ہوں لاکھوں سلام اس آقا
پر،دل جس نے جوڑ دیے
دنیا کو پیغام سکون، انسانوں کے رخ موڑ دیے
اس محسن ِ اعظم نے الیاسؔ، کیا کیانہ دیا ہے عالم کو
دستور دیا، منشور دیا، کئی راہیں دی کئی موڑ دیے
نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور آپؐ کی پیروی زندگی کے ہر پہلو میں دین و دنیا کی
ہربات اور ہر کام میں اس قدر اشد ضروری ہے کہ اس کے بغیر اﷲ کی عبادت اور
اطاعت ممکن نہیں۔
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’رسول جو کچھ دیں وہ لے لو اور
جس سے روکیں اس سے رک جاؤ۔‘‘
اور ارشاد ِ خدا وندی ہے:’’اے نبیؐ!اپنی امت سے کہہ دیجئے کہ اگرتم اﷲ سے
محبت رکھتے ہو تو(ہر کام اور بات میں)میری پیروی کرو(اگر تم میری پیروی
کروگے)تو اﷲ جل شانہ تمہیں محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے
گا۔‘‘اﷲ تعالیٰ اپنی قربت کاراستہ خود بتا رہے ہیں۔اﷲ تعالیٰ سے قربت حاصل
کرنے کے لئے اتباع ِ سنت کا اہتمام لازم و ملزوم ہے۔بغیر سنت کے دین کی
تکمیل ہی نہیں ہو سکتی قرب ِ الٰہی تو بہت بعید ہے۔ارشاد ِ ربانی
ہے:’’یقینا تمہارے لئے اﷲ کے رسولؐ(کی تعلیم اور زندگی)میں بہترین نمونہ
ہے‘‘۔
غرض یہ کہ نبی کریم ﷺ کی اطاعت و پیروی اور آپؐ کی سنت کی اتباع صرف عبادات
یا زندگی کے کسی ایک یا چند پہلوؤں میں نہیں بلکہ پوری زندگی کے تمام
انفراد ی و اجتماعی کاموں میں ضروری ہے۔آپ ؐ کی زندگی اور تعلیم سارے
انسانوں خصوصا اہل ِ ایمان کے لئے اسوہ اور نمونہ ہے،اور یہ نمونہ زندگی کے
کسی ایک پہلو کے لئے نہیں ہے بلکہ عقائد اور افکار میں،اخلاق اور کردار
میں،اعمال اور معاملات میں،معاشرت اور معیشت میں،تجارت اور صنعت میں،غرض یہ
کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں،مذہبی اور سیاسی زندگی کے ہر
میدان میں پیارے آقا ؐ کی پیروی اشد ضروری ہے۔اﷲ رب العزت سے محبت اور
ایمان کا تقاضا ہے کہ حضور ؐ کی کامل پیروی کی جائے۔اﷲ تعالیٰ ارشاد
فرماتاہے:’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی‘‘۔
اور دوسری جگہ فرمان ِ الٰہی ہے:’’اور تیرے رب کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتے
جب تک کہ اپنے اختلافات میں تم کو(اے نبی)جج تسلیم نہ کریں۔اور تمہارے
فیصلے سے اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس کریں اور سرتسلیم جھکا نہ دیں‘‘۔
زندگی کے تمام معاملات میں حلال وحرام،جائز و ناجائز،صحیح اور غلط،حق و
ناحق معلوم کرنے کے لئے پیارے نبی ؐ کی تعلیمات اور ہدایات کو قانون تسلیم
کئے بغیر چارہ نہیں۔آپؐ کی سیرت ِ طیبہ اور اسوۂ مبارکہ کی عدالت سے جو
فیصلہ حاصل ہو،اسکے آگے سر تسلیم جھکا دینا چاہئے اور اس سلسلے میں دل میں
کوئی تنگی اور کسک بھی پیدا نہیں ہونا چاہئے ورنہ ایمان کی خیر نہیں۔
چنانچہ احادیث شریفہ سے بھی اس کی تائیدملتی ہے۔ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ؐ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی مومن نہ ہوگا جب تک کہ اس کی خواہشات
اس(شریعت) کے تابع نہ ہوجائے جسے لے کر میں آیا ہوں۔‘‘﴿مشکوٰۃ﴾
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے (خطبہ دیتے ہوئے)ارشاد
فرمایا:’’حمد وصلوٰۃ کے بعد(اب یہ بات سن لوکہ)بہترین کلام اﷲ کی کتاب(قرآن
ِمجید)ہے اور بہترین راستہ محمدؐ کا ہے اور بدترین باتیں وہ ہیں جو(دین
میں)نئی نکلی ہوں اوردین میں ہر نئی اور بڑھائی ہوئی بات گمراہی
ہے‘‘۔﴿مسلم﴾
حضرت مالک بن انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’میں تمہارے
درمیان دو چیزیں چھوڑ ے جارہا ہوں جب تک انہیں تھامے رہو گے ہر گزگمراہ نہ
ہوگے۔کتاب اﷲ اور سنت ِرسولؐ ‘‘۔﴿مؤطا امام مالکؒ﴾
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے میری امت
کے بگاڑ نے کے زمانے میں میری سنت کو اختیار کیا‘اس کے لئے سوشہیدوں کا
ثواب ہے‘‘۔﴿بیہقی﴾
علماء کرام نے اولیاء اﷲ کی چند علامات تحریر فرمائی ہیں جس میں سے ایک
علامت اتباع ِسنت کا اہتمام بھی ہے،تمام اولیاء اﷲ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جس
شخص کے افعال خلاف ِسنت ہوں،وہ اﷲ کا ولی نہیں ہوسکتا۔سلف ِ صالحین،صوفیہ
کرام اور اولیاء عظام رحمہم اﷲ جس طرح دین کے تمام امور میں عمل کی بے نظیر
مثال امت کے سامنے پیش کئے ہیں،اسی طرح ان کی سیرت میں سنت کے اہتمام کے
حیرت انگیز واقعات بھی بالکل روشن ہیں۔
حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت والد صاحب(یعنی مفتی محمد
شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان)کا جب مدینہ طیبہ جانا ہوتا اورروضہ اقدس پر
سلام عرض کرنے کے لئے حاضری ہوتی تو عام معمول یہ تھا کہ مواجہہ شریف کی
جالیوں سے کافی فاصلہ پر ایک ستون کے قریب سراپا ادب بن کر سرجھکائے کھڑے
رہتے اور اس سے آگے نہیں بڑھتے تھے(والد صاحب)فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اسی
ستون کے پاس کھڑا تھا،دل میں شوق پیدا ہوا کہ آگے بڑھ کر مقدس جالیوں کے
پاس پہنچ جاؤں،لیکن ہمت نہ ہوئی،اس پر حیرت سی ہونے لگی کہ لوگ آگے تک چلے
جاتے ہیں اور میں دور کھڑا رہوں،اسی دوران یہ محسوس ہوا کہ روضہ اقدس سے یہ
آواز آرہی ہے کہ کہہ دو کہ جو شخص ہماری سنتوں کا اتباع کرتا ہے وہ ہم سے
قریب ہے،خواہ بظاہر کتنا ہی دور ہو اور جو شخص ہماری سنتوں کا تابع نہیں
ہے،وہ ہم سے دور ہے،خواہ ہماری جالیوں سے چمٹ کر کھڑا ہو﴿ارشادات ِ اکابر و
میرے والد میرے شیخ﴾
حضرت بایزید بسطامیؒفرماتے ہیں کہ کسی شخص کو آسمان پر اڑتا ہوا دیکھ کر یہ
نہ سمجھ کہ یہ کوئی اﷲ کاولی ہے،بلکہ یہ دیکھو کہ اس کی زندگی میں سنتوں کا
اہتمام کتنا ہے۔﴿احیاء العلوم ﴾
امام غزالی ؒ نے شیخ محمد بن اسلمؒ کے متعلق نقل کیا ہے کہ انہوں نے ساری
زندگی تربوز صرف اس لئے نہیں کھایا کہ انھیں حضور ﷺ کے تربوز کھانے کا
انداز نہیں معلوم تھا۔﴿تبلیغ دین محشیٰ﴾
حضرت جنید بغدادی ؒ کو ایک خادم انتقال کے وقت وضو کرارہا تھا وہ داڑھی میں
خلال کرانا بھول گیا آپؒ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کہ وہ سنت بجالائے،لوگوں نے
کہا کہ حضرت ایسے وقت میں اتنی بھی رخصت نہیں،فرمایا کہ ہم خدا تک اسی کی
برکت سے پہنچے ہیں۔﴿تاریخ دعوت و عزیمت جلد سوم﴾
اﷲ جل شانہ سے دعا ہے کہ محض اپنے لطف و کرم سے پیارے آقا ﷺ اور ان کے تمام
اقوال و افعال کی محبت و عظمت اور امتیازیت ہمارے دلوں میں راسخ
فرمائے۔آمین ثم آمین
|