھی طلب کرتا ہے۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ یہ سود عام قرضے کے مقابلے میں خاصا زیادہ ہوتا ہے۔جس کے بارے میں صارفین کو اندازہ نہیں ہوتا۔کریڈٹ کارڈ کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ اس کی بے شمار سہولیات ہیں۔ کریڈٹ کارڈ سے آپ آن لائن شاپنگ کے علاوہ دیگر کئی کام لے سکتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں ریستوران، شاپنگ سنٹر، اسپتال، پیٹرول پمپ، اسٹورز وغیرہ سے خریداری کے بعد کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی کر سکتے ہیں۔ بڑی رقم کو اپنے ساتھ لے کر گھومنا ایک خطرناک کام ہے اس لئے کریڈٹ کارڈز بڑی رقوم کی ادائیگی کے لئے بھی باکثرت استعمال ہوتے ہیں۔کریڈٹ کارڈ کی دو قسمیں زیادہ مقبول ہیں، ایک ماسٹر کارڈ اور دوسرا ویزا کارڈ۔ یہ بنیادی طور پر نیٹ ورکس ہیں جو کہ رقوم کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا کام کرتے ہیں۔ ایسے دیگر نیٹ ورکس میں امریکن ایکسپریس ، ڈسکوری اور یونین پے بھی خاصے معروف ہیں۔یہ کریڈٹ کارڈز چونکہ آسان اور فوری قرضہ فراہم کرتے ہیں جسے مقررہ دِنوں میں واپس کرنے پر کوئی مارک اَپ بھی نہیں دینا ہوتا یا اسے آسان اقساط میں ادا کیا جاسکتا ہے،اس لئے لوگوں نے بے دریغ کریڈٹ کارڈ بنوانے شروع کر دیے۔ بٹوے میں کریڈٹ کارڈ کی موجودگی اطمینان کا باعث ہوتی ہے کہ آپ کے پاس پیسے ہوں نہ ہوں کریڈٹ کارڈ موجود ہے جس سے آپ ہزاروں روپے کی خریداری یا ادائیگی کر سکتے ہیں۔کریڈٹ کارڈ پاکستان میں بھی انتہائی مقبول ہے اس کے علاوہ آن لائن خریداری کا عمل بھی ہمارے ہاں جاری ہے۔ اپنے کریڈٹ کارڈ سے آپ باآسانی بیرون ممالک سے بھی اشیا پاکستان منگوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی قبول کرنے والے ہزاروں مرچنٹس بھی موجود ہیں۔

پیسوں کا لین دن سب ایک الیکٹرانک کارڈ کے ذریعے ہو رہا ہو تو بھلا ہیکرز کی رال کیوں نہیں ٹپکے گی…؟؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہیکرز کیسے کریڈٹ کارڈ سے فائدہ اْٹھاتے ہیں بلکہ کریڈٹ کارڈ چوری کیسے کرتے ہیں؟کسی کریڈٹ کارڈ کا گم یا چوری ہونا یا مرچنٹ کے پاس بھول آنا ایک غیر معمولی بات ہے اور یہ واقعہ بہت کم پیش آتا ہے۔ ویسے بھی کارڈ کی گمشدگی کے فوراً بعد صاحبِ کارڈ اسے بلاک کروا دیتے ہیں اس لیے اس سے نقصان کا اندیشہ ختم ہو جاتا ہے۔لیکن اگر ایسا ہی ہے تو پھر کیسے ہیکرز نے آج تک کریڈٹ کارڈز کے ذریعے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ڈالر کے فراڈز کیے ہیں؟ جبکہ مزیدار بات یہ ہے کہ ہیکر کسی کا کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہوئے ہزاروں روپے کی خریداری کر جاتے ہیں لیکن کریڈٹ کارڈ مالک کو یہ نقصان برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ تو پھر نقصان کس کا ہوتا ہے؟

کریڈٹ کارڈ دھوکے بازیوں کی بات کی جائے تو اس کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والا ملک امریکا ہے۔ امریکن شہری ہر چھوٹی بڑی خریداری کے لیے تقریباً کریڈٹ کارڈ ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہیکرز کا نشانہ بھی زیادہ بنتے ہیں۔ جیب میں پیسے رکھنے کی بجائے اگر آپ ایک مقناطیسی پٹی پر انحصار کرنا شروع کر دیں گے، جو کہ باآسانی کاپی بھی کی جا سکتی ہو تو چالاک ہیکرز کا نشانہ بننا کوئی بڑی بات نہیں۔سب سے پہلے کریڈٹ کارڈ صارف سوچتا ہے کہ آخر اس کا کریڈٹ کارڈ کوئی دوسرا کیسے استعمال کر سکتا ہے کیونکہ کارڈ تو ہر وقت ان کے بٹوے میں موجود ہوتا ہے۔ اگر آپ بھی آج تک یہی سوچتے رہے ہیں تو یقین جانیں آپ بہت ہی بھولے ہیں۔ ایک کریڈٹ کارڈ سے آن لائن خریداری کے لیے آپ کو تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے کریڈٹ کارڈ کا نمبر، اس کی تاریخ تنسیخ یا ایکسپائری ڈیٹ اور سی وی وی (Card Verification Value) نمبر۔اس کے علاوہ بعض اوقات نام اور پتا بھی درکار ہوتا ہے۔تین اعداد پر مشتمل سی وی وی کوڈ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو کہ کریڈٹ کارڈ کی پچھلی جانب کارڈ کے اعداد کے آخر میں لکھا ہوتا ہے۔ بینک کی جانب سے ہدایت ہوتی ہے کہ یہ اعداد نوٹ کرنے کے بعد اسے کارڈ پر سے اسکریچ کر دیں تاکہ پڑھنے کے قابل نہ رہیں۔ اگر آپ کا کارڈ خدانخواستہ چوری یا گم ہو جائے تو ان تینوں تفصیلات کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی باآسانی آن لائن خریداری کر سکتا ہے۔اگر کارڈ گم یا چوری نہیں ہوا تو پھر ہیکر کریڈٹ کارڈ کی معلومات تک کیسے پہنچتے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب بہت ہی آسان ہے۔ دراصل خود کریڈٹ کارڈ صارفین اپنی یہ معلومات بانٹتے پھرتے ہیں۔ جب کسی جگہ شاپنگ کرنے کے بعد یا گاڑی میں ایندھن بھروانے کے بعد ادائیگی کے لیے آپ بے فکر ہو کر اپنا کارڈ دکاندار کو تھما دیں گے تو سوچیں پہلا خطرہ تو یہیں سے شروع ہو گیا۔ اگر کارڈ کی معلومات نوٹ کر لی جائیں جو کہ صرف ایک منٹ کی کارروائی ہے۔ اسکمنگ (Skimming) کہلانے والی یہ تکنیک دنیا بھر میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس طریقے میں کریڈٹ کارڈ کی معلومات کاغذ پر نوٹ کرکے ، کریڈٹ کارڈ کی فوٹو کاپی کرکے یا Skimmer مشین کے ذریعے چرائی جاتی ہیں۔ Skimmer مشین ایک الیکٹرانک آلہ جو کہ پوائنٹ آف سیل (جس پر کریڈٹ کارڈ کو رگڑا یا سوائپ کیا جاتا ہے) جیسی ایک مشین ہوتی ہے۔ اس پر جب کسی کریڈٹ کارڈ کو سوائپ کیا جاتا ہے تو یہ اس کی معلومات کو ریکارڈ کرلیتا ہے۔ مثلاً اسٹور پر آپ نے گھر کا راشن لینے کے بعد ادائیگی کے لیے اپنا کارڈ پیش کیا، دکاندار نے بخوشی کارڈ لیا اور ایک مشین پر آزمایا۔ مشین نے کارڈ قبول نہیں کیا، اس نے پاس پڑی دوسری مشین پر آزمایا اور کارڈ چل گیا، آپ نے رسید پر دستخط کر کے دکاندار کے حوالے کی اور اپنا سامان لے کر گھر چلے گئے۔ اسکمنگ کے لیے اسی طرح کے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بظاہر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ایک مشین نہ چلی لیکن دوسری چل گئی۔ حالانکہ اس اضافی مشین کو کریڈٹ کارڈ کی تفصیلات نوٹ کرنے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

قانونی طور پر تمام ویب سائٹس جہاں کریڈٹ کارڈ قبول کیا جاتا ہے، اس بات کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ صارفین کے کریڈٹ کارڈز کی معلومات اپنے پاس محفوظ نہ رکھیں اور اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو صارف کے علم میں لا کر یہ عمل کیا جائے۔ چوری شدہ کریڈٹ کارڈز کی تفصیلات بیچنے کا کاروبارہ کافی پھیل چکا ہے۔ ایسے کریڈٹ کارڈ جن کی زیادہ سے زیادہ درست معلومات دستیاب ہو، 100 ڈالر تک میں فروخت ہوتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ سے آن لائن خریداری کے لیے صرف تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کریڈٹ کارڈ کے حوالے سے جتنی زیادہ درست معلومات موجود ہو گی، جیسے کہ صارف کا ایڈریس و فون نمبر، کریڈٹ کارڈ اتنا ہی مہنگے داموں بِکتا ہے۔ یہ اضافی معلومات آن لائن خریداری کے دوران چوری کی جاتی ہیں۔ کیونکہ اکثر ویب سائٹس پر خریداری کے لیے آپ کو یہ دیگر معلومات بھی تصدیق کے لیے فراہم کرنی ہوتی ہیں تاکہ پتا چل سکے آپ اپنا ہی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح کریڈٹ کارڈ تفصیلات چوری کرنے والے زیادہ تر انھیں خود استعمال نہیں کرتے تاکہ ان کی ساکھ برقرار رہے لیکن انھیں بیچ کر ضرور کچھ پیسے بنا لیتے ہیں۔ اس بے ایمانی کے دھندے میں ایمانداری عروج کی ہوتی ہے۔ چوری شدہ کارڈ بیچنے والے مکمل یقین دہانی کراتے ہیں کہ کارڈ درست اور کارآمد ہے لیکن اگر کارڈ بلاک ہو چکا ہو تو اس کے بدلے نیا کارڈ نمبر فراہم کیا جاتا ہے۔

سیاہ ویب (ڈارک ویب) کا ایک بڑا حصہ اسی مقصد کے لئے مخصوص ہے۔ سیاہ ویب انٹرنیٹ کا وہ خفیہ حصہ ہے جو کسی سرچ انجن کی دسترس میں نہیں۔ ان کے بارے میں گوگل پتا لگا پاتا ہے نہ بِنگ۔ SilkRoad نامی ویب سائٹ جو کہ اب بند کی جاچکی ہے، اس کام کے لئے خاصی مقبول تھی۔ لیکن سلک روڈ اس کی صرف ایک مثال ہے، ایسی ہزاروں ویب سائٹس موجود ہیں جو کہ اس کام میں ملوث ہیں۔کریڈٹ کارڈ چوری کرنے کے بعد اس بات کی تصدیق کے لئے کہ آیا کریڈٹ کارڈ چل رہا ہے کہ نہیں، ایک دلچسپ ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ ہیکرز مختلف رفاعی اداروں کی ویب سائٹس جو کریڈٹ کارڈ کے ذریعے امداد قبول کرتی ہیں ، چوری شدہ کریڈٹ کارڈ سے ان پر 1سے 2 ڈالر کی ’’امداد‘‘ دیتے ہیں۔ اس سے دو فائدے ہوتے ہیں، پہلا کریڈٹ کارڈ کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ آیا وہ چل رہا ہے کہ نہیں۔ دوسرا چونکہ چارج کی گئی رقم بہت معمولی ہوتی ہے کہ تو کریڈٹ کارڈ مالک بھی اسے بیشتر مواقع پر نظر انداز کرتے ہوئے رپورٹ نہیں کرتا۔ اس طرح کریڈٹ کارڈ بلاک ہونے سے بھی بچ جاتا ہے۔ تیسرا فائدہ ، معمولی ہی سہی، لیکن رفاعی ادارے کو ہوتا ہے کہ انہیں امداد مل جاتی ہے۔چوری شدہ کریڈٹ کارڈ نمبرز کا استعمال کرتے ہوئے ہیکرز زیادہ تر ایسی چیزیں خریدتے ہیں جنھیں وصول کرنا آسان اور بے نشان ہو۔ مثلاً ایسے واؤچرز یا گفٹ کارڈز (مثلاً ایمزون گفٹ کارڈز ) جن سے آگے مزید شاپنگ کی جا سکے، سافٹ ویئر کے لائسنس وغیرہ۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے حصول کے لئے انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اِدھر ہیکر نے درست کریڈٹ کارڈ نمبر فراہم کیا، اْدھر لائسنس یا گفٹ واؤچر اِن کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اب ہیکرز کرتے یہ ہیں کہ سافٹ ویئر کا لائسنس کسی اور کو سستے داموں فروخت کردیتے ہیں۔ گفٹ کارڈز یا واؤچرز بھی کیش کی دوسری شکل ہیں۔ زیادہ تر کریڈٹ کارڈ چور گفٹ کارڈ خریدنے کے بعد ان سے الیکٹرانکس اشیاء جیسے کہ موبائل فون، کمپیوٹر، گیم کنسول، ٹیبلٹس وغیرہ خریدتے ہیں۔ یہ ایسی اشیاء ہیں جو فوراً فروخت ہوجاتی ہیں اور ان کی قیمت بھی اچھی مل جاتی ہے۔ کچھ ہیکرز اس سے مختلف طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ انڈر گراؤنڈ ویب سائٹ جو کہ ڈارک ویب کا حصہ ہیں، پر قیمتاً ایسے افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو کہ اپنے پتے پر ارسال کیا گیا پیکٹ واپس ہیکر کے پتے پر ارسال کردیتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے فری لائنسنگ ویب سائٹس بھی استعمال کی جاتی ہیں جہاں معصوم اور بھولے بھالے لوگ ان ہیکرز کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتے ہیں اور کچھ پیسوں کے عوض ہیکرز کو اپنا ایڈریس استعمال کرنے دیتے ہیں۔ہیکرز یہ سب اپنی شناخت چھپانے کے لئے کرتے ہیں اور اسی کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ان چوروں تک پہنچنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ایک تکنیک ہیکرز یہ بھی اختیار کرتے ہیں کہ چوری شدہ کریڈٹ کارڈز کے ذریعے وہ اپنے پری پیڈ ڈیبٹ کارڈز میں پیسے ڈلواتے ہیں اور پھر اس ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے آن لائن خریداری کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اتنے بڑے پیمانے پر ہورہا ہے کہ اس کی وجہ سے ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔آن لائن فروخت کی ویب سائٹس ان تمام باتوں سے باخبر ہیں اس لیے وہ اپنی پوری کوشش کرتی ہیں کہ خریدار کی چھان بین کریں۔ کچھ ویب سائٹس کریڈٹ کارڈ چارج کرنے سے پہلے صارف کو فون کرکے تصدیق کرتی ہیں۔ ایک دفعہ چوری شدہ رپورٹ ہونے والے کارڈز کو یہ ہمیشہ کے لیے بلاک کر دیتے ہیں۔یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ کریڈٹ کارڈ مالک کو کارڈ چوری اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان نہیں برداشت کرنا پڑتا۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ نقصان بینک کا بھی نہیں ہوتا جس نے کریڈٹ کارڈ کے عوض مرچنٹ (Merchant) کو رقم ادا کی ہے۔ نقصان سارا مرچنٹ کا ہوتا ہے، اسے اْس چیز کی قیمت بھی نہیں ملتی جو اس سے خریدی گئی ہے اور مرچنٹ جس بینک کا پوائنٹ آف سیل یا پیمنٹ گیٹ وے استعمال کررہا ہوتا ہے، وہ بینک بھی مرچنٹ سے ’’چارج بیک‘‘ کے نام پر رقم وصول کرتا ہے۔ تاہم ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ اگر کریڈٹ کارڈ مالک یہ بات ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے کہ اس نے خریداری نہیں کی تو پھر نقصان اسے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی کوفت ، وقت کا ضیاع اور جھنجلاہٹ رقم کے نقصان کے علاوہ ہیں جو صارف کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔اگر آپ سمجھ رہے تھے کہ یہ سب بیرون ممالک کی کہانیاں ہیں تو آپ غلط ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی جاری ہے۔ جیسا کہ ہم نے بتایا کہ کریڈٹ کارڈ کہیں کابھی ہو کہیں بھی استعمال ہو سکتا ہے تو پاکستان میں بھی یہ فراڈز جاری ہیں۔ چوری شدہ پاکستانی کریڈٹ کارڈز بھی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں بکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد خاصی کم ہے لیکن ہے ضرور۔ نیز، پاکستان میں موجود ہیکرز بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں قانون کی عمل داری اور خاص طور پر ڈاک کا نظام کسی تعارف کا محتاج نہیں، اس لئے پاکستانی Scammers بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے کریڈٹ کارڈز کو دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں اور ایسی مصنوعات پاکستان میں منگواتے ہیں جو کہ یہاں با آسانی فروخت ہوجاتی ہیں۔ چونکہ ایسی مصنوعات پاکستان میں بذریعہ غیر رجسٹرڈ ڈاک منگوائی جاتی ہیں اس لئے ان کی ڈیلیوری کا ریکارڈ بھی مرتب نہیں ہوتا۔ یہاں محکمہ ڈاک کے ملازمین اور کسٹم حکام سے گٹھ جوڑ کرکے اشیاء حاصل کرلی جاتی ہیں۔ ماضی میں پاکستان سے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے فراڈ کرنے والے بڑے بڑے گروہ پکڑے گئے ہیں لیکن یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔

سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لیے کوششیں عرصے سے جاری ہیں، لیکن فراڈ کے نت نئے ذرائع بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ فراڈ سے بچنے کے لیے آپ کوشش کریں کہ اپنی ذاتی معلومات کسی کو مت دیں۔ جب تک بینک کے کاروباری نمبروں سے کال نہ آئے، فون پر کسی کو بھی اپنے بارے میں کوئی معلومات مت فراہم کریں۔ بینک کی جانب سے ہر ماہ ارسال کی جانے والی کریڈٹ کارڈ اسٹیٹمنٹ کا بغور مطالعہ کریں اور کسی بھی ایسی ٹرانزیکشن جو کہ آپ نے نہیں کی، کے بارے میں فوراً بینک کو مطلع کریں۔جب بھی اپنا کریڈٹ کارڈ آپ کسی مرچنٹ پر چارج کروائیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ مرچنٹ آپ کے سامنے ہی کارڈ کو چارج کرے۔ عام طور پر کریڈٹ کارڈ سے کی گئی ہر خریداری کی فوری اطلاع بذریعہ ایس ایم ایس بھی صارف کو موصول ہوجاتی ہے۔ اس سہولت کو ضرور زیرِاستعمال رکھیں اور وہی نمبر استعمال کریں جو ہر وقت آن ہو۔کریڈٹ کارڈ فراڈ سے اپنے صارفین کو بچانے کے لئے پاکستانی بینک کریڈٹ کارڈ کو اس وقت تک انٹرنیٹ پر استعما ل کے قابل نہیں بناتے جب تک صارف انہیں فون کرکے خود ایسا کرنے کو نہ کہیں۔ عموماً اس کے لئے Session کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ صارف جب چاہے سیشن کو بند بھی کرواسکتا ہے تاکہ کوئی بھی اس کے کارڈ کو انٹرنیٹ پر استعمال نہ کرسکے۔اگر آپ کو کسی خریداری کی اطلاع ملے جو کہ آپ نے نہیں کی تو پریشان ہوئے بنا اپنے بینک سے رابطہ کر کے اس کی شکایت درج کروائیں۔ ایسے مرچنٹس پر اپنے کریڈٹ کارڈ کو چارج کرنے سے گریز کریں جن کی شہرت اچھی نہ ہو۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419241 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More