حقیقی انقلاب سیرت مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں
(Muhammad Siddique, Layyah)
انقلاب انقلاب جتنے لیڈر
اتنے انقلاب۔آج کے دور میں ہر ایک انقلاب لانے کی باتیں کرتا ہوا دکھائی
دیتاہے۔ سیاستدانوں اور مذہبی شخصیات کی طرف سے انقلاب کی باتیں پڑھ کر یوں
محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایک نہیں ہزاروں انقلاب آنے والے ہیں۔ یہ تو
ہر ایک کہتا ہے کہ وہ انقلاب لے آئے گا مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ انقلاب
کیسے آئے گا۔ کوئی مصطفوی انقلاب کی باتیں کرتا رہا۔ کسی کا کہنا ہے کہ اس
ملک میں اسلامی انقلاب آئے گا۔ کوئی محمدی انقلاب کی نوید سناتا ہو ادکھائی
دیتا ہے۔ کوئی خونی انقلاب کی بات کرتاہے۔ کوئی انقلاب فرانس کی خوشخبری
سناتاہو انظرآتاہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ ہم اس ملک میں مدنی انقلاب لائیں گے۔
کوئی کہتا ہے کہ حالات انقلاب کی جانب جارہے ہیں۔الغرض یہ سب باتیں اور
عوام کو سہانے خواب دکھانے کے مترادف دعوے ہیں۔ انقلاب باتوں ، دعوں، جلسوں
سے نہیں آیاکرتے۔ دنیا کے بہت سے انقلابوں کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں۔ تاہم
اصل انقلاب کی بات کوئی نہیں کرتا۔دنیا میں جو حقیقی انقلاب آیا اس کا
حوالہ کوئی نہیں دیتا۔ اس ملک میں تو قائد انقلاب بھی کہلائے جاتے ہیں۔
لکھنے پڑھنے والوں میں سے بہت کم کو معلوم ہوگا کہ قائد انقلاب کسے کہتے
ہیں۔ قائدانقلاب کسے کہا جاسکتاہے۔ قائد انقلاب کے اوصاف کیا ہوتے ہیں۔قائد
انقلاب اس وقت تو ہوسکتاہے جب انقلاب آجائے انقلاب آجانے سے پہلے کسی
کوقائد انقلاب نہیں کہا جاسکتا۔ حقیقی انقلاب کیا ہوتاہے۔ حقیقی انقلاب کب
اور کہاں آیا۔ حقیقی قائد انقلاب کون ہے۔ اس تحریر میں ہم اپنے قارئین کو
اس سے آگاہ کررہے ہیں۔ انقلاب دعووں سے نہیں عمل سے آتاہے۔ دھوکہ دینے سے
نہیں راست بازی سے آتاہے۔ انتقام لینے سے نہیں معاف کردینے سے آتاہے۔ دولت
سمیٹنے سے نہیں تقسیم کرنے سے آتاہے۔ دوسروں کے حقوق غصب کرنے سے نہیں
دوسروں کے حقوق اداکرنے سے آتاہے۔ مخلوق خدا کے لیے مشکلات پیداکرنے سے
نہیں آسانیاں پید اکرنے سے آتاہے۔ دنیا میں حقیقی انقلاب آچکا ہے۔ اس سے
بڑا انقلاب نہ تو اس سے پہلے آیا اور نہ بعد میں آیا اور نہ کبھی آئے گا۔
اس انقلاب کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی گئی۔ جلسے جلوس اور دھرنے نہیں دیے
گئے۔ کسی کومجبورنہیں کیا گیا۔ کسی کولالچ نہیں دیا گیا۔ یہ انقلاب اب سے
چودہ سو سال پہلے عرب کی سرزمین پرآیا۔ یہ انقلاب رحمت دو جہاں سرورکون
ومکاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم لے آئے۔ دنیا میں اب تک جتنے بھی اور انقلاب
آئے اور جتنے بھی انقلاب آئیں گے اگر وہ اس انقلاب کے مطابق ہیں یاہوں گے
تو ان کوانقلاب کہا جاسکتا ہے۔ اگر اس کے مطابق نہیں تو انقلاب نہیں کہا
جاسکتا۔ سرکارمدینہ سرورقلب وسینہ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا یہ انقلاب کیسے
آیا۔ اس کی تفصیل آپ علماء کرام سے سنتے رہتے ہیں ۔ سیرت مصطفی کی کتابوں
میں پڑھتے رہتے ہیں۔ اس انقلاب کا آغاز رسول کریم دریتیم صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی ولادت باسعادت سے پہلے ہی ہوگیا تھا۔ ابرہہ بادشاہ ہاتھیوں کی فوج
لے کر کعبہ کوگرانے آیا۔ اس کے لشکر نے قریش کے مویشی اغوا کرلیے۔
سرکاردوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب ابرہہ کے پاس
تشریف لے گئے۔ اس نے آنے کا مقصدپوچھا تو فرمایا کہ میرے اونٹ واپس کرو۔ اس
نے کہا حیرت کی بات ہے کہ میں کعبہ گرانے آیا ہوں تم نے اس کے بارے میں تو
کوئی بات نہیں کی ۔ تمہیں کعبہ کی کوئی فکر نہیں ۔ اپنے اونٹوں کی فکر
پڑگئی۔حضرت عبدالمطلب نے جو جواب دیا وہ سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہیں
انہوں نے فرمایا کہ اونٹ میرے ہیں اس لیے مجھے اونٹوں کی فکرہے۔ کعبہ جس کا
گھرہے وہی اس کی خود حفاظت کرے گا۔پھر اﷲ پاک نے کعبہ کی کس طرح حفاظت کی
اس کی تفصیل قارئین اچھی طرح جانتے ہیں۔ظہورآفتاب رسالت صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی ولادت باسعادت سے پہلے انسان تو تھے انسانیت نہیں تھی۔ رشتہ داریاں
تو تھیں ان کا احساس اور پاس نہیں تھا۔ بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ جس
کی لاٹھی اس کا قانون نافذتھا۔ کمزورقبائل کوجینے کاکوئی حق نہیں تھا۔
لڑائیاں پشت در پشت جاری رہتی تھیں۔ انتقام کی آگ بجھنے کا نام نہیں لیتی
تھی۔بہن بھائی ماں باپ چھوٹے بڑے کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ وراثت میں عورتوں
کاکوئی حصہ نہیں تھا۔خونی رشتہ دار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ یہ تو
تھی اخلاقی پستی کی ایک جھلک ۔ ماحول کی صورت حال کچھ یوں تھی کہ ہرطرف خشک
سالی کادوردورہ تھا۔ زمین نے سبزہ اگانا معطل کردیا تھا۔ درخت سوکھ گئے
تھے۔ مویشیوں کے لیے چراگاہیں ویران ہوگئی تھیں۔آسمان سے بارش برسے ہوئے
طویل عرصہ گزرگیا تھا۔ رحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت
کے ساتھ ہی خشک سالی خوشحالی میں بدل گئی۔ درخت ہرے بھرے ہوگئے۔ زمین سبزہ
اگانے لگ گئی۔ رحمت دوعالم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے اپنا بچپن، لڑکپن،
جوانی سمیت تمام عمر سب کے سامنے گزاری۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم
کی ظاہری زندگی ، طور اطوار، گفتار، کردار، رہن سہن، بول چال، اٹھنا بیٹھنا
، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، الغرض حیات رسالت صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی
مبارک زندگی کا لمحہ لمحہ حقیقی انقلاب کا عنوان ہے۔ سروردوجہاں صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم کے حسن کردارکا ہی یہ پرتو تھا کہ کفارمکہ اپنی امانتیں
رسول پاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے پاس ہی رکھتے تھے۔ صادق اورامین کے لقب
سے بھی پکارتے تھے۔ انہیں کسی پر اعتماد تو تھا توصرف نبی کریم صلی اﷲ علیہ
والہ وسلم پر تھا۔ خدیجہ خاتون کو اس کا مال تجارت لے جانے اور لے آنے کے
لیے ایماندار اوردیانتدارشخصیت کی ضرورت پڑی تو اس کی نظرانتخاب بھی رسول
اکرم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم پر ٹھہر گئی۔ شاہ کون ومکاں دوجہاں کے
سلطان رحمت عالمیان صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی قیادت میں پہلے تجارتی قافلے
کی واپسی اور سالار قافلہ کی شان وشوکت اور امانت ودیانت دیکھ اورسن کر
خدیجہ خاتون نبی پاک صاحب لولاک صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی محبت میں گرویدہ
ہوئی کہ اس نے نکاح کا پیغام بھی بھیج دیا۔وہ عورت کوڑاکرکٹ پھینکا کرتی
تھی ۔ وہ سرکاردوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے حسن سلوک سے متاثرہوکر
دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اسلام لانے سے پہلے
اسلام کے سخت دشمنوں میں سے تھے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی دعا سے
مشرف بہ اسلام ہوئے تو اﷲ پاک نے انہیں وہ اعزازبخشا کہ مسلمانوں کے دوسرے
خلیفہ منتخب ہوئے۔ قرآن پاک کی کئی آیات حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی
خواہش پر نازل ہوئیں۔دوسروں کے حقوق غصب کرنے والے حقوق کے محافظ بن
گئے۔ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھائی بھائی بن گئے۔خواتین جنہیں وراثت میں
کوئی حصہ نہیں ملتا تھا ۔ ان کا وراثت میں حصہ مقرر ہوا۔ عورت کو وہ مقام
ملا کہ ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی۔ بتوں، درختوں، آگ، سورج، چاند ،
ستاروں کی پوجا کرنے والے ایک معبود کے آگے سربسجود ہوگئے۔بھوکا آیا تو
ایسا سیر ہوکر گیا کہ پھر بھوک نے ستا یا ہی نہیں۔ جس کو ایک با ر جو عطاء
ہوا پھر اسے مانگنے کی ضرورت نہ پڑی۔ انسان تو انسان جانوروں کے حقوق کی
بھی پہچان ہوئی۔ تنگدست آیا تو خوشحال ہوکر گیا۔نجاشی کے دربارمیں مہاجرین
مکہ کی طرف سے جو تقریر ہوئی وہ اس حقیقی انقلاب کا مرکزی خیال تھا۔جو ایک
بار آگیا پھر واپس نہیں گیا۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ، حضرت عمار بن یاسر رضی
اﷲ عنہ، حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین
پر جو مظالم توڑے گئے اسے کون نہیں جانتا۔ پھر بھی اسلام سے روگردانی نہیں
کی۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اﷲ
علیہم اجمعین کو اخوت کے رشتہ میں مضبوط کرکے دنیا بھر کے حکمرانوں اور
لیڈروں کے لیے خصوصی سبق دیا۔حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو کافروں نے کہا کہ آپ
کعبہ کا طواف کرلیں ۔ مگر حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے سرکار دوجہاں صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم کے بغیر کعبہ کا طواف کرنے سے انکار کردیا۔ صلح حدیبیہ جس
کی شرائط بظاہر مسلمانوں کے خلاف تھیں۔ تاہم قرآن پاک نے اس کو فتح مبین کا
لقب دیا ہے۔ اور اس کے بعد اسلام تیزی سے پھیلنے لگا۔ ابوجندل جو
سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے عشق میں محو تھا۔ وہ پاؤں میں بیڑیاں
پہنے پیٹ کے بل چل کر زیارت کرنے اور ساتھ نبھانے آیا۔ رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم نے معاہدہ کی پاسداری کرتے ہوئے اسے واپس کردیا۔ اس کے بعد
اسے جو بھی دیکھتا وہ کلمہ پڑھ کرمسلمان ہوجاتا۔اس کا والد یہ حالت دیکھ کر
تنگ آکر اسے واپس کرگیا۔فتح مکہ کے موقع پر سرکاردوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم چاہتے تو سب سے بدلہ لے سکتے تھے۔ مگر بدلہ کسی سے نہیں لیا ۔ عام
معافی کا اعلان کردیا۔ پناگاہیں بتائیں کہ جویہاں پناہ لے لے اسے امان
ہے۔چاند دوٹکڑے ہوا تو اسے پوری دنیانے دیکھا ۔ اعلان نبوت کے وقت جب یہ
پوچھا کہ تم نے مجھے کیسا پایا۔ تو سب نے بیک زبان ہوکر کہاکہ صادق اور
امین پایا۔ یہ قوم کی طرف سے اعلیٰ کردارکی گواہی تھی۔جہاں مسجد کی ضرورت
تھی وہاں مسجد بنادی۔پینے کا پانی نہیں تھا تو صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم
اجمعین کو ترغیب دلاکر اس کا انتظام کردیا۔ایک قوم کا سردارجو ایک جنگ میں
گرفتارہوا۔وہ نفرت کی وجہ سے اوپر دیکھتا بھی نہیں تھا۔ وہ رحمت دوعالم صلی
اﷲ علیہ والہ وسلم کی عنایات سے ایسا متاثرہوا۔ جاتے جاتے اس کے دل میں
خیال آیا جو اتنا لجپال ہے ذرا دیکھیں توسہی وہ خود کیسا ہے۔ واپس آیا
نظریں اٹھائیں۔ تو رخ مصطفی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم پر جمادیں۔ پھر دائرہ
اسلام میں داخل ہوگیا۔ایک بچہ جو بکریاں چرانے آیا کرتا تھا۔ اس کی نظر رخ
مصطفی پر پڑی تو ٹھہر گئی۔ اور اس میں ایسا محوا ہو تو اس نے سوچا بکریاں
چرتی رہیں یا بھوکی رہیں اس نورانی چہرہ کی زیارت کرتارہوں ۔ جو بھی آیا
واپس نہیں گیا۔تنگدست آیا تو خوشحال ہوگیا۔ بھوکا آیا تو ایسا سیر ہوکر گیا
کہ پھر اسے بھوک نے ستایا ہی نہیں۔ جہاں مسجدکی ضرورت تھی وہاں مسجد بنادی۔
مدینہ منورہ میں پینے کے پانی کی کمی تھی توصحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم
اجمعین کو ترغیب دلاکر اس کاانتظام کردیا۔حضرت بلال رضی اﷲ عنہ، حضرت
عماربن یاسر رضی اﷲ عنہ ، حضرت خبیب رضی اﷲ عنہ اوردیگر صحابہ کرام رضوان
اﷲ علیہم اجمعین پر کفار نے جو مظالم ڈھائے یہ قارئین اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگر پہاڑ بھی ہوتا تو وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جاتا۔یہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ
والہ وسلم کے حسن کردارکا دشمنوں کی طرف سے اقرارتھا کہ جب رحمت دوعالم صلی
اﷲ علیہ والہ وسلم نے اعلان نبوت کے وقت قوم سے پوچھا کہ تم نے مجھے کیسا
پایا تو سب نے بیک زبان ہوکر کہا کہ صادق اورامین پایا۔ نجاشی کے دربارمیں
مہاجرین مکہ کی طرف سے کی جانے والی تقریر اس حقیقی انقلاب کا خلاصہ
تھا۔یہی تو حقیقی انقلاب ہے کہ اجڑے ہوئے دل سنور گئے۔اس سے بڑا انقلاب نہ
آیا ہے نہ آئے گا۔اب تک جتنے بھی انقلاب آئے ہیں یاآئیں گے اگر وہ اس حقیقی
انقلاب کے مطابق ہیں توانہیں انقلاب کہاجاسکتا ہے ورنہ نہیں۔حقیقی قائد
انقلاب صرف اورصرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم ہیں۔انقلاب لانے سے
پہلے قائد انقلاب کہلوانا خود کو مطمئن کرنے کے مترادف ہے۔کہیں اسی کانام
انقلاب تو نہیں؟آیئے عہد کریں کہ ہم سب اپنا اپنا کرداراداکرتے ہوئے
پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک کواس حقیقی انقلاب سے روشناس کرائیں گے۔اﷲ
پاک کے احکامات اوررحمت دوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے اسوہ ء حسنہ پر
عمل کرتے ہوئے اس حقیقی انقلاب کودنیاکے ہرشخص تک پہنچائیں گے۔اسی میں
ہمارے تمام مسائل اورسب الجھنوں کاحل موجودہے۔ |
|