گنج سوالات' ایک لسانیاتی جائزہ
مخدومی و مرشدی حضرت سید غلام حضور المعروف باباجی شکرالله کی باقیات میں
سے' ایک انچاس صفحات کی کتاب۔۔۔۔۔ گنج سوالات ۔۔۔۔۔ دستیاب ہوئی ہے۔ یہ
کتاب 1858ء میں شائع ہوئی۔ اس کا ٹائیٹل پیج کچھ یوں ہے:
گنج سوالات
قانون دیوانی پنجاب وسرکلرات
صاحب جوڈیشل کمشنر بہادر پنجاب مجریہ
بعد مشتہر ہونے قانون مذکور کے
مولفہ
مستر رابرٹ ینڈہم کسٹ صاحب بہادر کمشنر و سپرنٹنڈنٹ قسمت لاہور جسکو
مستر ایف اسکارلٹ صاحب بہادر پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر نے
باعانت
منشی درگا پرشاد پنڈت کے ترجمہ کیا
1858ء
مطبع کوہ نور لاہور میں باہتمام پنڈت سورج بہان منیجر وغلام محمد پرنٹر کے
چہپہ
اس کتاب کے تائیٹل پیج سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1858ء میں' لاہور ذویژن تھا
اور یہاں سے جاری ہونے والے احکامات' پنجاب پر لاگو ہوتے تھے' یا یوں کہہ
لیں' لاہور قسمت میں پورا پنجاب داخل تھا۔ لاہور قسمت کا کمشنر اور
سپرنٹنڈنٹ رابرٹ ینڈہم کسٹ' جب کہ پرنسپل اسسٹنٹ کمشنر ایف اسکارلٹ تھا۔
منشی درگا پرشاد پنڈت' پرنسپل اسسنٹ کمشنر ایف اسکارلٹ سے وابستہ تھے۔
ترجمہ صاف اور رواں دوا ں ہے۔ تحریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ترجمہ' ایف
اسکارلٹ نے کیا ہے جب کہ منشی درگا پرشاد پنڈت نے' محض معاونت کی ہے۔ ترجمے
کیی روانی اور ترجمے کی زبان' اس امر کی یکسر تردید کر رہی ہے. بااختیار
لوگ اوروں کا کیا' اپنی گرہ میں کرتے آئے ہیں یہ کوئی ایسی نئی اور حیران
کن بات نہیں۔
انگریز اگرچہ ایک عرصہ پہلے سے' ہندوستان کے اقتدار پر قابض تھا' تاہم
باطور حاکم واضح نہ ہوا تھا۔ گلیوں میں' کسی منادی کے ابتدائی کلموں میں
کہا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔ ملک شاہ کا حکومت کمپنی بہادر کی۔۔۔۔۔۔ 1857ء میں' ملک
بھی انگریز کا ہو گیا تھا۔ انگریز فقط دو ڈھائی ہزار کی تعداد میں تھے۔ فتح
1857ء میں' معاون کرداروں کو' جہاں جاگیریں وغیرہ دی گئیں' وہاں خطابات اور
اعزای عہدوں سے بھی نوازا گیا۔ یہ حضرات مخبری' چغل خوری اور دو نمبری میں
طاق ضرور تھے' لیکن اطوار و ضوابط جہاں بانی سے' آگاہ نہ تھے۔ انہیں
معاملات باطریق احسن اور باضابطہ نپٹانے کے لیے' لائحہ عمل فراہم کرنا
ضروری تھا تا کہ ان کی من مانی کے زیراثر' کوئی شورش جنم نہ لے سکے۔ اس
کتاب کے متن سے' بہرصورت یہ ہی اندازہ ہوتا ہے۔ اس ذیل میں باطور نمونہ دو
چار مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1۔ نہایت قانون نہایت ظلم ہے.
2۔ وکیل کا ساختہ برداختہ تمہارا ساختہ برداختہ ہے۔
3۔ شرع و قانون رواج سے گہرا ہوا ہے۔
4۔ خرچہ دیوانی مین تمیز کرو اور غیر واجبی خرچہ ہرگز نہ درج کرو۔
5.۔ ہنگام رجوع نالش کے حاکم کو یہہ لازم نہین کہ بطور نابینا حکم قلمبندی
اظہار صادر کرے اور پہر حسب ضابطہ حکم طلبی گواہان و مدعا علیہ صادر کرے
بلکہ ہوشیار حاکم اول ذرا تکلیف اوٹہاتا ہے اور پیچہے بہت تکیف سے محفوظ
رہتا ہے یعنی اوسکو اول ۔ہنگام رجوع مقدمہ ان باتونکا خیال کرنا چاہئے۔
جو افسر اور اہل کار' یہاں آئے غیر مثعلقہ فیلڈ کے تھے دوسرا انہیں ان کی
اوقات سے بڑھ کر عہدے دے دیے گیے یا کم از کم ون سٹیپ اپ کیا گیا۔ اوپر سے'
غلام قوم کی جی حضوری اور گماشتوں کی حد سے بڑھ کر چاپلوسی نے' ان کے دماغ
خراب کر دیے تھے. ایسے میں ناانصافی کا جنم لینا' فطری سی بات تھی۔ اس کے
نتیجہ میں' اس قسم کی ہدایات کا جاری کیا جانا ضروری تھا۔ آزادی ہند میں'
جہاں یہاں کے حریت پسندوں' امریکہ کی مداخلت اور ہٹلر کی اندھی یورش کا
ہاتھ ہے' وہاں بےانصافی اور حد سے بڑھ کر دلانوازی کو بھی نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا.
اس کتاب کے پہلے حصہ میں' تمہید کے بعد' ہدایات باعنوان۔۔۔۔ ہدایات و اصول
مفصلہ ذیل پر افسران دیوانی ناآزمودء کار کو توجہ کرنا چاہیے۔۔۔۔۔'
دوسرے حصہ میں ۔۔۔۔۔۔۔ فہرست ابواب گنج سوالات قانون دیوانی پنجاب
جب کہ تیسرے حصہ میں۔۔۔۔۔سوالات دستورالعمل قانون دیوانی پنجاب' دیے گیے
ہیں۔
کتاب انچاس صفحات پر مشتمل ہے۔
رموز کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کتاب میں بھی رموز کا اہتمام نہیں
کیا گیا۔ یہ امر چوں کہ رواج میں نہ تھا' س لیے اسے' مکتوبی نقص نہیں سمجھا
جا سکتا۔ فقرے لمبے بنانے کا رواج تھا۔ یہ کتاب چوں کہ سوالات اور ہدایات
سے متعلق ہے' اس لیے اس ذیل سے باہر ہے. ہاں بعض جگہوں پر مثالیں ملتی ہیں.
مثلا تمہید تقریبا چھے سطور پر مشتمل ہے۔ یہ بلا رموز اور ایک ہی فقرہ میں
ہے۔ کتاب کی تحریر شائستہ اور رواں دواں ہے۔ چند امور' لسانیاتی اور مکتوبی
طور کے حوالہ سے' آج اور گزرے کل کی شناخت کا ذریعہ ہیں۔ مثلا
دو لفظ ملا کر' لکھنا عام تھا اور اس کی مثالیں' اس کتاب میں جگہ جگہ پر
ملتی ہیں۔ مثلا
جنکے' کونسی' کسبات' کسکو' قرضخوانونکی وغیرہ
فارسی آمیز دو مرکب لفظ بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثلا
درصورتکہ
اس کتاب میں' تین لفظوں کو ملا کر لکھنے کی' بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ مثلا
کسطرحکی' کسطرحپر' کسطرحکا' کسیطرحکی' کسطرحسے' کیصورتمین' اسلیئیکہ'
دونوباتونکا وغیرہ
لفظوں میں واؤ کی بڑھوتی ملتی ہے' جو آج متروک ہو چکی ہے۔ مثلا
اوس' اون' جاوے' اوٹہانی وغیرہ
نون غنہ کا استعمال بالکل نہیں ملتا' حالاں کہ نون غنہ اردو کے حروف ابجد
میں موجود تھا۔ نون غنہ کی جگہ' نون استعمال میں لایا گیا ہے۔ مثلا
مین' باتین' ہین' عورتین' نہین وغیرہ
یہ کو ڈبل حے مقصورہ کے ساتھ رقم کیا گیا ہے. یعنی یہہ
بھاری آوازوں کا استعمال نہیں کیا گیا۔ ان کی جگہ حے مقصورہ استعمال کی گئی
ہے۔ مثلا
دہوکا' پیچہے'ساتہ' بہائی' رکہتا وغیرہ
دو جگہ مہاپران کا استعمال بھی ہوا۔ مثلا ہدایت کے لیے' ھدایت اور پہلا کے
لے' پھلا رقم کیا گیا ہے۔
چ کے لیے ج استعمال کی گئی ہے۔ یعنی دیاچہ کو دیباجہ کتابت کیا گیا ہے۔
ٹ کی جگہ ت' استعمال میں لائی گئی ہے۔ مسٹر کو مستر لکھا گیا ہے۔
دونوں کو' دونو لکھا گیا ہے. یعنی ں یا ن کا استعمال نہیں گیا۔ ں حشوی سہی'
لیکن آج رواج عام میں ہے۔
ء کی جگہ' ی کا استعمال ہوا ہے۔ یہ فارسی کی ییروی میں ہے' حالاں کہ ہمزہ
اردو حروف ابجد میں' داخل تھی۔ جیسے دائرہ کی بجائے دایرہ لکھا گیا ہے۔
گاف کے لیے' کاف کا استعمال ہوا ہے۔ یعنی ڈگری کو ڈکری لکھا گیا ہے۔
ڑ کی جگہ ڈ کا استعمال کیا گیا یعنی بڑھانا کو بڈہانہ تحریر میں لایا گیا
ہے۔
ت کی جگہ ط کا استعمال ہوا ہے۔
تیاری کو طیاری رقم کیا گیا ہے۔
اب کچھ جمعیں ملاحظہ ہوں۔
نالشات' ہنڈویات' ڈکریات' سرکلرات' بواعث' ہنڈویوں وغیرہ
ے کو ی کی طرز پر رقم کیا گیا ہے' ۔فرق صرف اتنا ہے کہ نیچے سے' گول نہیں
کیا گیا۔ ڈبل آنے کی صورت میں پہلی ی کو حسب روٹین جب کہ دوسری کو ے کی شکل
میں درج کیا گیا ہے۔
آج لفظ دیوالیہ لکھا جاتا ہے' جب کہ اس میں ی شامل نہیں۔ یعنی دوالہ لکھا
گیا ہے۔
اردو اور انگریزی مرکب پڑھنے کو ملتے ہیں.
پنجاب وسرکلرات' منیجر وغلام محمد پرنٹر
اسی طرح' دو انگریزی لفظوں کو واؤ سے ملایا گیا ہے۔
کمشنر و سپرنٹنڈنٹ
ہر دو میں' واؤ الگ سے بولتا ہے۔
دیسی روایت بھی ملتی ہے. مثلا فشا و ہدایت
اضافتی مرکب بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مثلا دعوی نابینا' کلید گنج
ایک مرکب بلا اضافت ملاحظہ ہو: نابینا حکم
زبان پر مقامیت کے بھی اثرات ملتے ہیں۔ مثلا
ذمہ واری' دوالہ' نظیر دیو' چودہریوں وغیرہ
لفظ اردوائے بھی گیے ہیں۔ مثلا تمسکی
یہ کتاب' اگرچہ قانون اور ضابطہ سے متعلق ہے' لیکن اس کے مندرجات کے مطالعہ
سے' ڈیڑھ سو سے زائد عرصہ پہلے کی' سرکاری یعنی دفتری اردو پڑھنے کا موقع
ملتا ہے۔ چوں کہ یہ عوام سے متعلق ہے' اس لیے اس میں' عوامیت بھرپور انداز
میں ملتی ہے۔ یہ بھی کہ سرکاری' مزاج و رویہ اور عوام' خصوص اور گوروں کے
مابین تفریق وامتیاز سامنے آتی ہے۔ قانون' سماج اور مذہی ضوابط کو' متوازی
رکھتے ہوئے' یہ کتاب ترکیب پائی ہے۔ اردو خط میں' انگریزی الفاظ استعمال
ہوئے ہیں' لیکن بہت کم۔ اس کی روانی اور شستگی مچھے اچھی لگی ہے۔
31-12-2014
|