ذکر حبیب ﷺ ، بہ زبان ِ قرآن ِ حکیم
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
ہمارے پیارے نبی ﷺ کا ذکر ِ خیر
ہر ایک نے اپنے طریقے سے کیا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دو رسے لے
کر آج تک رسو ل اللہ ﷺ کا ذکر ِ خیر اپنے اپنے طریقوں سے ہو رہا ہے ۔ خود
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مختلف طریقوں سے رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا ہے ۔
کہیں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا تو کہیں آپ ﷺ کی صفت ِ
رحمت کا تذکرہ کیا ہے ۔ ذیل میں ، میں چند آیات کا ترجمہ پیش کرتا ہوں ، جس
میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کا ذکر کیا ہے :
1۔ آج کا دور بڑا نازک دورہے ۔ اس نازک دور میں اسوہ ِ محمدی ﷺ کی اہمیت
اور بڑھ جاتی ہے ۔ رحمت ِ عالم ﷺ کی سیرت سے ہر ایک روشنی لے سکتا ہے ۔ کیا
مسلم ، کیا غیر مسلم ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مجید میں ارشاد فرمایا:
"یقینا تمھارے لیے رسول اللہ (ﷺ) میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ۔ ہر اس شخص کے
لیے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کی یاد
کرتا ہے ۔ (سورۃ الاحزاب ، آیت نمبر 21)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ ِ حسنہ یعنی سنتوں پر عمل کرنے
کا حکم اللہ تعالی ٰ نے بھی دیا ہے ۔ جس سے سنت کی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی
لگایا جا سکتا ہے ۔
2۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے نبی کی اتبا ع کو اپنی محبت قرار دیا ہے ۔
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
"(اے نبی ﷺ) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری
کرو ، خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ
بخشنے والا مہربان ہے ۔ "( سورہ ِ آل ِ عمران، آیت نمبر 31)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اتبا ع ِ رسول ﷺ سے دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے ۔
2۔ گناہوں کی بخشش ہو تی ہے ۔
یقینا یہ دونوں بہت بڑے فائدے ہیں ۔ جن سے نہ صرف دنیا سنور سکتی ہے ، بلکہ
آخرت بھی بن جاتی ہے ۔ ایک سچے مسلمان کے لیے ان دوفائدوں سے بڑے کون سے
فائدے ہو سکتے ہیں !
3۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے
۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
"جو اس رسول کی اطاعت کرے ، اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جو فرماں
برداری نہ کرے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ۔ "
(سورۃ النسا ء ، آیت نمبر 80)
4۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت
کیوں قرا دیا ۔ اس کا جواب بھی ہمیں قرآن مجید سے ہی ملتا ہے ۔ ارشاد ِ
باری تعالیٰ ہے:
"قسم ہے ستارے کی جب وہ گرے ۔ کہ تمھارے ساتھی نے (یعنی نبی کریم ﷺ نے) نہ
راہ گم کی ہے اور نہ وہ ٹیڑھی راہ پر ہیں ۔ نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات
کہتے ہیں ۔ وہ تو صرف وحی ہے ، جو اتاری جاتی ہے ۔ "(سورۃ النجم ، آیت نمبر
1 تا 4)
اس آیت سے معلوم ہو ا کہ رسول اللہ ﷺ کا قول و فعل بھی احکام ِ الہٰی سے
مزین ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ اسی راہ پر ہیں ، جس راہ پر انھیں اللہ تعالیٰ
نے چلا یا ہے ۔اسی طرح آپ ﷺ وہی بات ارشاد فرماتے ہیں ، جو آپ ﷺ کی وحی کی
جاتی ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے :
"جو کچھ میرے پاس (یعنی رسول اللہ ﷺ کے پاس)وحی آتی ہے ، میں تو صرف اس کا
اتباع کرتا ہوں ۔ "(سورہِ الانعام ، آیت نمبر 50)
رسول اللہ ﷺ کے اوصاف و اخلا ق کے حوالے سے بھی قرآن ِ مجید میں متعدد آیات
نازل ہوئیں ہیں۔ یہاں ان تمام آیات کا احاطہ کرنا مشکل ہے ۔ چند آیات کا
ترجمہ لکھنے کو کوشش کرتا ہوں۔
5۔ "اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ ترش رو اور سخت
دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے ۔سو آپ ان سے در گزر کریں اور ان
کے لیے استغفار کریں ۔ "(سورہ ِ آل ِ عمران ، آیت نمبر 159)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف نرم دل
بنایا گیا تھا۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سخت مزاج لوگوں کے سامنے
لاگ نہیں ٹکتے اور انھیں دل سے پسند نہیں کرتے ۔ اس لیے ہمیں بھی اپنے نبی
ﷺ کی طرح نرم مزاج ہو نا چاہیے ۔ تاکہ لوگ ہمیں پسند کریں ۔
6۔ "اے اہل ِ کتاب ! یقینا تمھارے پاس ہمار ا رسول آچکا ہے ۔ جو تمھارے
سامنے کتاب اللہ کی بکثرت ایسی باتیں ظاہر کر رہا ہے ، جنھیں تم چھپا رہے
تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر کرتا ہے ۔ " (سورۃ المائدہ ، آیت نمبر 15)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ عفو و در گزر سے کام لیتے تھے ۔
عفو و درگزر کی سب سے بڑی مثال فتح ِ مکہ کے موقع پر نظر آتی ہے ۔ جب ہمارے
نبی ﷺ نے اپنے تمام سابقہ دشمنوں کو بہ دل و جان معاف کر دیا تھا ۔ کاش !
آج ہم بھی ایسے ہوتے ۔ کاش! ہم منتقم مزاج نہ ہوتے !
7۔ "تمھارے پاس ایک ایسے پیغمبر (ﷺ) تشریف لائے ہیں ، جن کو تمھاری مضرت کی
بات نہایت گراں گزرتی ہے ۔ جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں ۔
ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق او مہربان ہیں ۔ " (سورہ ِ التوبہ ، آیت
نمبر 128)
8۔ "پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج
میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے ۔"(سورۃ الکہف ، آیت نمبر 6)
"طٰہٰ! ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نہیں اتار ا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں ۔"
(سورہ ِ طٰہٰ، آیت 1۔2)
"آپ (ﷺ) ان کے ایما ن نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھو دیں گے ۔" (سورۃ
الشعراء ، آیت نمبر 2)
ان تینوں آیات سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے پیارے پیغمبر
ﷺایمان نہ لانے والوں کے بارے میں کتنے متفکر اور غم زدہ تھے ۔ خصو صا
تیسری آیت ، جس میں اللہ تعالیٰ نے بڑے عجیب انداز میں پیغمبر ِ اسلام ﷺ کی
فکر مندی اور غمزدگی کی تصویر کھنچی ہے ۔ ہم کتنے رحیم و کریم پیغمبر کی
امت میں سے ہیں !!
9۔ "اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے ۔
"(سورۃ الانبیاء ، آیت نمبر 107)
اوپر دی گئی آیات پر اگر آپ غور کریں تو تقریبا ساری آیات رسول اللہ ﷺ کی
صفت رحمت سے متعلق ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نبی ﷺ میں صفت ِ
رحمت بدرجہ ِ اتم موجود تھی ۔ آج کا مغضوب زمانہ متقاضی ہے کہ ہم صرف رسول
اللہ ﷺ کی رحمت والی سنت پر ہی عمل پیرا ہو جائیں تو بہت سے مسائل حل ہو
سکتے ہیں ۔ ہر طرف آگ ہے ، نفرتیں ہیں ۔ محبت معدوم ہے ۔ دل کینہ زدہ ہیں ۔
انسانیت کا قتل ہو رہا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے پیارے نبی ﷺ کی صفتِ
رحمت پر تادم ِ مرگ عمل پیرا ہو جائیں ۔
باتیں اور بھی بہت سی لکھنے کو ہیں ۔ لیکن طوالت کا خوف ہے ۔ سو اسی پر
اکتفا ہے ۔
|
|