ربیع اول کے بابرکت اور مبارک
مہینہ کا آغاز ہو چکا ہے ۔ اس بابرکت مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی پوری دنیا
اور بالخصوص پاکستان میں محافلِ عید میلاد النبی ﷺکاانعقاد کیا جاتا ہے ۔
تمام دنیا کے مسلمان نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفی ٰ ﷺ کی ولادت با سعادت
کی خوشیاں مناتے ہیں ۔ملک کے طول و عرض کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے
اور میلاد کی محافل منعقد کی جاتی ہیں ۔ ۔ربیع اول کی آمد جہاں ہمیں خوشیوں
سے نوازتی ہے وہا ں اس مہینے کی آمداپنے ساتھ امن وآشتی ،رحمت وبرکت اور
محبت ، کا ایک عالمگیر پیغام بھی لاتی ہے ۔اسلام ایک انسان اور بالخصوص
مسلمان سے جس رویہ یا کردار کی توقع کرتا ہے اس کے لیے قرآن پاک میں واضع
تعلیمات فراہم کر دی ہیں اور ان تعلیمات کی عملی تفسیر نبی پاکﷺ کی حیات ِمبارکہ
کی صورت میں موجود ہے ۔
قرآن پاک میں اﷲتعالی ٰ نے فرمایا ـ" بے شک تمھارے لیے نبی پاکﷺ کی سیرت
اسوۃ حسنہٰ ہے "حضرت عائشہ سے جب پوچھا گیا کہ حضورِپاک ﷺ کے اخلاق کیسے
تھے ؟۔ تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کی!ا تم نے قرآ ن نہیں پڑھا؟گویاآپ ﷺ کی
حیات ِمبارکہ درحقیقت قرآن کی جیتی جاگتی تصویر ہیں ۔ وہ رحمت ِ عالم ،
محبت کا درس دینے والے ، امن کا پیغام دینے والے ، بڑوں کے ساتھ صلہ رحمی
کرنے والے اور بچوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کرنے والے ۔ بہترین سپہ سالار ،
بہترین حکمران ۔اگر کوئی باپ ہے تو حضرت فاطمہ ؓ کے باپ کی پیروی کرے ،اگر
کوئی بیٹا ہے تو اس بیٹے کو دیکھے جو اپنی والدہ ماجدہ کی قبر تک کے سامنے
سر جھکا کے بیٹھے ۔ اگر کوئی شوہر ہے تو حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے
شوہر کودیکھے ۔اگر کوئی ہمسایہ ہے تو اس ہمسائے کو دیکھے جو آپ ﷺ کے اوپر
کوڑا پھینکتی اور جواب میں اس کی تیمارداری کرتے ۔اگر کوئی حکمران ہے تو
مدینہ منورہ کے حکمران کو دیکھے جنھوں نے عملا ایک فلاحی ریاست کی نہ صرف
بنیاد رکھی بلکہ حکمران کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کا سلیقہ
بھی سیکھایا ۔اگر کوئی سپہ سالار ہے تو غزوہ بدروحنین کے سپہ سالارکے اخلاق
کو دیکھے ۔ اگر کوئی فاتح ہے تو فاتح مکہ کو دیکھے ۔اگر کوئی وزیر خارجہ ہے
تو مدینہ منورہ کی خارجہ پالیسی تیار کرنے والے کی پیروی کرے۔گویا انسان کا
کوئی بھی رشتہ ہو ،کوئی بھی شعبہ ہو،الغرض زندگی کی ہر راہ پر راہنمائی کے
لیے بلاشبہ نبی پاکﷺکی سیرت مبارکہ ہمارے لیے ایک نمونہ ہے ۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نبی پاک ﷺ کے اسوۃ حسنہ کو مشعل راہ بنائیں
تاکہ اسلام کو اس کی اصل روح کے ساتھ اہل عالم کے سامنے پیش کیا جا سکے
کیونکہ اسلا م میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اسلام
تو امن وآشتی کا دین ہے جو کہ ہر ایک کے لیے امن اور سکون ہے ۔میں یہاں یہ
واضع کر دینا چاہوں گی کہ جو لوگ اسلام کو آڑ بنا کر بے گناہ مسلمان،
عورتوں اور بچوں پر ظلم ڈھاتے اور بربریت کا مظاہر ہ کرتے ہیں ان کا اسلام
سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ مسلمان کہلانے کے بھی لائق نہیں کیونکہ ان کا یہ
عمل اقوام ِ عالم میں اسلام کی بدنامی اور لوگوں میں اسلام کے لیے نفرت کا
سبب بن رہا ہے ۔ دراصل یہ دین ِاسلام کے حقیقی دشمن ہیں جو اسلام کے نام
پرملک میں دہشت گردی ااور انتہاپسندی کو فروغ دیتے ہیں ۔ان دہشت گردوں اور
انتہا پسندوں کی وجہ سے دنیا بھر میں اسلام کا چہرہ مسخ ہو گیا ہے ۔
آج کی ٹی ٹی پی (طالبان ) کے بارے میں حضور پاک ﷺ نے نشاندہی فرمادی کہ وہ
بہترین قاری ہوں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ اور وہ
قرآن کی وہ آیات جو کفار کے لیے نازل ہوئی وہ مسلمانوں کے لیے پڑھیں گے
اورفساد فی الارض کے ذمہ دار ہوں گے ۔
آج ہمیں من حیث القوم یہ تعین کرنا ہو گا کہ فی زمانہ فساد فی الارض کا ذمہ
دار کون ہے وہ جو سکولوں میں گھس کر نہتے طالبعلموں پر اپنے فاسق عقیدوں کے
کند خنجروں کی دھار آزماتے ہیں۔ وہ جو مسجد میں نماز ادا کرنے والوں کو بم
دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں؟ وہ جو مسجد ضرار میں بیٹھ کر اسلامی مملکت کی
جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف ہیں ۔ یا وہ جو حدیث
رسولﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی مملکت کی سرحدوں اور اس کے بنیادوں کی
حفاظت کرنے میں مصروفِ عمل ہیں اور مسجد ضرار میں بیٹھے ہوئے ان دین دشمنوں
کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ
ہمیں کس کا ساتھ دینا ہے۔
بحیثت فرد ِواحد ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ آج وہ کون سا باپ ہے جو چودہ سو
سال پہلے فاطمہ الزہرا کے والد محترم کی پیروی کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی آمد
پر کھڑا ہو اور اپنی بیٹی کے لیے چادر بچھا تا ہو ۔؟ فی زمانہ باپ بیٹی کی
پیدائش پر سر جھکا لیتے ہیں ۔کیا آج کا شوہر حضرت عائشہ ؓ کے شوہر کی مانند
بیوی کے لیے پیار کرنے والا ہے ۔؟کیا آج کو ئی شوہر اپنی بیوی کا جوٹھا
پانی پی سکتا ہے ؟کیا آج کا جینز پہننے والا ماڈرن بیٹااپنی ماں کا اس حد
تک احترام کر رہا ہے جس کا نبی پاک ﷺ نے اپنی حدیثوں میں حکم دیا ؟ کیا آج
کے دور کا ایک عام مردجو باہر چلتی ہوئی عورت کو گدھ کی نظر سے دیکھتا ہو ،
ان کی پیروی کر سکتا ہے جو کفار کی خواتین کے لیے بھی اپنی چادر پیش کر دیں
؟کیا آج کے حکمران مدینہ منورہ کے حکمران کی طرح فلاہی ریاست کے قیام کے
لیے کام کرتے ہیں ؟اگر غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے میں جتنے بھی مسائل
ہیں ان کی بنیادی وجہ ہماری دین ِ اسلام سے دوری اور محبت کے دعویٰ کے
باوجود نبی پاکﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہونا ہے ۔ ہم نبی پاک ﷺ سے محبت
کا دعوی ٰ توکرتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے ۔محبت کا
تقاضا ہے کہ ہم نبی پاک ﷺ کی سیرت مبارکہ کو پڑھیں اور اپنی زندگی کا ہر
لمحہ سیرت مبارکہ کیمطابق گزاریں ۔ ہم گفتار کے غازی ضرور ہیں لیکن جہاں پر
عمل کی بات آتی ہے وہاں سیرت نبوی ﷺ کی پیرو ی نہیں کرنا چاہتے اوراس کی تو
جیہ یہ دیتے ہیں کہ لو گ کیاکہیں گے ؟توجیہ کوئی بھی ہوعملا مسلمان اسلام
سے دور بھاگ رہے ہیں یہ جانے بنا کہ مسلمان کی بقا ء دین اسلام کی پیروی
میں ہے اور اگر دین سے دور رہیں گے تو کبھی فلاح نہیں پا سکتے ۔آج ساری
دنیامیں مسلمان ایک مغلوب قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں ۔ وہ فلسطین ہو ، کشمیر
ہو ، یا افریقہ کا کوئی ملک مسلمانوں کی حالت ابتر ہے ۔اس کی وجہ بھی دین
اسلام کو چھوڑ کر مغربی نظام ِ زندگی کو اپنا لینا ہے ۔ مسلمان اس وقت تک
مغلوب اور مظالم کی چکی میں پستے رہیں گے جب تک کہ اسلام سے دور رہیں گے ۔
ربیع الاول صرف نذر ونیاز ،نعتیں پڑھنے اور تقاریر کرنے کا مہینہ نہیں ہے
بلکہ یہ مقدس مہینہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ حضور پاک ﷺ کے
اسوۃ حسنہ کے مطابق زندگی گزاریں گے ۔ ہمیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ
اسلام امن وآشتی کا دین ہے ۔ اس بابرکت مہینے میں ہمیں اس عہد کی تجدید
کرنی چاہیے کہ آنے والے سال میں نماز پنجگانہ اور روزہ کے ساتھ ہر وہ کام
کریں گے جن کو نبی پاکﷺ نے پسند فرمایا اور ہر اس کام سے اجتناب کریں جن کو
نبی پاک ﷺ نے ناپسند فرمایا۔اسلام کو نماز اور روزہ تک محدود نہ کریں بلکہ
زندگی کے ہر قدم پر اسلام پر عمل پیرا ہوں ۔ اسلام صرف عبادات کا نہیں بلکہ
زندگی کے ہر رخ ، ہر رشتے کو احسن طریقے سے نبھانے کا نام ہے ۔بحیثیت فرد
اور بحیثیت قوم ہمیں عملا اسلام کو نافذ کرنا ہو گا ۔ |