اسلام انسانوں کو ایک پیمانہ اور کسوٹی دیتا ہے کہ زندگی
میں ہر چیز کو اس سے ناپ اور پرکھ کر دیکھو ، جو اس کے معیار پر کھرا اترے
وہ حق ہے اور جو اس پر کھرا اور پورا نہ اترے وہ باطل ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں قومی، ملکی، مسلکی ، جماعتی ، اورادارتی عصبیت عام
ہوتی جارہی ہے ہر شخص ہر جماعت ہر ادارہ، اس کا شکار ہے ، حد تو یہ ہے کہ
ہمارے دانشوران قوم اور علماء کرام بھی اس میں ملوث ہیں ۔
عصبیت کیا ہے؟ عصبیت اپنی حقیقت اور اصل کے اعتبار سے محبت ہی کی ایک شدید
اور غیر متوازن اور غیر عادلانہ قسم ہے ۔ محبت ہر انسان اور جانور میں فطری
طور پر پائی جاتی ہے اس میں بے اعتدالی اور عدم توازن پیدا ہوجائے تو وہ ,,تعصب،،
کہلاتا ہے۔ عصبیت کی ایک تعریف ھی متابعۃ الھوی سے کی گئی ہے کہ یہ خواہشات
کی پیروی کا نام ہے جبکہ اسلام اس کے بالکل بر عکس و نھی النفس عن الھوی
خواہشات نفس پر پابندی لگانے کانام ہے ۔
انسان دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرا سکتا ہے لیکن سب سے زیادہ سخت ٹکراؤ اس وقت
پیش آتا ہے جب اسے خود اپنے آپ سے ٹکر لینی پڑتی ہے اور اسی لئے اس ٹکراؤ
کو ایمان جیسی بلند نعمت کی قیمت قرار دیا گیا ہے۔اسی وجہ سے اس کو جہاد
اکبر کہاگیا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : لایؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعاً
لما جئت بہ (مشکوۃ) تم میں کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک
کہ اس کی خواہشات میرے لائے ہوئے طریقے کے تابع نہ ہوجائے۔ ایک دوسری حدیث
میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اﷲ
تعالیٰ اور اس کا رسول اسے دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں غور وفکر کرتے وقت انسان کے اپنے ذاتی
رجحانات اور اس کی پسند یا ناپسند کو بہت بڑا دخل ہوتا ہے چاہت یا نفرت،
محبت یا عداوت آدمی کی عقل و بصیرت پر دبیز پردے ڈال دیتی ہے اور پھر اسی
کی روشنی میں آدمی دیکھنے اور سوچنے لگتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے حبک
الشئیعمی ویصم ، کسی چیز سے تمہاری محبت تمہیں اندھا بھی بنادیتی ہے اور
گونگا بھی۔,,تعصب ،،عربی لفظ ہے جس کا مادہ ,,ع ص ب،، ہے جس میں باندھنے کا
مفہوم پایا جاتا ہے، اسی سے ,,عصاب،،اور,, عصابۃ،، ہے جو پٹی کے معنی میں
آتا ہے تعصب کا شکار شخص کسی جماعت کسی حلقے ، یا کسی خاص طرز فکر کا اسیر
وقیدی ہوکر اسی میں بندھ کے رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ حق و صداقت کی
وسعتوں میں آزادانہ غور وفکر کی نعمت سے محروم ہوجاتا ہے اور جب تک کسی
آدمی کو اس کی محبت اپنے اندر اس قدرجکڑ نہ لے کہ وہ حق وانصاف کے تقاضوں
سے غافل ہوجائے اس وقت تک اس کی وہ محبت اسلام وایمان کے منافی نہیں ہے ۔
چونکہ اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: لایلام الرجل علی حب قومہ آدمی کی
اپنی قوم سے محبت پر کوئی ملامت نہیں ۔(مجمع الزوائد)یعنی یہ فطری چیز ہے
جو قابل مذمت نہیں اسی طرح کوئی شخص اپنے طبقے اپنی جماعت اپنے ہم وطن
لوگوں یا اپنے ادارے اور جماعت سے وابستہ لوگوں سے دوسرے لوگوں کے مقابلہ
میں زیادہ محبت رکھتا ہوتو اس حد تک اس میں کوئی خرابی نہیں ہے ہاں! جب یہ
چیز بڑھ کر دوسرے سے اعراض و بے اعتنائی خدانخواستہ ان کی حق تلفی تک پہنچ
جائے تو بہت مذموم عصبیت بن جاتی ہے چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: لایضر الرجل
حبۃ قوم مالم یبغض سواہم آدمی کے لئے اپنی قوم کی محبت اس وقت تک مضر نہیں
جب تک کہ وہ دوسروں سے نفرت نہ کرنے لگے ۔ (کنزالعمال )
ایک طویل حدیث میں آپ ﷺ نے کئی ہدایات دیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو
کسی اندھی جنگ کے جھنڈے تلے محض عصبیت کی خاطر غصہ ہوکر لڑا یا اس نے عصبیت
کی خاطر اس کی مدد کی اور اس میں مارا گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا(مشکوۃ)
یعنی کسی معاملہ کی حقیقت جانے بغیر کسی جھگڑے میں آدمی محض اپنے لوگوں کا
ساتھ دینے کی خاطر شریک ہوتا ہے تو یہ اندھی جنگ ہے اور اس میں اگر اتفاق
سے اس کا گروہ حق پر بھی ہے تب بھی اس کی شرکت چوں کہ حق سمجھ کر نہیں محض
عصبیت کی وجہ سے ہے اس لئے یہ جاہلیت اور غیر اسلامی عمل ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا خود کو اسی نام سے موسوم کرو جو تمارے لئے اﷲ تعالیٰ نے
تجویز فرمایا ہے ,,مسلم یا مؤمن ،، اپنی اس شناخت پر قانع نہ ہونا اور کسی
گروہ سے اپنی شناخت تجویز کرنا گروہی عصبیت کا بیج بونا ہے ۔ عصبیت سے کیا
ہوتا ہے کہ آدمی اپنی قوم ، اپنے ادارے اپنی بستی ، میں ضم ہوکر رہ جاتا ہے
جب کہ اسلام تمام چھوٹی چھوٹی قومیتوں اور الگ الگ انفرادیتوں کو تحلیل
کرکے ایک وسیع وہمہ گیر (Globle) ملت تشکیل کرتا ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ جب
یہ چھوٹی بستیاں اور الگ الگ سے نکلے ہوئے چشمے آکر اس سمندر میں ضم
ہوجائیں تو ان کے ذہنوں تک سے اپنی پرانی یادیں اور قومی رشتے محو ہوجائیں
گے ۔
واقعہ یہ ہے کہ جب تک یہ پرانے رشتے اور خویشی وبیگانگی کی یہ تضاد اور
جاہلی نسبتیں فنا نہ ہوجائیں ان کا انضمام کامل اور ان کی رگ رگ اور ریشے
ریشے میں اسلامی تعلیمات کا نفوذ معتبر نہیں ۔ اور ہمارا یہی نقص ہوتا ہے
جس کی وجہ سے ہم ذرا ذرا سے گروہی محرکات سے حرکت میں آکر گروہ بندی کا
نعرہ لگاکر شیطانی جال کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے دین و دنیا کو اور
دوسروں کی کم از کم دنیا کو سخت آزمائش میں ڈال دیتے ہیں ۔
میدان کارزارمیں دشمن کے سامنے فخریہ کلمات کہنے کی ممانعت نہیں ہے لیکن
اسلام کی آغوش میں آجانے کے بعد تمام وطنی اور علاقائی امتیازات ختم کرکے
صرف ایک ملت اسلامیہ کا فرد بن کر رہنا چاہئے۔ اور دوسری تمام نسبتوں کوا س
ایک وسیع خدائی نسبت میں گم کردینا چاہئے ۔ جیسا کہ اوپر حدیث میں گزر چکا
کہ اپنا نام وہی رکھو جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے تجویز کیا ہے ,,مسلم یا
مؤمن ،، اس کے بعد اگر پھر اس کی مزید تقسیم کرنی پڑے تو وہ بھی اسلامی
نسبت کے ساتھ ہی ہونی چاہئے ۔ کسی علاقے یا کسی اور نسبت کے ساتھ اپنے کو
منسوب نہیں کرنا چاہئے اس سے تفریق کا جذبہ ابھر تا ہے ۔
حضور اکرم ﷺ کے اخیردور کی پیش گوئیوں میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ,,میری
امت اس وقت تک فتنوں کا شکار نہیں ہوگی جب تک کہ ان میں تمایز ، تمایل ،
اور معامع نہ پیدا ہوجائیں۔ تمایز کے معنی ہیں باہمی تخرب یعنی گروہ بندی
پیدا ہونا اور پھوٹ پڑنا۔ تمایل کا مطلب ہے باہمی جنگ و جدال اور معامع ان
شدید اختلافات کو کہتے ہیں جوتخرب ، گروہ بندی اور تعصب کے نتیجہ میں پیدا
ہوتے ہیں لیکن صحابہ کرام نے یہ الفاظ آپ کی زبان مبارک سے سنے تو ہر ایک
کی علاحدہ علاحدہ تفصیل آپ ہی سے پوچھی آپﷺ نے فرمایا تمایز وہ عصبیت ہے
جسے لوگ میرے بعد اسلام میں جنم دیں گے ۔ اور تمایل یہ ہے کہ ایک قبیلہ
دوسرے قبیلہ پر ٹوٹ پڑے او ان کی عزت وآبرو اور کسی بھی بات کا پاس و لحاظ
نہ کرے ۔ اور معامع یہ ہے کہ ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے والوں پر چڑھ
دوڑیں اور انہیں تہ تیغ کردیں۔
آج غور کیجئے ملک کے بہت سے حصوں میں مختلف النو ع کی عصبیت کس بر ی طرح سے
ہمارے معاشرے پر چھائی ہوئی ہیں اور کس طرح ہم نے ایک جامع ،مضبوط اور وسیع
رشتہء ایمان و اسلام کو فراموش کرکے اپنے کو الگ الگ مختلف خانوں اور گروہ
بندیوں میں تقسیم کرلیا ہے جو سراسر ایک غیر اسلامی عمل اور دنیوی لحاظ سے
بھی سخت عاقبت اندیشی ہے۔
آج یہ تخریب ہماری صفوں میں بری طرح سرایت کر چکا ہے جو ہمار ی قومی و ملی
بنیادوں کو تیزی سے کھوکھلا کرتا جارہاہے اگر ہماری مسلم جماعتوں اور
اداروں کے باشعور حضرات اپنے اپنے افراد کو سنبھال لیں اور علماء کرام ،
مقررین حضر ات ، ارباب قلم اور قوم کے دیگر با اثر لوگ اس چیز پر سنجیدگی
سے توجہ فرمائیں اور اپنے اپنے حلقہء اثر میں تفریق کے مزاج کو ختم کرنے
اور ایک دوسرے کا احترام باہمی محبت و یگانگت کا ماحول بنانے کی ہمہ جہتی
کوشش کریں تو اﷲ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ بہت جلد اس کے اثرات ظاہر ہوں
گے ۔ قرآن کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ ہے: اور وہ اﷲ ہی ہے جو لوگوں کے ناامید
ہوجانے کے بعد رحمت کی بارش بر ساتا ہے اور ہر طرف اپنی رحمت پھیلادیتا ہے
۔(سورہ شوری)آئیے ہم اب رب کائنات کے حضور ملت کے باہمی تفرقے مٹانے کا عہد
کرتے ہیں :
آغیریت کے پردے ایک بار پھر اٹھادیں
بچھڑوں کو پھر ملادیں، نقش دوئی مٹادیں
٭٭٭ |