حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب’’
الاخبارالاخیار‘‘میں لکھتے ہیں۔’’برصغیرمیں لودھی خاندان کے آخری
فرمانرواابراہیم لودھی کے والدسلطان سکندلودھی کے وزراءِ سلطنت ملک زین
الدین اورملک وزیرالدین ربیع الاول کی پہلی تاریخ کوایک ہزارروپے‘دورربیع
الاول کو دوہزارروپے،تین ربیع الاول کو تین ہزاروپے اوراسی طرح ہرتاریخ کے
عددکے اعتبارسے روزانہ ایک ہزارروپے بڑھاکرجشن عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ
آلہ وسلم پرخرچ کرتے تھے۔خاص طورپر12ربیع الاول کو12 ہزارروپے خرچ کیاکرتے
تھے۔اس کے علاوہ جمعہ کے روزکئی من چاولوں کالنگرپکاکر غریبوں میں تقسیم
کرتے اوران چاولوں کی خصوصیت یہ ہوتی کہ پکانے سے پہلے چاول کے ہردانے
پرتین تین مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی جاتی تھی‘‘
متحدہ عرب امارات میں 12ربیع الاول 1420ھ 25جون 1999ء
کوکثیرالاشاعتی’’اخبارالبیان‘‘ اورروزنامہ ’’الخلیج‘‘میں یواے ایحکومت کے
مشیر سیدعلی ہاشمی کاایک مضمون بعنوان’’بمناسبۃ یوم مولدہ الشریف من معالم
الوفاللرسول الکریم صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم‘‘ شائع ہوا۔وہ لکھتے
ہیں۔(ترجمہ)’’رسول اعظم حضرت محمدمصطفیٰ صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کا
میلادمنانااصحاب فضیلت اوراہل خیروفلاح لوگوں کی علامت میں سے ہے۔وہ اہل
علم اﷲ تعالیٰ نے جن کے ظاہروباطن کی اصلاح فرمائی ہے۔عیدمیلادالنبی صلی اﷲ
علیہ آلہ وسلم منانے کے لئے اپنے جذبات محبت وعقیدت کااظہارکرنے کے خواہاں
ہوتے ہیں۔سلف صالح اوران کے نقش قدم پرچلنے والے لوگ ہمیشہ عیدمیلادشریف
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے آئے ہیں۔کیوں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کے
میلادہی نے شرک وجہالت کی رات کاخاتمہ کیااورآپ صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کی
ولادت ہی سے علم وخیراورہدائے کی فجرطلوع ہونے کا وقت آن پہنچاہے۔آج مشرق
ومغرب میں مسلمان جوسیدعالم صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کایوم میلادمنارہے ہیں تو
وہ صرف آپ ہی کانہیں بلکہ اخلاق عظیمہ کامیلادبھی منارہے ہیں۔سیدہاشمی اپنے
آرٹیکل کے آخری حصہ میں رقم طرازہیں’’عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم
منانے کا سب سے زیادہ حق متحدہ عرب امارات کاہے‘‘۔’’الخلیج‘‘میں ہی 12ربیع
الاول شریف کو اسامہ طہٰ نامی سکالرکاایک مضمون بعنوان’’من وحی
مولدالرسولصلی اﷲ علیہ آلہ وسلم‘‘شایع ہوا۔اس مضمون کا آغازاس طرح
ہواہے۔(ترجمہ)’’جیسے سورج اپنے انوارسے طلوع ہوتاہے توروشنی کاایک چشمہ
پھوٹتاہے جسے دن کہاجاتاہے۔نبی اکرم صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم پیداہوتے ہیں
توانسانیت میں ایک نورکاسرچشمہ پھوٹتاہے جسے دین کہاجاتاہے۔بشریت اپنے طویل
سفرمیں تھکاوٹوں سے چکناچورہوچکی تھی۔تب اﷲ تعالیٰ کومنظورہواکہ اسے نوازدے
تواﷲ تعالیٰ نے اپنے عظیم رسول صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کے میلادشریف کا اذن
دیااورآپ صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم کو تمام نبوتوں کاخاتم بنایا‘‘۔
کتاب ’’مختصرسیرت الرسول‘‘ صفحہ13‘مشہورعالم،عبداﷲ بن محمدبن عبدالوہاب
نجدی لکھتے ہیں کہ’’ابولہب کو اس کے مرنے کے بعدخواب میں دیکھاگیااوراسے
پوچھاگیاکہ تیراکیاحال ہے‘وہ کہنے لگامیں توآگ میں ہوں مگرہرپیرکومیرے عذاب
میں تخفیف کردی جاتی ہے اورانگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگاکہ کہ پیرکے
دنمیری نا دوانگلیوں سے پانی نکلتاہیاورمیں پیتاہوں اوریہ میرے عذاب میں
کمی کا باعث ہے۔میرے عذاب میں کمی اس لئے ہوتی ہے کہ ثویبہ نے جب مجھے
محمد(صلی اﷲ علیہ آلہ وسلم)کی ولادت کی خبردی تھی ‘میں نے اسے
آزادکردیاتھا۔ابن جوزی کہتے ہیں کہ جب ابولہب جیسے کافرکی یہ حالت ہے کہ جس
کی مذمت قرآن نے کی‘اس کو حضورعلیہ السلام کے میلادکی خوشی کرنے پر جزادی
گئی تو اس توحیدکوماننے والے اُمتی کاکیاحال ہوگاجو حضورعلیہ السلام کے
میلادکی خوشی منائے۔‘‘
ایک ہندوشاعر کہتے ہیں،
’’کیاشان ہے جناب رسالت مآبﷺ کی
نظریں جھکی ہوئی ہیں مہ وآفتاب کی
قرآن پاک ان کی صداقت پہ ہے گواہ
ہے کتنی بلندیوں پہ رسائی جنابﷺ کی
اکمل کہیں مقام ادب ہاتھ سے نہ جائے
توصیف کہہ رہے ہو رسالت مآبﷺ کی ‘‘۔
سابق بھارت کرکٹر بیدی سحر لکھتے ہیں،’’ہوجائے عشق کسی سے کوئی چارہ تو
نہیں‘صرف مسلم کامحمدصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پہ اجارہ تو نہیں‘‘۔ |