وطنِ عزیز پاکستان بلا شبہ کئی حوالوں سے دنیا کے
چندعظیم ترین ممالک میں شمار کیا جا سکتا ہے، جن میں سے ایک معتبر حوالہ
ذہانت ہے۔ یہاں کا ذہن کسی اعتبار سے بھی دنیا کے کسی بھی خطے کے ذہن سے
نبردآزما ہونے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بات جذبہ حب الوطنی یا
مبالغے کے سہارے نہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں کہی اور دیکھی جا سکتی
ہے۔دوسری یہ بات کہ ہمارے پاس دنیا کے بیشتر ممالک سے زیادہ اور با صلاحیت
نوجوان طبقہ موجود ہے۔یہ نوجوان معاشروں کا آج اور آنے والا کل ہوتے
ہیں۔مغربی تہذیب اپنے ہی خنجر سے خود کشی کی طرف رواں دواں ہے۔اگرچہ ہم بھی
ان کے پیچھے ہیں لیکن سکون کی بات یہ ہے کہ بہت پیچھے ہیں۔
تعلیم کو کبھی انسان کا زیور کہا جاتا تھا لیکن تعلیم اب زیور نہیں،ہنر اور
آلات بن چکی ہے؛ہنر اور آلات ہی نہیں خیالات و نظریات بھی؛ نہ صرف خیالات و
نظریات بلکہ سراپا زندگی ہی بن گئی ہے۔اب یہ زمانہ ہے کہ زندگی کا تصور
بغیر تعلیم کے قصۂ ماضی بن چکا ہے۔ اب تعلیم پہلے کسی بھی زمانے سے زیادہ
اہمیت اختیار کر چکی ہے۔اب تو واقعی گود سے گور تک علم حاصل کرنے والی بات
حقیقت بن چکی ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ خطے سو فیصد تعلیم کا ہدف بھی پا چکے
ہیں جبکہ ہماری تہذیب اور معاشرہ ابھی کئی صدیاں پیچھے ماضی میں زندگی گذار
رہی ہے۔ہمارے کئی ایک میجر پرابلمز میں سے ایک تعلیم بھی ہے بلکہ اگر کہا
جائے کہ ہمارا پہلا مسئلہ ہے ہی تعلیم تو بھی بڑی حد تک غلط نہیں ہو گا۔جب
تک ہمارا پہلا مسئلہ حل نہیں ہوتا دوسرا یا دوسرے بھی حل نہیں ہو گے۔
تعلیم کے مسائل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:(۱) تعلیم کے بیرونی
مسائل جیسے کہ عمارت، بجلی، پانی، گراؤنڈ ،کتابیں، استادوغیرہ(۲)دوسرے وہ
جو تعلیم کے اندرونی مسائل ہیں یعنی کہ کورس، امتحان، نتائج،طریقہء تدریس،
مارکنگ،وغیرہ۔
ہم اس مضمون میں تعلیم کے اندرونی مسائل پر اظہارِ خیال کریں گے۔اس کی وجہ
یہ ہے کہ بیرونی مسائل کے حل میں بہت بڑی فنانس کا عمل دخل ہے جو کہ محکموں
اور اداروں کے بس کی بات نہیں ، ان مسائل کو حکومت کی سنجیدہ کوشش اور
دلچسپی کے بغیر کسی صورت حل نہیں کیا جا سکتا۔ میں اس مضمون میں ان مسائل
کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو محکموں اور اداروں کی اپنی کوشش اور دل
چسپی سے حل ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے ہم کورس کی بات کرتے ہیں کہ ہمارے کورس کس قدر مختلف اور اونچ
نیچ کا شکار ہیں۔نرسری اور پرپ سے لے کر ایم۔فل اور پی۔ایچ ڈی تک کورسسز
میں اس قدر اختلاف اور تنوع ہے کہ بات سمجھ سے بال تر ہو جاتی ہے کہ ہم ایک
مملکت کے شہری ہیں یا ایک ریاست کے اندر کئی ایک ریاستیں اپنا وجود قائم کر
نا چاہتی ہیں ،یا کر چکی ہیں۔ قومی نصابِ تعلیم نام کی کوئی چیز اپنا وجود
نہیں رکھتی اور اگر رکھتی ہے تو برائے نام نا کہ برائے کام۔ سرکاری سکول
اور کالجز اپنی علیحدہ بانسری بجاتے ہیں اور پرائیویٹ سکول اور کالجز اپنی
گٹار علیحدہ بجاتے سنائی دیتے ہیں۔پرائیویٹ سکول اور کالجز آگے پھر امیر
اور غریب سکولوں اور کالجوں میں تقسیم پذیر ہیں۔ مضبوط اور مستحکم ادارے تو
کسی کی سننے کے لئے تیار نہیں اور نہ انہیں کوئی سنا سکتا ہے۔ وہاں کا
ماحول بھی امپورٹڈ ہوتا ہے جیسا کہ ان کا نصاب۔ وہاں تو ہم اپنے بچوں کو
کسی اور قوم کا تصور دینے کے لئے بھیج سکتے ہیں۔ یہ ادارے ترقی یافتہ ممالک
کی نقالی پر تلے ہی نہیں بلکہ بِکے بھی ہوئے ہیں۔اور ہمارے اداروں اور
بذاتِ خود حکومت میں اتنا دم خم نہیں کہ ان سے مقابلہ کیا جا سکے۔ وہ ایک
نئے یا مغربی کلچر کو فروغ دینے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔اس کے
برعکس جب ہم مذہبی اداروں کا نصاب دیکھیں تو وہاں سوچوں کو فرقہ بندی کی
دیواروں سے بلند پروازی پر قدغن لگی دیکھائی دیتی ہے۔تمام تر علم و فضل اس
بات پر مرکوز کیا جاتا ہے کہ دوسرے فرقوں کو کس طرح جھوٹا ثابت کرنا
ہے۔انسان کی اصلاح اور اسلام کے فروغ کی محدودِ چند ہے۔اس طرح یہ دونوں
جانب داری کے علمبردار ٹھہرتے ہیں۔تمام ملکی تعلیمی اداروں کے نصابوں کو
واچ کرنے والے ادارے ہونے ضروری ہیں۔ بلکہ ان اداروں کے کھلنے اور چلنے کے
لئے ان قومی نصابی اداروں کی منظوری لازمی ہو اور پھر ان کی نگرانی بھی کی
جائے۔کورسز سے کسی بھی قسم کی انتہا پسندی چاہے وہ مغربیت کی اندھا دھند
پیروی ہو چاہے مذہبی عدم برداشت کی تعلیمات ہوں کو ملک میں رائج نہ ہونے
دیا جائے۔
یونیورسٹی کی سطح پر بھی نصاب سے متعلق اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں بلکہ اشد
ضرورت ہے۔یہ بات ہو سکتی ہے کہ عالمی سطح پر یونیورسٹیوں کا طریقہ کار ایسے
ہی ہو لیکن اس میں بھی بہتری کی کوشش ہونی چاہئے۔ سرکاری اور پرائیویٹ
یونیورسٹیوں کے نصاب بھی ایک جیسے ہو جائیں تو اس میں کیا مذائقہ ہے۔اس سے
طلبہ کا ایک جیسا منٹل سیٹ اپ فروغ پائے گا۔ اور حکومت اور عوام کو بھی علم
ہو گا اس کے نونہالوں کو کیا تعلیم دی جا رہی ہے۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک
یونیورسٹی کا نصاب دوسری سے نہیں ملتا ، طالبِ علم ایک سے دوسری میں جانا
چاہے تو ایک نئی اذیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔اگرچہ اس بات کو آیڈیئل اور غیر
حقیقی ہی کہا جائے گا کہ ملک کی تمام یونیورسٹیوں کا نصاب ایک کر دیا جائے۔
لیکن اس کے بغیر بھی تو ہمارے پاس طلبہ کی تعلیم ،تربیت اور اعزاز کی جتنی
بھی صورتیں ہیں سب ناقص اور جانب داری پر مبنی نظر آتی ہیں۔کورس ایک کر
دینے کے بعدہی اس کی بہتری اور اس کے برے اثرات پر توجہ دی جا سکے گی۔
ہمارے تعلیمی نظامکا ایک اور مضحکہ خیز پہلو امتحانی نظام کا یک سو نہ ہونا
ہے۔تمام ملک میں ایک اور صرف ایک نظامِ امتحان نافذ کیا جائے اور کوئی
ادارہ اس سے ماوراء نہ ہو۔ یہاں متعدد نظام ہائے امتحانات رائج ہیں: کہیں
سالانہ، کہیں سمسٹر، اور کہیں کوئی اور۔ اس طرح سے طرح سے طلبہ کا آپس میں
موازنہ کیا نہیں جا سکتا۔ ایک یونیورسٹی بڑی فراخ دلی سے مارکس ایسے بانٹتی
ہے جیسے مارکس درختوں پے پتوں کی جگہ لگتے ہوں اور دوسری یونیورسٹی مارکس
دینے میں یوں ہاتھ کس کے رکھتی ہے جیسے مارکس دینے سے یونیورسٹی کسی گناہِ
کبیرہ کا ارتکاب کر بیٹھے گی اور وہ کبھی معاف نہیں ہو پائے گا۔اب دو
یونیورسٹیوں کے دو معیار ہیں لیکن ملازمت سے لئے دونوں طلبہ ایک سے معیار
سے پرکھے جائیں گے اور جس یونیورسٹی نے اپنے نو نہا لوں پر شفقت فرمائی ہے
اس کاطالب علم مارکس میں دوسری یونیورسٹی کے طالب علم پر سبقت رکھے گا اور
زیادہ امکان ہے کہ ملازمت بھی پا لے جبکہ دوسری یونیورسٹی کے طلبہ کبھی خود
کو اور کبھی اپنی مادرِ علمی کو کوستے پھریں گے۔یہ ایک بہت بڑی تفاوت ہے جس
سے ہمارے یہاں تعلیم اور مارکس کا کوئی معیار نہیں بن پایا۔جب تک ایک جیسا
کورس اور پھر ایک جیسا امتحانی نظام اختیار نہیں کیا جاتا ذہین اور محنتی
طلبہ سے ہونے والی زیادتی کو کسی طور بھی روکا نہیں جا سکتا۔
ان باتوں پر اگر ایک سو ایک بار بھی غور کیا جائے تب بھی سمجھ نہیں آتی کہ
کیا یہ کوئی الہامی قانون ہے یا کوئی دیوتائی بات ہے کہ اگر کسی طالبعلم کے
کمپارٹ کی حد سے زیادہ پیپر فیل ہوگئے ہیں تو اس غریب کے جو ایک دو پیپر
پاس ہوئے ہیں وہ بھی فیل کر دیئے جائیں ،مرے کو مارے شاہ مدار۔ یہ کیا
طریقہ ہے۔ایک شخص نے دوسرے کا پانچ سو دینے ہیں وہ اگر دو سودے دیتا ہے اور
تین سو بعد میں دینے کا وعدہ کرتاہے تو اس امتحانی نظام کے مطابق اس کا
مطلب ہے کہ اس نے وہ دو سو بھی ضائع کر دیئے کیونکہ وہ بھی ادا نہیں
ہوئے۔کتنا عجیب نظام ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ چاہے کوئی طالب علم ایک ایک
کر کے پانچ یا دس پیپر پاس کرے انہیں پاس ہی سمجھنا چاہئے۔ ادارے کو اس سے
کیا ادارہ اپنی فیس لے، امتحان لے اور طالب علم کا رزلٹ دے۔ تین فیل کے
ساتھ دو پاس کو بھی اڑا دینا سمجھ آنے والی بات نہیں ہے۔ اگر یہ بات اس
بنیاد پے کی جاتی ہے کہ طالبعلم ذہنی طور پر اس قابل ہو کہ تین پیپر ایک
وقت میں پاس کرنے کی صلاحیت کم از کم رکھتا ہو ۔ تو کیا یہ بات بھی پہلی
بات کی طرح مضحکہ خیز نہیں ہو جاتی۔ امتحان دینے کے بعد کس کو وہ سارا کورس
اور مواد یاد رہ جاتا ہے کسی کو بھی نہیں سوائے ان کے جو پڑھاتے ہیں کہ ان
کا ذہن اس مواد کو دہراتا رہتا ہے۔ ورنہ امتحان دینے اور ڈگری لے لینے کے
بعد سب بھول جاتے ہیں۔ ایک بار امتحان پاس کرلینے کے بعد کوئی چاہے اسے
سارا بھلا دیے کوئی اس ڈگری نہیں چھینتا، چاہے کوئی پاگل ہوجائے ڈگری واپس
نہیں لی جاتی، چاہے کوئی مر جائے ڈگری اسی کی رہتی ہے تو اس شکل میں ڈگری
اور اس کے لینے والے کے درمیان کوئی تعلق رہ جاتا ہے بالکل نہیں تو اس
بچارے کمپارٹ ہولڈر کو ایک دو پیپر پاس کر لینے کے باوجود کس بنیاد پر باقی
پیپروں میں فیل ہونے سے ان پاس شدہ میں بھی فیل قرار دے کے مذید بے قرار کر
دیا جاتا ہے۔کسی کے ہاتھ کی پانچ میں سے خدانخواستہ تین کٹ جائیں تو کیا
باقی دو بھی کاٹ دینی چاہیئں۔ ہرگز نہیں ۔ تو خدارا طالب علموں پر سے
کمپارٹ کی مار ختم کی جائے تو جتنے پاس کرے وہ پاس رہنے چاہیئں اور جو پاس
نہیں ہوئے ان کا دوبارہ امتحان دینے کی اجازت ملنی چاہیئے۔
اسی تناظر کی ایک اور بات جو ہمیں آج تک تو سمجھ نہیں آئی اور باقی زندگی
میں بھی امید ہے کہ نہیں آئے گی۔وہ یہ ہے کسی طالب علم نے ایک پیپر دینا ہے
تب بھی وہی فیس اور اگر اس نے دو پیپر دینے ہیں تب بھی وہی فیس اور اگر
سارے پیپر دینے ہیں تب بھی وہی فیس۔میں اپنے طور پر اس بات کو تعلیمی نظام
کی غنڈہ گردی ہی کہوں گا کہ جس نے سب سے کم ایک پیپر بھی دینا ہے وہ بھی
پورا امتحان دینے والے کے برابر فیس جمع کروائے۔پر کیوں؟ کس منطق کی رو
سے؟سوائے اس کے کہ یہ قدیم زمانے سے چلا آنے والا کوئی دیوتائی فرمان ہو کہ
امتحانی فیس سب سے ایک جتنی لینی ہے ورنہ ایمان کھو بیٹھو گے اور آخرت میں
قابلِ تعزیر ٹھہرو گے۔ اس کے علاوہ چاہے یہ نظام تمام عالم میں بھی کیوں نہ
ہو اس کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔امتحانی فیس پیپروں کی تعداد کے مطابق
وصول کی جائے۔ جتنے پیپر اس کے حساب سے فیس وصول کی جائے۔آج کل کمپیوٹر کا
زمانہ ہے اورہم اٹھارہویں صدی کی پہلی دہائی میں جی بلکہ مر رہے ہیں۔
ہماری خیال کے مطابق کوئی بھی پیپر لازمی قرار نہ دیا جائے۔ ہر پیپر طلبہ
اپنی مرضی سے انتخاب کریں۔ ادارے پیپروں کی ویٹج دیں اور ایک سند یا ڈگری
کے لئے ایک متعین ویٹج کا حاصل کرنا ضروری قرار دیا جائے۔اس کے تجربہ کیا
جا چکا ہے کہ ہم نے نصف صدی سے بی اے تک انگریزی لازمی قرار دی ہے لیکن
یہاں کسی کو انگریزی آتی نہیں۔ انگریزی مسلط کرنے کا یہ طویل تجربہ ناکام
ہو چکا ہے۔ بہت بڑی تعداد میں طلبہ اسی زبان کے اسیربنتے ہیں۔ اس زبان کو
لازمی قرار دے کر ہم بہت سرمایہ خرچ کر چکے ہیں لیکن اس سے خاطرخواہ نتائج
برآمد نہیں ہو سکے۔ اگر ہم اسے لازمی سے الیکٹو مضمون کی سطح پر لی آئیں گے
تو بھی ایک بڑی تعداد اس مضموں کو پڑے گی لیکن اپنا انتخاب سمجھ کر ، مسلط
سمجھ کر نہیں ۔ اور پھر ان طالب علموں کو یہ آ ئے گی بھی۔
ہمارے خیال کے مطابق ملکی قانون کا ایک پیپر میٹرک سے ایف۔ اے تک ضرور
متعارف کروایا جائے۔ تا کہ پڑھے لکھے لوگ اپنے ملک کا قانون سے کم از کم
واقف تو ہوں یہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے قانون کے حوالے سے بالکل ان پڑھ
نکلتے ہیں۔قانون کا شعور شہریوں کا اچھے رویئے دے گا اور ان کے اندر اچھی
شہریت کے جذبات پیدا کرے گا۔قانون کی اتباع سے ملک میں امن و امان قائم
کرنے میں مدد ملے گی۔
ہمارے خیال میں میٹرک سے لے کر ایف۔اے تک کسی ایک سال میں انگریزی زبان کی
گرامر پڑھائی جائے تا کہ اس انٹر نیشنل زبان پر ہمارے طالب علم کو دسترس
حاصل ہو۔ وہ اس میں اپنا مافی الضمیر بیان کر سکے اور کسی بھی امتحان میں
انگریزی میں ناکامی کا سامنا نہ کرے۔
لڑکیوں کے نصاب میں ہوم اکنامکس کے پیپر کو بھی کچھ زیادہ متعارف کروایا
جائے۔تاکہ ان کی آئندہ زندگی میں کام آئے۔
امتحانات اور نتائج مہینے اور تاریخیں مقرر کرنا تعلیمی ماحول کو زیادہ
منظم بنانے میں مدد گار ہو گا۔
ہر استاد کے لئے ضروری ہو کہ وہ ہر سال ان امتحانات کے چند سو پیپر ضرور
چیک کرے اس سے نتائج کے بروقت اعلان میں بہت مدد ملے گی۔
پیپرز کی چیکنگ نا قابلِ اعتماد ہو چکی ہے اور سننے میں بھی اکثر آتا ہے کہ
پیپرز متعلقہ لوگ خود چیک کرنے کی بجائے ا ٓگے ٹھیکے پے دے دیتے ہیں۔ بعد
اساتذہ اس معاملے میں تیز رفتار طالبعلموں کی مدد بھی حاصل کرتے ہیں۔تمام
پیپرز کی سنٹر مارکنگ ہو اور ایک پیپر چیکر ایک دن میں پچاس سے زیادہ پیپر
چیک نہ کرے۔پیپرز حل کرنے کا وقت بھی روایتی تین گھنٹوں سے گھٹا کر دو
گھنٹے کر دیا جائے۔سوالات کی لمبائی کی بجائے جامع مواد کو ترجیح دی
جائے۔جوابی کاپی پر سوالوں کے جوابات لکھنے کی سپیس کی نشاندہی کی گئی ہو۔
جو ترتیب سوالیہ پرچے کی ہو وہی ترتیب جوبی کاپی کی ہو ،کیونکہ پیپر چیکر
کو بے ترتیب پیپر چیک کرنے میں بڑی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اضافی شیٹوں
کا رواج ختم کر دیا جائے۔
پرائمری میں بچوں کو صرف ایک زبان پڑھائی جائے۔ ششم سے انگریزی متعارف
کروائی جائے۔اور زبانوں کے بوجھ تلے ان کیصلاحیتوں کو دب جانے سے محفوظ
رکھا جائے۔
جدید ذہن کو قدیم طریقوں سے تعلیم یافتہ نہیں کیا جا سکتا۔ جدید ذہن کو
تعلیم دینے کے طریقے بھی جدید ہوں۔ سمعی بصری معاونات جو کہ اس دور کے ذہن
کے ساتھ معاشرتی طور پر منسلک ہو چکے ہیں کو کمرہ جماعت میں بھی اپنانا وقت
کی اہم ضرورت ہے۔ ہمارا طالب علم کمرہ جماعت سے باہر جاتا ہے تو ایک رنگین
سکرین اسے ویلکم کہتی ہے اور جب وہی آنکھیں کلاس روم میں آتی ہیں تو ایک
سادہ سا بلیک بورڈ یا وائٹ بورڈ اس کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کی ناکام کوشش
کرتا ہے۔اگرچہ ابتدا میں یہ کام بڑے پیمانے پے نہیں ہو سکتے لیکن ان کی طرف
توجہ ہی نہ جائے تو ماحول میں دلچسپی ختم ہو جائے گی۔ کالجوں اور سکولوں
میں ایسے جدید معاون آلات ہونے وقت کی شدید ضرورت ہیں۔
ہمارے تعلیمی ماحول میں سے ہم نصابی سرگرمیاں ایسے غائب ہو گئی ہیں جیسے
موسمِ خزاں میں درختوں کے پات گر جاتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام افسوس ناک حد
تک بوریت کا شکار ہو گیا ہے۔ سو فیصد توجہ مارکس حاصل کرنے پر مرکوز ہو چکی
ہے۔طلبہ کتابی سرگرمیں سے ذرا بھی فرصت نہیں پا پاتے۔نمبروں کا ایسا بھوت
سوار ہے کہ ہم نصابی سرگرمیاں جنہوں نے تربیت کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے
ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ ہو چکی ہیں ان کو واپس بلانے کی اشد ضرورت ہے۔
اکیڈمی کلچر نے تعلیمی نظام کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔ طلبہ
اسکول یا کالج کی پڑھائی کو پڑھائی سمجھتے ہی نہیں وہ اگر سنجیدہ ہیں تو
صرف اکیڈمی کی پڑھائی میں۔اس مسئلے کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اس میں
عوام کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، جو کہ بالکل آسان نہیں۔ان اکیڈمیز کی
موجودگی تعلیمی نظام کے مستقبل کا خطرہ ہیں لیکن اس بات کا اندازہ آنے والے
دور میں پرائیو یٹائزیشن کا سامنا کرتے ہوئے ہو گا۔
سرکاری ادارے عوام کی نظر میں اپنا وقار کھو رہے ہیں اور اکیڈمی کا رول
مضبوط ہو رہا ہے۔
سرکاری اداروں میں اصلاحات کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔سرکاری ادارے متوسط اور
تھرڈ کلاس کے طالب علموں کا بہت بڑا سہارا ہیں اس لئے ان کا وجود از حد
ضروری ہے۔اور ان کے وجود کا استحکام کے لئے ان میں اصلاحات کرنا اور بھی
زیادہ ضروری ہے۔
امید ہے کہ یہ خیالات اہلِ علم کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر
سکیں گے۔
|