2014 ادب کا تجرباتی افق روشن رہا

اردو نثرو نظم کے تمام تر شعبوں میں نت نئے تجربے ہورہے ہیں،اسالیب کی نئی جہتیں دریافت کی جارہی ہیں،تنقید و تحقیق کے شعبے میںافکارونظریات کے نئے رویے،زاویے متعارف ہورہے ہیں، موجود ادبا، شعرا و ناقدین فن اپنی صلاحیتوںاورفن کارانہ قابلیتوں کا لوہا منوارہے ہیں،تومرحوم اہلِ فن کے جلائے ہوئے چراغ کی لوبھی تیزکرنے کی کوشش جاری ہے۔اس طرح اردو ادب کا قافلہ روشن ماضی سے رشتہ استوار کیے ہوئے تابناک مستقبل کی جانب اپنے سفرکی ایک اورمنزل(۲۰۱۵ء)کی طرف گامزن ہے -

ادبی سرگرمیاں اور ادب کے ذریعے شعور و آگہی کی فراہمی ذمہ دار معاشروں کا وطیرہ رہا ہے ۔ ادب زندگی میں اعتدال پیدا کرنے اور برداشت و ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے میں معاون کردار ادا کرتا ہے ۔ ۲۰۱۴ رخصت ہوا۔ الوداع کہتے کہتے یہ سال ایسا زخم دے گیا جسے بھولنا نا ممکن ہے۔ پیشاور ملٹری اسکول کے معصوم بچوں کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا، تاریخ میں ایسی بدترین مثالیںکم ملتی ہیں۔ ہندوستان میں لوجہاد اور تبدیلی مذہب کی سیاست نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ یہ ہندوستان کا ہی کرشمہ ہے کہ فرقہ واریت کی آگ کو بجھانے کے لیے سیکولر مزاج چہرے سامنے آجاتے ہیں۔ادب سماج کا آئینہ ہوتاہے ،سماج جن مسائل سے دوچارہوتاہے ،ادیب ان مسائل کواپنی تحریروں میں بیان کرتاہے۔

کوئی بھی ادب اسی وقت اپنے اندر زندگی کے آثار، اپنی دنیا میں وسعت اور اپنے چاہنے والوں کے دلوں میںشوق و رغبت پیدا کرسکتا ہے،جب اس کے اندر تحرُّک ہو،تجددہو،مسلسل بڑھتے رہنے اور پنپتے رہنے کا وصف ہواوروقت و حالات کی بالکل بروقت عکاسی کی صفت اس کے اندر پائی جائے۔اوریہ کام وقت کا ادیب کرتا ہے،ادیب کے دل و دماغ کی حصولیابیاں اور اس کے افکارکے نتائج کسی ادب کے اندر خوبیاں پیداکرتے یا اس کی خوبیوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ادبیاتِ علم کی تاریخ میں دوام و وقارواعتبار اسی ادب کو حاصل ہے،جس کے اندرحرکیت ہے، جو جموداورٹھہراؤسے پاک ہے اور جس کا دامن ہر آن ایک سے ایک قیمتی لعل و گہرسے لبریزہوتاہے۔خداکے فضل سے اردو ادب بھی اپنی کم عمری کے باوجود آج اس مرتبے پر پہنچ چکی ہے کہ اس کا شمار دنیاکی اعلیٰ و مقبول ادبیات میں کیاجاتاہے۔اردو نثرو نظم کے تمام تر شعبوں میں نت نئے تجربے ہورہے ہیں، اسالیب کی نئی جہتیں دریافت کی جارہی ہیں،تنقید و تحقیق کے شعبے میں افکار و نظریات کے نئے رویے،زاویے متعارف ہورہے ہیں، موجود ادبا، شعر اوناقدین فن اپنی صلاحیتوں اورفن کارانہ قابلیتوں کا لوہا منوارہے ہیں،تومرحوم اہلِ فن کے جلائے ہوئے چراغ کی لوبھی تیزکرنے کی کوشش جاری ہے۔اس طرح اردو ادب کا قافلہ روشن ماضی سے رشتہ استوار کیے ہوئے تابناک مستقبل کی جانب اپنے سفرکی ایک اور منزل (۲۰۱۵ء)طے کرنے جارہاہے ۔یہ پورا سال اردو ادب کی تاریخ میں کئی اعتبار سے یادرکھے جانے کے قابل ہے،اس سال جہاں عالمی سطح پر اردوزبان و ادب کے فروغ کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور اپنے وطن سمیت خلیجی عربی اوریورپی و افریقی ممالک تک میںاس کے جاننے پہچاننے والوںکی ایک نئی کھیپ تیار ہوئی اورزبان ِ اردو کی عطربیزیوںکا سلسلہ اجنبی شہروں اور ملکوںتک پھیلا،وہیں بعض اعتبار سے اسے خساروں سے بھی دوچار ہونا پڑا،ان میں سے بعض تو ایسے ہیںکہ جن کی بھرپائی بھی تقریباً مشکل ہی ہے،مثلاً ۲۰۱۴ء کے آغازمیں ہی اردو کے نہایت ہی پختہ فکر اور بے باک نقادپروفیسروارث علوی کی وفات پوری دنیاکے لیے حادثۂ جاں کاہ ثابت ہوئی۔وارث علوی معاصر اردو تنقیدکے اہم ستونوں میں شمار ہوتے تھے،اہلِ ادب و تنقید کے یہاں ان کے آراوافکارکی بڑی قدرو قیمت تھی اور انھوں نے اپنے شاداب اور تروتازہ تنقیدی نظریات سے اردو تنقید کو نئی سمتیں دی تھیں،انھوں نے اردو کے اولیں تنقید نگار مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب’مقدمۂ شعرو شاعری‘کے بصیرت افروزتجزیے پر مشتمل ایک کتاب ’حالی،مقدمہ اور ہم‘ لکھی،جس میں انھوں نے اردوتنقیدکے ابتدائی نقوش اور اکیسویں صدی تک آتے آتے اس میں درآنے والی خرابیوں بڑی غیر جانب داری اور ایمانداری سے جائزہ لیاتھا،بہرحال پروفیسروارث علوی اردوادب کی ایک نہایت ہی مقتدرشخصیت تھے۔اردوکے عظیم ادیب،افسانہ نگارانتظارحسین کوستمبر۲۰۱۴ء میںفرانس کااعلیٰ شہری اعزاز’’آفیسرآف دی آرڈرآف آرٹس اینڈلیٹرز‘سے نوازاگیا،یہ شخصی طورپرجہاں انتظارحسین کی ادبی خدمات و فتوحات کا اعتراف تھا،وہیںاردوزبان کی وسعت ومقبولیت کو خراجِ تحسین بھی۔

ہندوستان میں اردوصحافت کے کئی اہم نام اس سال ہمارے درمیان سے اٹھ گئے،جویقیناً اردو زبان، اردو صحافت اور اردوقارئین کے لیے غم انگیز حادثے سے کم نہیں۔اردوکے انتہائی مشہوراخباراورماضی میں ہندوستانی صحافت کو نیارخ دینے والے اخبار’قومی آواز‘کے یگانۂ روزگارصحافی عشرت علی صدیقی کی وفات،دہلی کے صحافتی حلقوںمیں مشہورعتیق احمدصدیقی اورروزنہ انقلاب کے موقرکالم نگاراورتجربہ کاروکہنہ مشق صحافی نافع قدوائی اوراحمدکاظمی کی وفات اردوصحافت کے لیے اس سال کابڑاخسارہ ہے،کیوںکہ موجودہ دورمیںقابل افرادکم یاب ہیں اورجوپرانے اربابِ کمال ہیں،ان کے جانے کے بعدان کی جگہیں ہمیشہ خالی ہی ہوتی جارہی ہیں،قحط الرجال کے اس دور میں ان شخصیتو ںکانعم البدل توکیا،بدل بھی دستیاب ہونا محال ہوتاجارہاہے۔

ادبی اعتبار سے یہ سال کافی اہم رہا ۔ مشہور شاعر منور رانا کو ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازا گیا۔ گوپی چند نارنگ کی کتاب غالب، معنی آفریں، جدلیاتی وضع، شونیتار اور شعریات پرخوب خوب گفتگو ہوئی۔ غالبیات کے باب میں اس کتاب کو ایک گرانقدر اضافہ تسلیم کیاگیا۔ماہنامہ سبق اردو نے اس نابغہ شخصیت پر کافی ضخیم شمارہ شائع کیا۔ اس خصوصی شمارے کی گونج بھی پورے سال رہی۔ اردو ناول کے باب میں مشرف عالم ذوقی کا ناول نالۂ شب گیر ادب نوازوں کے درمیان مسلسل موضوع بحث رہا۔ نالۂ شب گیر کی عورت اکیسویں صدی کی عورت ہے جو سائبر اسپیس اور آئی ٹی کی دنیا سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح ناول کی بات کریں تو شائستہ فاخری کے ناول صدائے عندلیب برشاخ شب کو اردو کے اہم ناولوں میں شمار کیا گیا۔تبسم فاطمہ کا افسانوی مجموعہ ’سیاہ لباس‘اورشعری مجموعہ ’میں پناہ کی تلاش کرتی ہوں‘بھی شائع ہوئی۔ این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹرنے عالمی اردوکانفرنس کرائی ،جس میں قومی وبین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی ۔این سی پی یوایل کی ادبی سرگرمیاں پورے سال جاری رہیں، بین الاقوامی جریدہ ’اردودنیا ‘نےڈاکٹر خواجہ اکرام الدین کی ادارت اورڈاکٹر عبد الحی کی نیابت میں علامہ شبلی نعمانی ،کرشن چندراورخواجہ احمدعباس پرخصوصی مضامین شائع کیے،بچوں کے ادب میں بھی ’بچوں کی دنیا‘میں ادب اطفال کی پیش کش معیاری رہی،اسی طرح سہ ماہی ’فکروتحقیق‘ نے بھی تحقیق وتنقید پر معیاری شمارے شائع کیے ۔ اس سال کی کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس کی صدی تقریبات کے بھی ہنگامے رہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان ، ساہتیہ اکادمی اور اردو اکادمی نے خصوصی پروگرام کیے۔ ساتھ ہی الطاف حسین حالی اور شبلی نعمانی کو بھی یاد کیاگیا۔

اردو رسائل کی دنیا میں آج کل، آمد، ایوان اردو، نیاورق، سب رس، فکرو تحقیق، اردو دنیا، کی حکومت قائم رہی۔ کلکتہ سے نکلنے والے رسالہ انشاء نے ادیبوں کی حیات معاشقہ کو شائع کیا۔جھارکھنڈ سے راوی، امیس سحر جیسے کئی رسائل شائع ہوئے۔ کلکتہ سے جمیل منظر کی نگرانی میں اردو کے پرانے رسالہ سہیل کو پھرسے زندہ کیاگیا۔ اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ رسالہ آجکل نے حسن ضیاکی ادارت میں پابندیٔ وقت کے ساتھ اہم ادبی شخصیات پر خصوصی گوشوں کے ساتھ شائع ہوتا رہا،جس میں کرشن چندر اور خواجہ احمد عباس پر مشتمل شمارے میں معیاری مضامین سے رسالہ مزین رہا۔تخلیق و تنقید میں منفردوممتاز ناقد وتخلیق کارحقانی القاسمی کی ’ادب کولاز ‘کی ادبی حلقوں میںگونج سنائی دیتی رہی اورادباواسکالرس کی توجہ کا مرکز رہی۔ مشہور شاعر،ہندوستانی فلم ساز اورنغمہ نگارگلزارکو داداصاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا۔ پروفیسرشریف حسین قاسمی سابق صدرشعبۂ فارسی دہلی یونیورسٹی کو ان کی زبان وادب میں وقیع خدمات کے اعتراف میںقطر کا عالمی اردوادب ایوارڈ دیا گیا ۔معروف ملی رہنما وماہرتعلیم وقانون مولانا ولی رحمانی سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر کو ان کی دینی ،تعلیمی اورملی خدمات کے لیے’مولانا عبدالجلیل نیشنل ایوارڈ‘سے نوازاگیا۔معروف صحافی تحسین منور کو جرنلسٹ ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک اینڈ پرنٹ اتراکھنڈ کی جانب سے ’مدن موہن ورما یادگاری اعزاز‘سے نوازا گیا۔ اردوڈیولپمینٹ آرگنائزیشن کی طرف سے بھی متعدد شخصیات کو امتیازی خدمات کی بنیاد پرایوارڈ سےنواز گیا ،جن میں ڈاکٹر شفیع ایوب ،شاہنواز صدیقی وغیرہ شامل ہیں۔آل انڈیا ایسوسی ایشن آف عربک ٹیچرس اینڈ اسکالرس بھی عربی وفارسی کو یوپی ایس سی میں بحال کرائے جانے کے لیے پورے سال سرگرم رہی اوراپنے قومی صدرپروفیسرمحمد نعمان خان سابق صدرشعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی کی سربراہی میں مختلف ملی رہنماؤںسے ملاقات بات کا سلسلہ جاری رکھا،اسی طرح عربی زبان وادب کے فروغ کے لیے سیمیناروسمپوزیم اورتوسیعی خطبوں کا سلسلہ جاری رہا۔سال کے اخیر میں ملک کی متعدد یونیورسیٹیوں میں عالمی یوم عربی زبان کی مناسبت سے تقریبات ہوتی رہیں،جن میں شعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ،جواہرلال نہرویونیورسٹی،باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری،کشمیر یونیورسٹی،خواجہ معین الدین چشتی اردو۔عربی وفارسی یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف گروبنگاوغیرہ بطورخاص قابل ذکر ہیں۔ سال کے آخر میں نسیم بن آسی کے افسانوی مجموعے بند مٹھی میں ریت، اسرار گاندھی کا افسانوی مجموعہ غبار بھی سامنے آیا۔ اور اس کی کہانیوں کو پسند کیاگیا۔ جابر حسین کی کتھا ڈائری انگارے اور ہتھیلیاں بھی اسی سال شائع ہوئی۔ پروفیسر خورشیداحمد فارق کی تاریخ اسلام کے علمی ذخائر (جائزے)کی اشاعت پروفیسرمحمد نعمان خان کی تصحیح وتدوین کے ساتھ ہوئی۔ڈاکٹر تابش مہدی کاشعری مجموعہ ’مشک غزالاں‘اسی سال منظر عام پر آیا ۔اسی طرح سید احمد قادری،مناظرعاشق ہرگانوی ، ڈاکٹر مشتاق احمد قادری،ڈاکٹر ابوبکر عباد،ڈاکٹر عامر جمال ،ڈاکٹر زیبا محمود،فہمیدہ ریاض اورڈاکٹرامام اعظم کی تصانیف منظر عام پرآئیں۔پٹنہ، بہار سے اردو جرنل (مدیر شہاب ظفر اعلی) نے اردو افسانوں پر ایک خصوصی شمارہ شائع کیا۔ ادبی اعتبار سے یہ سال اس لیے بھی اہم رہا کہ اب رسائل کے ساتھ ساتھ اردو ای میڈیا سے بھی وابستہ ہوچکی ہے۔ فیس بک پر اردو کے بلاگس اور میگزینس نے بھی اپنا جادو بکھیرا۔ عالمی افسانہ میلہ پروگرام کے تحت نوجوان نسل کے ۱۰۰ سے زیادہ نام سامنے آئے جو اس بات کی علامت ہے کہ اردو ایک زندہ زبان ہے ۔ اس مختصر مضمون پورے سال کی تمام ادبی سرگرمیوں کا احاطہ کرنا مشکل ہے ،سرسری طور پر راقم نے کوشش کی ہے ۲۰۱۴ کی ادبی سرگرمیوں کاذکراجمالاً ہوجائے ،ایسانہیں ہے کہ راقم نے جوذکرکیا ہے وہی کامل ومکمل ہے ۔ادب کے حوالے پورے ملک میں پورے سال ادبی وثقافتی سرگرمیاں جاری رہیں ۔

md jasimuddin
About the Author: md jasimuddin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.