رسول اﷲ ﷺ کی آمد:عیدوں کی عید
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
از:پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود
احمدنقشبندی
(ایم۔اے؛ پی۔ایچ۔ڈی)
منجانب: رضالائبریری ،مقابل بس اسٹینڈمالیگاؤں
اﷲ نے سب سے پہلے نور محمدی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا،(۱)
نبوت سے سرفراز کیا،(۲) درودوں کا سلسلہ شروع ہوا …… فرشتے پیدا ہوئے تو وہ
بھی درود و سلام میں شریک ہو گئے، اور جب وہ نور دنیا میں آیا (۳) تو انسان
بھی شریک ہو گئے(۴)…… اگر سمجھنے والے سمجھیں تو یہ بھی جشن کا ایک انداز
ہے…… اﷲ اکبر! روز اول سے ذکر و اذکار ہو رہے ہیں اور خوشیاں منائی جا رہی
ہیں…… اﷲ کو اپنے پیاروں سے بڑی محبت ہے، ان کی نشانیوں کو اپنی نشانی بنا
دیا(۵) اور تعظیم و تکریم کا حکم دیا(۶)…… ان کے یادگار دنوں کو اپنا
یادگار دن بنا دیا(۷) اور ارشاد فرمایا…… ’’اور انھیں اﷲ کے دن یاد
دلاؤ‘‘(۸)…… انبیا علیہم السلام کا یوم ولادت بھی اﷲ کے دنوں میں سے ایک دن
ہے…… یوم ولادت کی اہمیت کا اندازا قرآن کریم سے ہوتا ہے…… حضرت یحییٰ علیہ
السلام کے لیے ارشاد فرمایا…… ’’سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا‘‘(۹)……
حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس جہانِ رنگ و بومیں پیر کے دن تشریف
لائے……آپ اظہار تشکر کے لیے پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے، جب پوچھا گیا تو
فرمایا…… ’’اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘(۱۰) ……
حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی تاریخ بعض روایات کے
مطابق ۱۲؍ربیع الاول ۵۶۹ء ہے جس کی تائید تین چار ہزار برس پرانے شواھد سے
بھی ہوتی ہے(۱۱)…… تو ’’پیر‘‘ کے دن اور ۱۲؍ربیع الاول کو حضور انور صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم سے خاص نسبت ہے اور نسبتوں ہی سے بلندیاں نصیب ہوتی ہیں……
اﷲ تعالیٰ نے حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر احسان
جتایا،(۱۲) احسان اس لیے جتایا جاتا ہے کہ اس کو یاد رکھا جائے، یاد کیا
جائے ، فراموش نہ کر دیا جائے…… پھر خوشیاں منانے کا بھی حکم دیا(۱۳)……
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اﷲ سے عرض کیا…… ’’ہم پر آسمان سے خوان نعمت
اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کی‘‘(۱۴) …… یہ بات
قابل توجہ ہے کہ ’’خوانِ نعمت‘‘ اترے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دن عید
منائیں اور جب ’’جانِ نعمت ‘‘ اترے تو وہ دن عید کا دن نہ ہو؟…… جس رات
قرآن کریم اترا وہ رات ہزار مہینوں سے بہتر قرار پائے (۱۵) اور جس دن وہ
قرآنِ ناطق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اترا اس رات کی عظمت کا کیا عالم
ہوگا؟……
شب قدر ہر سال منائی جاتی ہے تو وہ رات کیوں نہ منائی جائے جس رات آقائے
دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے…… اﷲ نے فرمایا…… ’’اپنے رب کی
نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘(۱۶)…… امام بخاری فرماتے ہیں: سب سے بڑی نعمت تو
خود حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں(۱۷) تو چاہیے ان کا چرچا کیا جائے……
حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خود بر سر منبر اپنا ذکر ولادت
فرمایا(۱۸)…… بعض صحابۂ کرام کو حکم دیا اور انھوں نے آپ کے فضائل و شمائل
بیان کیے(۱۹)…… آپ کے چچا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ۹۰ھ/۶۳۰ء میں
غزوۂ تبوک سے واپسی پر آپ کے سامنے منظوم ذکر ولادت فرمایا(۲۰)…… حضرت حسان
بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے
خود منبر پر چادر شریف بچھائی اور انھوں نے منبر پر بیٹھ کر آپ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں قصیدہ پیش کیا(۲۱)…… آپ نے دعاؤں سے نوازا……
یہ تمام حقایق احادیث میں موجود ہیں۔
مشہور تبع تابعی حضرت مالک بن انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب حضور اکرم صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری پیاری باتیں سناتے تو بڑا اہتمام فرماتے(۲۲)
ٹھیک ایسا ہی اہتمام جیسا آج علما و مشایخ کی بعض محافل میں نظر آتا ہے……
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو
سرکار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حضور نذر و نیاز پیش فرماتے
تھے(۲۳) اور یہ طریقہ اب تک رایج ہے…… ابن تیمیہ بھی محافل میلاد منعقد
کرنے والے مخلصین کی تائید کرتے ہوئے اجرو ثواب کی بشارت دیتے ہیں(۲۴)……
مجالس میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کوئی نئی چیز نہیں صدیوں سے اس
کا سلسلہ جاری ہے اور اس کی اصل عہد نبوی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں
موجود ہے…… حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے والد ماجد حضرت شاہ
عبدالرحیم علیہ الرحمہ پابندی کے ساتھ یوم ولادت باسعادت پر کھانا پکا کر
فقرا میں تقسیم کرتے تھے(۲۵)…… خود حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کے صاحب
زادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا معمول تھا کہ ۱۲؍ربیع الاول
کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی
تقسیم کرتے(۲۶)…… حضرت شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ مکہ معظمہ میں ایک محفل
میلاد میں شریک ہوئے جہاں آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ انوار و تجلیات کی بارش
ہو رہی ہے(۲۷)…… مولوی رشید احمد گنگوہی کے مرشد حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی
علیہ الرحمہ محفل میلاد کو ذریعۂ نجات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتے اور کھڑے
ہو کر صلاۃ وسلام پیش کرتے(۲۸)…… مفتی اعظم شاہ مظہراﷲ دہلوی علیہ الرحمہ
۱۲؍ربیع الاول کو ہر سال بڑے تزک و احتشام سے محفل میلاد منعقد کراتے جو
نمازعشا سے نماز فجر تک جاری رہتی، پھر کھڑے ہو کر صلاۃ و سلام پیش کیا
جاتا اور مٹھائی تقسیم ہوتی، کھانا کھلایا جاتا(۲۹)…… اﷲ کے بعض فرشتے بھی
کھڑے ہو کر صلاۃ وسلام پیش کر رہے ہیں(۳۰) تو یہ فرشتوں کی سنت ہے…… سات سو
برسوں پہلے فاضل جلیل امام تقی الدین سبکی علیہ الرحمہ علما کی محفل میں
تشریف فرما تھے وہاں حسانِ وقت امام صرصری کا نعتیہ شعر پڑھا گیا جس میں
ذکر مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وقت کھڑے ہونے کی آرزو کی گئی تھی،
شعر کا سننا تھا کہ سارے علما کھڑے ہو گئے(۳۱)…… تو کھڑے ہو کر صلاۃ و سلام
پیش کرنا صلحاے امت کی بھی سنت ہے…… حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ
الرحمہ کھڑے ہو کر صلاۃ وسلام پیش کرتے تھے اور اس کو قبولیت کا ذریعہ
سمجھتے تھے(۳۲)……
حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں
وہ اﷲ کے نزدیک بھی اچھی ہے(۳۳)…… اور یہ بھی فرمایا: جس نے اسلام میں اچھا
طریقہ نکالا اس کے لیے اس کا ثواب ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب
بھی(۳۴)……آپ نے یہ بھی فرمایا: ہر حال میں سواد اعظم(۳۵) اور جماعت و جمہور
کے ساتھ رہو(۳۶)…… تو مجالس میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اہتمام
، حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم، صحابۂ کرام، تابعین و تبع تابعین اور
صلحاے امت کی سنت ہے اور ان کے عمل سے ثابت ہے……
محبت کی فطرت ہے کہ عاشق ہمیشہ اپنے محبوب کی تعریف و توصیف اور ذکر و
اذکار سننا پسند کرتا ہے بلکہ دل سے چاہتا ہے کہ ہر وقت اس کا ذکر ہوتا
رہے، کوئی ایسا عاشق نہ دیکھا جو محبوب کا ذکر کرنے والے سے الجھتا ہو اور
اس کو برا بھلا کہتا ہو کیوں کہ یہ محبت کی فطرت کے خلاف ہے…… سچی بات تو
یہ ہے کہ اصل خوشی منانا تو یہ ہے کہ ہر دن اور ہر آن ظاہر و باطن میں
سنتوں پر عمل کریں، پھر ہر سال محبوب رب العالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
کی آمد آمد کی خوشی منائیں جس طرح ہمارے ان اکابر و اسلاف نے خوشی منائی جن
کے دم سے اسلام کی رونق ہے، مولوی رشید احمد گنگوہی کے استاد شاہ عبدالغنی
محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے خوب فرمایا…… ’’میلاد شریف کی خوشی کرنے میں ہی
انسان کی کامل سعادت ہے‘‘(۳۷)…… اﷲ تعالیٰ حضور انور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کی ایسی سچی محبت عطا فرمائے کہ ہم خود بہ خود سنتوں کے سانچے میں
ڈھلتے چلے جائیں اور ہمارا وجود دوسروں کے لیے مینارۂ نور بن جائے…… آمین
بجاہ سیدالمرسلین رحمۃللعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہٖ واصحابہٖ وسلم۔
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی ست
حوالہ جات
(۱) مدارج النبوۃ، ج۱،ص۲ (۲) اشعۃاللمعات،ص۲۷۴ (۳) سورۂ مائدہ:۱۵۰ (۴) سورۂ
احزاب (۵) سورۂ بقرہ:۱۵۸ (۶) سورۂ حج:۳۲ (۷) تفسیر خازن و مدارک (۸) سورۂ
ابراہیم:۵ (۹)سورۂ مریم:۱۵ (۱۰)ابن اثیر، اسدالغابہ،ج۱،ص۲۱۔۲۲ (۱۱)بھگوت
پران اسکند (۱۲)سورۂ آل عمران:۱۶ (۱۳)سورۂ یونس۵۸ (۱۴)سورۂ مائدہ:۱۱۴
(۱۵)سورۂ قدر:۳ (۱۶)سورۂ ضحی:۱۱ (۱۷)بخاری شریف،ج۲،ص۵۶۶ (۱۸)ترمذی
شریف،ج۲،ص۲۰۱ (۱۹)زرقانی،ج۱،ص۲۷ (۲۰)ابن کثیر، میلاد مصطفی، ص۲۹۔۳۰
(۲۱)بخاری شریف،ج۱،ص۶۵ (۲۲)اقامۃالقیامہ،ص۴۴ (۲۳)قرۃ الناظر،ص۱۱
(۲۴)الدرالثمین،ص۸ (۲۵)اقتضاء الصراط المستقیم (۲۶)الدرالمنظم،ص۸۹ (۲۷)فیوض
الحرمین،ص۸۰۔۸۱ (۲۸)فیصلۂ ہفت مسئلہ مع تعلیقات،ص۱۱۱ (۲۹)تذکرہ مظہر مسعود،
ص۱۷۶۔۱۷۷ (۳۰)سورۂ صٰفٰت (۳۱) اقامۃالقیامہ (۳۲)اخبارالاخیار،ص۶۲۴ (۳۳)مؤطا
امام محمد،ص۱۰۴ (۳۴)مسلم شریف،ص۱۸ (۳۵)مشکوٰۃ شریف،ج۱، ص۵۸ (۳۶)مشکوٰۃ
شریف،ص۳۱ (۳۷)شفاء السائل |
|