حصولِ علم کی اہمیت

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

محمد شعیب گورکھپوری قاسمی
سلمان بن عبد العزیز یونیورسٹی ، الخرج

علم کی تعریف: کسی شی ٔ کی حقیقت کو جاننے کا نام علم ہے ، علم کا اطلاق بہت سے معانی پر ہوتا ہے ، جیسے عقائد کا علم ، زبان کا علم ، نسب کا علم ، علوم طبیعیہ جیسے ریاضیات اور فزکس اور جدید علوم جیسے کمپیوٹر ، جدید ٹکنالوجی اور انٹرنٹ وغیرہ۔

اگر مذاہب ِ عالم کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے ہوجائے گی کہ مذہب ِ اسلام نے علم اور حصول علم پر جس قدر زور دیا ہے دیگر مذاہب میں اس کی مثال ملنی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

قرآن کریم کی سب سے پہلی وحی جو ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں حصول علم کا ہی حکم ہے اور یہ حکم آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کی امت کے ہر فرد کو شامل ہے۔ پہلی بابرکت اور ایک عظیم انقلاب برپا کرنے والی وحی کی ابتدا یوں ہوتی ہے:

اِقْرَأْ بِاسمِ رَبِّکَ الذَّی خَلَقَ ، خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ عَلَق ، اِقْرأْ وَرَبُّکَ الأکْرَمُ الذَّی عَلَّمَ بِالقَلَمِ ، عَلَّم الإنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَم (سورۃ اقرأ:۵-۱)

ان پانچ آیات کے ذریعہ اﷲ جل جلالہ نے اپنے رسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور امت کے ہر شخص کو پڑھنے کا حکم دیا اور اس علم کے حصول کی ترغیب دی جو خالق کو پہچاننے کا ذریعہ بنے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے علم کو کتنی اہمیت بخشی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لفظ ’’علم‘‘ اپنے مختلف مشتقات کے ساتھ ۷۷۹ مرتبہ قرآن پاک میں وارد ہوا ہے اور ان کے علاوہ ان الفاظ کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو معنی علم کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مثلاً: یقین ، ہدیٰ ، عقل ، فکر ، نظر ، حکمت ، برہان ، دلیل ، حجۃ ، آیۃ ، بینۃ وغیرہ۔

احادیث پاک میں جس کثرت سے علم اور حصول علم کی فضیلت کا ذکر ہے اس کا احاطہ کرنا محال ہے ، چند احادیث پر اکتفا کیا جاتا ہے:
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’إنَّ اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ وأہْلَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ حَتّی النَّمْلۃُ فِی حُجْرِہَا وَحَتّی الحُوتُ فِی جَوفِ البَحرِ یُصَلُّونَ عَلیٰ مُعَلِّمِ النَّاسِ خَیراً‘‘ (سنن ترمذی) بیشک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ، آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں سمندر کی گہرائی میں لوگوں کو خیر اور بھلائی کی بات سکھانے والوں کے لیے دعاکرتی ہیں۔

ایک دوسری جگہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’مَن یُرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْراً یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ‘‘ (صحیح بخاری) اﷲ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اس کو دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔ ایک اور مقام پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے طالب علم کی کچھ اس طرح حوصلہ افزائی فرمائی : ’’مَنْ سَلَکَ طَرِیقاً یَلْتَمِسُ فِیہِ عِلْماً ، سَہَّلَ اللّٰہُ لَہ بِہ طَرِیقاًإلَی الجَنَّۃِ‘‘ (صحیح مسلم ) جو شخص علم کی طلب اور تلاش میں ایک راستہ پر چلا ، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرمادیتے ہیں ۔ علم اور حصول علم کو پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کی میراث قرار دیا ہے ، اس سے بڑھ کر علم کی فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے ، چنانچہ حدیث نبوی ہے : ’’إنَّ الأنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِرْہَماً وَلا دِیْنَاراً وَإنَّمَا وَرَّثُوْا العِلْمَ ، فَمَنْ أخَذَہ أخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ مِن مِیرَاثِہِم‘‘ (سنن أبوداؤد) یعنی انبیاء کرام ورثہ میں درہم اوردینار چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ علم چھوڑ کر جاتے ہیں تو جس نے علم حاصل کیا اس نے انبیاء کرام کی میراث کا ایک وافر حصہ حاصل کیا۔

علم کی ضرورت: علم زندگی کا نور ہے ، تمام بھلائیوں ، عظمتوں ، بلندیوں اور شرف کے حصول کا واحد ذریعہ ہے ، علم ہی سے انسان اپنا دین ، اپنی دنیا اور اپنے حقیقی مقصد کو پہچانتا ہے۔ زندگی کی بہت سی مشکلات ہم علم کے ذریعہ ختم کرتے ہیں ، علم ہی کے ذریعہ ہم اپنے اندر کی چیزوں کو تنقیدی زاویہ سے سوچنے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ علم ہماری زندگیوں میں خوشیاں لاتا ہے ، علم زندگی کے ہر موڑ پر ہماری مدد کرتا ہے اور علم کا سب سے بڑا فائدہ ہماری زندگی میں یہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔ علم اس گھر کو بھی رفعت بخشتا ہے جس کے پائے نہ ہوں اور جہالت عزت وشرف والے مکان کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی سعادت کی بنیاد علم ہے ، علم تمام اعمال میں سب سے افضل ہے اور کیوں نہ ہو ، کسی چیز کی فضیلت اس کے نتیجہ کی فضیلت سے ناپی جاتی ہے اور علم کا نتیجہ رب العالمین کا قرب ہے جو ہماری زندگی کا حقیقی اور واحد مقصد ہے اور ہماری تمام جد وجہد کا عین مطلوب ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی ورسول حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو علم کے علاوہ کسی اور چیز کی زیادتی کی طلب کا حکم نہیں فرمایا ، چنانچہ حکم دیا گیا: ’’وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْماً‘‘ (سورۃ طہٰ: ۱۱۴) آپ کہئے: ’’اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما‘‘۔ علم ایمان کی علامات میں سے ہے اور جہالت اہل جہنم کی صفات میں سے ہے۔ علم نوافل سے بہتر ہے اورایک عظیم جہاد ہے۔ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي ہٰذَا لَمْ یَأتِہِ إلَّا لِخَیْرٍ یَتَعَلَّمُہ أوْ یُعَلِّمُہ فَہُوَ بِمَنْزِلَۃِ المُجَاہِدِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ‘‘ (سنن ابن ماجہ) ترجمہ: جو شخص میری اس مسجد میں صرف اچھی اور خیر کی بات سیکھنے یا سکھانے کے مقصد سے آتا ہے اس کا مرتبہ اﷲ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے برابر ہے۔ دینی علوم انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ اس کا رب کون ہے ، اس کے رب کی صفات کیا ہیں ، انبیاء کرام کون ہیں ، ان کے اوامر کیا ہیں اور ان کے نواہی کیا ہیں؟ ایک انسان ان تمام باتوں کو جاننے اور اس کے مقتضا پر علم کرنے کے بعدپرامن زندگی بسر کرتا ہے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ علم کے شرف کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ شخص بھی علم کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کا اہل نہیں اور جہالت کی عار کے لیے اتنی سی بات بہت ہے کہ جاہل بھی جہالت سے برأت کا اظہار کرتا ہے۔

علم ، ایمان اور عمل: اسلام کی نظر میں علم اور حصول علم کی کوشش کی تمام مذکورہ بالا فضائل کے باوجود کوئی بھی اہمیت نہیں ہے اگر وہ علم ایمان سے خالی ہو ، قرآن پاک میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے علم اور ایمان کو ایک ساتھ ملا کر ذکر کیا ہے ، چنانچہ سورۂ روم کی آیت نمبر ۵۶ میں ہے: ’’وَقَالَ الذِیْنَ أوْتُوا العِلمَ وَالإیْمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِی کِتَابِ اللّٰہِ إلیٰ یَومِ البَعْثِ‘‘ اور ان لوگوں نے کہا جن کو علم اور ایمان عطا کیا گیا کہ تم لوگ جیسا کہ کتاب اﷲ میں ہے یوم قیامت تک پڑے رہے ۔اور سورۂ مجادلہ آیت ۱۱ میں ہے: ’’یَرْفَعِ اللّٰہُ الذِینَ آمَنُوا مِنْکُم والَّذِینَ أُوْتُوْا العِلْمَ دَرَجَات‘‘ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے درجات کو بلند فرماتے ہیں جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا۔ علم اور ایمان کے علاوہ جو تیسری چیز انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہ عمل ہے۔ اسلام کی نظر میں حصول علم کا مقصد اس پر عمل کرنا ہے ، ورنہ وہ علم صاحب ِ علم کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ اسلام نے علم کے اس پہلو پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے اور اجر ونجات کا انحصار عمل ہی پر رکھا ہے۔ بے شمار وعیدیں اور مذمت اس شخص کے بارے میں وارد ہوئی ہیں جو اپنے علم پر عمل پیرا نہیں ہے ، قرآن پاک میں ہے: ’’أتَأمُرُوْنَ النَّاسَ بِالبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أنْفُسَکُم وَأنْتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ ، أفَلا تَعْقِلُون‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۴۴) کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو اور تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ، کیا سمجھتے نہیں ہو۔ حدیث پاک میں ہے: ’’مَنْ تَعَلَّمَ عِلْماً مِمَّا یُبْتَغیٰ بِہِ وَجْہُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ لا یَتَعَلَّمُہ إلا لِیُصِیْبَ بِہ عَرَضاً مِنَ الدُّنْیا لَمْ یَجِدْعَرْفَ الجَنَّۃِ یَوْمَ القِیَامَۃِ (یَعْنِی رِیْحَہَا) ‘‘ (سنن أبوداؤد وسنن ابن ماجہ) جس شخص نے علم سیکھا جس سے اﷲ کی رضا حاصل کی جاتی ہے اور وہ صرف دنیا کے سامان کے حصول کے لیے سیکھتا ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہیں پائے گا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ابن آدم کا قدم اپنے رب کے سامنے سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکتا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے اور ان پانچ چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے علم پر کیا عمل کیا (معجم طبرانی)۔ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اس علم سے پناہ مانگا کرتے تھے جو نفع بخش نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے تھے کہ: ’’اس علم کی مثال جس پر عمل نہ کیا جائے اس خزانہ کی طرح ہے جس کو اﷲ کے راستہ میں خرچ نہ کیا جائے‘‘۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا قول ہے: ’’وہ شخص تم کو دھوکہ میں نہ ڈالے جو قرآن پڑھتا ہے ، بلکہ اس شخص کو دیکھو جو اس پر عمل کرتا ہے ‘‘۔

علوم شرعیہ کی اہمیت: اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جتنے بھی انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا ان سب کا مقصد لوگوں کو اﷲ کی طرف بلانا تھااور ایک داعی کی تخلیق میں سب سے بڑا عنصر علم ہوتا ہے۔ سردار انبیاء حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی میں آپ کو پڑھنے کا حکم دینا اور علم کا ذکر اس بات کی روشن دلیل ہے کہ علم اس دین کو ، دنیا کو اور آخرت کو سمجھنے کی کنجی ہے ، علم ہی کی روشنی میں دعوت کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے ، شریعت کا علم ہمارے لیے کھانے ، پینے ، لباس اور دوا سے بھی زیادہ ضروری ہے ، اس لیے کہ علم شریعت ہی سے دین ودنیا کی بقا ہے ، علم عبادت کی بنیاد ہے ، نماز پڑھنے کے لیے ہمیں ایک عالم کی ضرورت ہے جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ، نماز کے ارکان کیا ہیں ، فرائض کیا ہیں ، سنتیں کیا ہیں ۔ علم شریعت کے بغیر نہ نماز پڑھی جاسکتی ہے ، نہ روزہ رکھا جاسکتا ہے ، نہ زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے ، نہ جہاد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فریضہ ٔ حج ادا کیا جاسکتا ہے۔

عقیدہ کی سب سے مشہور کتاب ’’شرح العقیدۃالطحاویۃ‘‘ میں ہے کہ ’’اصول دین کا علم تمام علوم میں سب سے اشرف ہے اور اسی لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اصول دین کے بارے میں جو کچھ کہا اور صفحات میں جمع کیا اس کا نام ’’الفقہ الاکبر‘‘ رکھا۔ بندوں کو اس کی ضرورت تمام ضرورتوں پر فوقیت رکھتی ہے ، اس لیے کہ وہ قلوب مردہ ہوتے ہیں جو اپنے رب کو نہ پہچانے ، دلوں کی زندگی اور اس کا اطمینان وسکون اپنے رب ، اپنے معبود اور اپنے خالق ومالک کو اس کے اسماء وصفات اور افعال کے ساتھ جاننے میں مضمر ہے‘‘۔ (ص ۱۷)

کسی قوم کی گمراہی اور بددینی کی وجہ صرف اور صرف علم دین سے دوری اور خواہشات ِ نفسانی کی اتباع ہے ، بدعتیوں ، گمراہوں اور غلو کرنے والوں کے احوال کے بارے میں اگر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ لوگ یا تو شریعت کے علوم سے بے خبر تھے یا خواہشات ِ نفسانی کے مرض میں مبتلا تھے۔ لوگ گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، معاصی کے دلدل میں پھنستے جاتے ہیں ، کمزوروں کے حقوق کو ہضم کرجاتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کے یہ اعمال محرمات میں سے ہیں جن پر دنیا وآخرت میں شدید ترین سزائیں مرتب ہوں گی ، اگر انہیں شریعت کا علم ہوتا تو ان گناہوں کا ارتکاب کرنے کی جرأت بھی نہ کرتے -

جدید علوم: علم کی فضیلت اور اہمیت صرف علوم شرعیہ کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ اس علم کو بھی محیط ہے جو مسلمان اور تمام انسانیت کے لیے نفع بخش ہو جب تک کہ وہ مقاصد شریعت کے ساتھ ٹکراتا نہ ہو ، دنیوی علوم مسلمانوں کی معیشت کی ترقی کے لیے لازمی ہیں ، قرآن پاک میں ہے: ’’ہُوَ أنْشَأَکُمْ مِنَ الأرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیہَا‘‘ (سورۃ ہود: ۶۱) اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی زمین میں تمہیں بسایا۔ اور حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِشُؤوْنِ دُنْیَاکُم‘‘ یعنی تم اپنی دنیا کے معاملات کو زیادہ جاننے والے ہو۔

زمین کی تعمیر کے لیے اور انسانوں کو آباد کرنے کے لیے علم ہندسہ کی ضرورت ہوتی ہے ، ایک مضبوط اور طاقت ورسماج کی بنیاد رکھنے کے لیے علم صناعت ، علم زراعت اور علم اقتصاد وتجارت کی ضرورت پڑتی ہے۔ موجودہ دور میں مسلم قوم کو علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ ان تمام دوسرے علوم میں مہارت حاصل کرنی ہوگی جو دنیاوی ترقی کا ذریعہ ہیں جیسے کمپیوٹر سائنس ، میڈیکل ، انجینئرنگ ، میتھ میٹکس (Mathematics) ایگری کلچرل (Agricultural) اور انڈسٹریل سائنس (Industrial Science) وغیرہ۔ آج مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان تمام علوم وفنون کو سیکھیں جو اسلامی شریعت اور اسلامی قواعد کے مخالف نہ ہوں ، چنانچہ جو صناعت ِ اسلحہ کا فن اس مقصد سے سے سیکھے کہ وہ اس کے ذریعہ مسلمانوں اور اپنے وطن کا دفاع کرے گا تو وہ ماجور ہوگا اور اس شخص سے افضل ہوگا جس نے اس کو نہیں سیکھا۔ جس نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور مریضوں کی خدمت کر رہا ہے وہ اس شخص سے افضل ہوگا جس نے لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور جسے کمپیوٹر اور انٹرنٹ پر عبور حاصل ہے اور وہ اس کا استعمال اسلام کے دفاع اور کلمہ ٔ حق کو پورے عالم میں پہنچانے کی غرض سے کر رہا ہو تو وہ ان سے بہتر ہے جو اپنی فیملی اور اپنی اولاد سے ہٹ کر کچھ اور سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔

ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کتنی پیاری بات فرمائی: ’’إنَّ ہٰذَا الخَیْرَ خَزَائِن ، وَلِتِلْکَ الخَزَائِنِ مَفَاتِیحُ ، فَطُوبٰی لِعَبْدٍ جَعَلَہُ اللّٰہُ مِفْتَاحاً لِلْخَیْرِ مِغْلاقاً لِلشَّرِّ ، وَوَیْلٌ لِعَبْدٍ جَعَلَہُ اللُّٰہ مِفْتَاحاً لِلشَّرِّ مِغْلاقاً لِلْخَیْرِ ‘‘ (ابن ماجہ) بلاشبہ یہ خیر خزانے ہیں ، تو خوش خبری ہے اس شخص کے لیے جس کو اﷲ نے خیر کو کھولنے والا اور شر کو بند کرنے والا بنایا اور ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس کو اﷲ نے شر کو کھولنے والا اور خیر کو بند کرنے والا بنایا ۔

ایک ترقی یافتہ قوم تمام علوم کو ساتھ لے کر چلتی ہے ، اس قوم کے افراد اپنی اپنی پسند اور طبعی رجحان کے مطابق ایک تخصص (Specialization) کا انتخاب کرتے ہیں اور اس طرح پورا معاشرہ ایک مہذب ، مثقف اور بے مثال معاشرہ بن جاتا ہے۔

ہمارے اسلاف نے علم کی قدر وقیمت کو پہچانا تھا ، علم کے تمام میدانوں میں اپنا سکہ جمایا مساجد تعلیمی حلقوں سے پُر رہا کرتی تھیں مدارس وجامعات قائم کیے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ دس صدیوں تک اس دنیا کے اساتذہ تھے ، مغربی دنیا نے ان سے علم حاصل کیا اور اپنی تہذیب وتمد ن کی بنیاد رکھی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ألا إنَّ الدُنْیَا مَلْعُونَۃٌ ، مَلعُونٌ مَا فِیہَا إلا ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا وَالاہُ وَعَالِمٌ أوْ مُتَعَلِّمٌ ‘‘ (سنن ترمذی) دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ ملعون ہے ، یعنی اﷲ کی رحمت سے دور ہے مگر اﷲ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اﷲ سے قریب کریں (یعنی نیک عمل) اور عالم اور متعلم (طالب علم)۔ اس کا اثر تمام اسلامی دنیا پر پڑا ، چنانچہ علم ومعرفت کے مختلف میدانوں میں ایک وسیع پیمانہ پر اس طرح کی سرگرمیاں مشاہدے میں آئیں جن کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے ، مسلمان علماء کے ذریعہ ایک تہذیب وتمدن کی بنیاد پڑی اور انسانیت کو شاندار علمی ذخیرہ میسر آیا۔

مسلمان اپنے تابناک ماضی کی عزت وشرف کو تبھی واپس پاسکتے ہیں جب اسلاف واکابرین کے نقش قدم پر چلیں ، ہمارے اسلاف نے اسلام کو اپنی زندگیوں میں اپنایا اور شرف وعزت والے کہلائے ، دشمنانِ اسلام پوری طاقت کے ساتھ ان پر یلغار کرتے ، مگر منہ کی کھاتے انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے علم کو وسیلہ بنایا اور افسوس کہ ہم نے علم کو چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ ان امور پر مرکوز کردی جس کا نہ دنیا میں فائدہ اور نہ آخرت میں ، مختصراً یہ کہ ماضی کی شرف وعزت کا حصول علم شرعی اور علوم دنیوی کے حصول پر ہی موقوف ہے۔
واللّٰہ الموفق والمستعان محمد شعیب گورکھپوری قاسمی

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 188 Articles with 164603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.