کہتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر انسان جاہل ہوتا
ہے اور اسے کسی اچھے ، برُے کی تمیز نہیں ہوتی اور ہمارے رسول اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا بھی یہی فرمان ہے کہ تعلیم حاصل کرو چاہے اس کے لئے تمھیں َچین
جانا پڑے آج کل ہر طرف تعلیم عام کرنے کا شور سنائی دیتا ہے اور کہا جا ر
ہا ہے کہ ہم تعلیم کو ہر گھر ، اور ہر جگہ پہنچائیں گے اور کچھ حد تک حکومت
اس کام میں کامیاب بھی ہے اور اس کے لئے حکومت نے چند اچھے فیصلے بھی کئے
ہیں ان کو سراہا بھی جا نا چاہئے۔ لیکن کیا ان کاموں سے تعلیم عام ہو سکے
گی؟ یا زوال آئے گا کیا پرائیویٹ ادارے اپنا حق ادا کر رہے ہیں ؟ یا پھر
کوتاہیاں اور غلطیاں کئے جا رہے ہیں ؟
آج کل ہر شخص یہی کوشش کر رہا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے دو، چار سکول /کالج
بنا لے اور کسی یونیورسٹی اور بورڈ سے الحاق کر لے اور یہ کام مکمل کر لے
تو اس کی آنے والی نسلیں بیٹھ کر کھا سکیں گی اور اس کی زندگی بھی عیش
وعشرت سے گزرے گی ، کالج اور سکول کو الحاق کر کے چلانا شروع کر دے گا۔ تو
پیسہ تو اس کے ہاتھ کی میل ہو گا۔ یا اس کو ایسے بھی بیان کر سکتے ہیں کم
خرچ بالا نشین کے فقرے پر عمل پیر اہے ہمارے بورڈز اور یونیورسٹیز بھی پیسے
بنانے کے چکر میں ہیں وہ کسی کالج /سکول کا رزلٹ اور معیار کو چیک
checkنہیں کرتے ایک دفعہ الحاق کر لینے والے ادارے کو گویا اپنی من مانی
کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے اس کے بعد نہ معیار تعلیم کی نگرانی ہوتی ہے اور
نہ ہی فیسوں کی نگرانی کی جاتی ہے ۔
ہمارے نظام تعلیم میں بہت سے دوسرے محکموں کی رشوت کا کافی لمبا ہاتھ ہے
کیونکہ سکول /کالج کا رزلٹ صحیح آئے نہ آئے کسی کو خوش کر کے اپنے سکول /کالج
کا نام تو پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ، سکول/کالج کی
تعداد میں اضا فہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سکول /کالج کی
ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کرنا ہوتا ہے ( اس میں کالج / سکول کے پرنسپل کی
گاڑی بھی شامل ہونی چاہیے ) تاکہ پرنسپل کسی جگہ آسانی سے آ جا تو سکے اور
اسے بسوں ، ویگنوں میں دھکے تو نہ کھانے پڑیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت
سی ”بیماریاں “ ہمارے نظام تعلیم میں پائی جاتی ہیں جن کو بیان کر نا اپنا
اور اپنے قلم کا فرض سمجھتا ہوں ۔
سرکاری سکول
ہمارے سرکاری سکولوں میں مفت تعلیم اور مار نہیںپیار کا فلسفہ تو دوہرایا
جا رہا ہے لیکن کیا اس بات سے معیار تعلیم پر کوئی فرق پڑا ہے ان اعلانات
سے بچوں کی تعداد تو بڑھ گئی ہے لیکن ہمارا معیار تعلیم جو پہلے ہی کچھ
قابل فخر نہیں کیونکہ ہمارے پیارے پنجاب کے وزیراعلی ٰ نے اساتذہ کے ہاتھوں
کو تو باندھ دیا ہے مگر اس کے متبادل کے طور پر اساتذہ کو دیگر جدید
ٹیکنیکوں سے آراستہ نہیں کیا سکولوں میں۔ ٰٓاے وی ایڈز مہیا نہیں کئے اور
تربیت اساتذہ میں کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایاکہ وہ بچوں پر کسی قسم کی
سختی اور مار ،پیٹ نہیں کریں گے ؟ورنہ ان کے خلاف محکمانہ کاروائی ہو گی
اور اگر کسی طالب علم کو کسی استاد سے شکایت ہے تو وہ اسکے خلاف درخواست دے
سکتا ہے ےر
میں تو یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر اساتذہ اپنے سٹوڈنٹ سے ان کے پرھائے
ہوئے سبق کے متعلق پوچھیں گے نہیں تو اور کیا کریں گے ۔ اور ہمارے students
اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دیں گے تو وہ ہمارے معیار تعلیم کو کیسے بلند
کریں گے اور ہمارے صوبے کا خواب پڑھا لکھا پنجاب کیسے حقیقت بنے گا۔ آگے آپ
خود سوچ سکتے ہیں ایکطرف تو یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف ہمارے teachersبھی
اپنے فرائض سے روگردانی کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ student
پڑھیں یا نا پڑھیں ہماری ملازمت پکی ہے اور یہی ہمارے studentsمیں بھی یہی
سوچ پیدا ہو گئی ہے کہ ہم پڑھیں یا نہ پرھیں پاس تو ہو ہی جانا ہے اور کون
سی ٹیچر سے مار پڑنی ہے اور کون سا ٹیچر نے ہم سے کو ئی سبق پوچھ لینا ہے
اور کون سا آسمان سر پراٹھا لیناہے ٹیچر نے ۔ہمارے سرکاری سکولوں میں اضافہ
ہوا ہے یہ بات بھی خوش آئندہ ہے ۔
لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم دائم ہے کہ پرانے سکولوں میں اساتذہ پورے کیوں
نہیں ہوتے اور کئی کئی سال تک کسی ٹیچر کی سیٹ خالی کیوں رہتی ہےں اور اگر
اس نظر سے دیکھا جائے تو نئے سکول بنانے کا فائدہ کیا پرانے سکولوں میں ایک
ایک ٹیچر پر تین تین۔ چار چار کتابوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے یہ جانے بغیر
کہ وہ اس کام میں perfect ہے بھی یا نہیں وہ سارےsubjects میں کیسے اپنی
acurate perfomance دکھا سکتا ہے وہ سارا سارا دن ایک ہی کلاس میں رہے گا
تو دوسری کلاسیسز کا کیا بنے گا ٹیچر سے مزدور سے بھی برا سلوک کیا جاتا ہے
۔
مہنگے سکول
جیسا کہ اوپر میں نے سرکاری سکولوں کا احوال بیان کر دیا ہے تو اس سے آپ
بھی سرکاری سکولوں کے متعلق جان سکتے ہیں تو جو پڑھنے والے studentsہوتے
ہیں مجبور ہو کر پرائیوٹ کالج /سکول کا رخ کرتے ہیں یہاں سے شروع ہوتا ہے
تعلیم کا کاروبا ر کیونکہ پرائیوٹ تعلیمی ادارے بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں
کہ کوئی کاروبار کیا جائے۔
کئی پرائیوٹ سکول ایسے بھی ہیں کہ جہاں مشکل سے میٹرک کرنے والے طلباء ٹیچر
بنے بیٹھے ہیں اس کے لئے (اس بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ) کسی خاص جگہ
جانے کی ضرورت نہیں نا کسی خاص سکول کا ذکر کر نے کی ضرورت ہے آپ کے اور
میرے اردگرد کافی ایسے ادارے موجود ہیں جن میںیہ کام زوروشور سے جاری ہے
اور وہ پیسے بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
ہر شہر اور قصبہ میں ان لوگوں نے اپنے ڈیر ے جمائے ہوئے ہیں ہر کوئی اپنا
ایک الگ نام پیدا کر نے کی کوشش میں ہے اور ہر طرح سے لوگوں کو پھنسانے کا
موقعہ جانے نہیں دیتے ۔ آخر ان کا کام بھی تو یہی ہے ۔ |